بھارت: جنسی ہراسانی کے الزام پر خاتون صحافی کے خلاف سابق وزیر کا ہتکِ عزت کا مقدمہ خارج


بھارت میں دہلی کی ایک عدالت نے خاتون صحافی پریہ رمانی کے خلاف سابق نائب وزیرِ خارجہ ایم جے اکبر کے ہتکِ عزت کا مقدمہ خارج کر دیا ہے اور خاتون صحافی کو الزامات سے بری کر دیا ہے۔

سال 2018 میں جنسی ہراسانی کے خلاف پوری دنیا میں خواتین نے ‘می ٹو’ مہم چلائی تھی جس کے دوران مذکورہ خاتون صحافی نے ایم جے اکبر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد ایس جے اکبر نے ان پر ہتک عزت کا کیس کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس الزام کی وجہ سے ان کی ستاروں کی مانند روشن ساکھ اور شہرت کو دھچکہ لگا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں ان کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ عدالتی فیصلے کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ متعدد اخبارات نے اداریے لکھ کر فیصلے کی ستائش کی ہے۔

‘ہراساں کیے جانے کے بعد متاثرہ فریق کے عزت و وقار پر حرف آتا ہے’

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ اعلیٰ سماجی حیثیت والا شخص جنسی استحصال نہیں کر سکتا۔ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد متاثرہ کے عزت و وقار پر حرف آتا ہے۔ کسی شخص کی ساکھ اور شہرت کا تحفظ دوسرے کے عزت و وقار کی قیمت پر نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے مزید کہا کہ بعض اوقات متاثرہ فریق کی جانب سے بدنامی کے خوف یا ذہنی اذیت کی وجہ سے برسوں تک آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ لیکن آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی فورم پر اپنی آواز بلند کر سکتا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ کسی کو اس لیے سزا نہیں دی جا سکتی کہ اس نے جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

فیصلہ ‘می ٹو’ مہم کی جیت ہے: پریہ رمانی

فیصلے کے بعد پریہ رمانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ان کے اور کام کے مقامات پر جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے والی خواتین کے مؤقف کی تائید ہے۔ یہ فیصلہ ‘می ٹو’ مہم کی جیت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ اب مزید خواتین آواز اٹھائیں گی اور عورتوں کے خلاف فرضی مقدمات داخل کرنے والے طاقتور مردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

‘بھارت میں خواتین جنسی استحصال کے خلاف نہیں بول پاتیں’

پریس کلب آف انڈیا کے صدر اور سینئر صحافی آنند کے سہائے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت مناسب فیصلہ ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان کو اعلیٰ عدالتیں بھی نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے ایم جے اکبر کے بارے میں جو تبصرہ کیا ہے وہ بالکل مناسب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پریہ رمانی کے حق میں 16 افراد نے گواہیاں دیں جس سے عدالت کو یقین آگیا کہ ایم جے اکبر بے قصور نہیں ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایم جے اکبر خواہ کتنے بڑے صحافی ہوں اور انہوں نے خواہ کتنی ہی کتابیں لکھی ہوں۔ کئی اخباروں کے ایڈیٹر رہے ہوں لیکن ان کی شہرت ستاروں کی مانند روشن نہیں ہے۔

انہوں نے پریہ رمانی کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے نے خواتین کو راحت دی ہے اور ان کے وقار کو بحال کیا ہے۔

آنند کے سہائے نے مزید کہا کہ بھارت کا معاشرہ ایسا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اپنے خلاف ہونے والے جنسی استحصال کے خلاف نہیں بول پاتیں۔ ان کے والدین بھی ڈرتے ہیں کہ انھوں نے کچھ کہا تو بدنامی ہوگی۔ لیکن اب عورتوں کی ہمت بڑھے گی ان کو حوصلہ ملے گا اور وہ اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر سکیں گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب کام کے مقامات پر عورتوں کے بارے میں مردوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ میڈیا ہاؤسز میں بھی ان کے بارے میں ذہنیت تبدیل ہو رہی ہے اور خواتین کو بھی برابر کا درجہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

‘لوگ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرکے خواتین کو چپ کرانا چاہتے ہیں’

فلم ساز، مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم وینا سبرامنین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ‘می ٹو’ مہم کی کامیابی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عورتوں پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ایم جے اکبر کا یہ مقدمہ بھی پریہ رمانی پر ایک طرح کا حملہ تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرکے خواتین کو چپ کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب عورتیں چپ نہیں رہ سکتیں۔

تاہم انہوں نے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا لیکن یہ بھی کہا کہ محض ایک فیصلے سے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں پورے معاشرے کو سوچنا ہو گا اور سماج میں خواتین کے تعلق سے تبدیلی لانی ہوگی۔

ایم جے اکبر پر الزامات

پریہ رمانی نے 2017 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 2013 میں ممبئی کے ایک ہوٹل میں ان کا جنسی استحصال کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس میں کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ لیکن جب 2018 میں پوری دنیا میں جنسی استحصال کے خلاف ‘می ٹو’ مہم شروع ہوئی۔ تو انہوں نے ایم جے اکبر کا نام لیا اور ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔

اس کے بعد تقریباً 20 خواتین نے ایم جے اکبر پر ایسے ہی الزامات لگائے تھے جس پر زبردست ہنگامہ ہوا تھا اور ایم جے اکبر کو 17 اکتوبر 2018 کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments