بدھا کی کہانی


خدا کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ کیوں انسان ہر وقت دکھی رہتا ہے؟ وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے انسان دکھی رہتا ہے؟ دنیا میں نفرت اور تعصب کیوں ہے؟ کیوں انسان ایک دوسرے سے منافقت کرتے ہیں؟ ایسے اور اس طرح کے سینکڑوں سوال آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے ایک انسان کے اندر سے ابھرے اور پھر اسی انسان نے ان سوالات کی حقیقت بھی بتائی۔ جس انسان کی ہم کہانی سنانے جا رہے ہی وہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے بادشاہ کے بیٹے تھے۔

سچ جاننے اور سمجھنے کے لئے انہوں نے بادشاہت ٹھکرا دی اور جنگلوں بیابانوں میں جا بسے۔ بے پناہ مسائل جھیلنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ زندگی کیا ہے اور کیسے انسان اپنی زندگی سے دکھ کو ختم کر سکتا ہے۔

آج کی تحریر میں ہم گوتم بدھ کی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔ گوتم بدھ ایک بادشاہ کے لاڈلے شہزادے تھے اور انہیں دنیا جہاں کی سہولیات میسر تھیں۔ بدھا کو بچپن میں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ انسان بچپن سے جوانی میں داخل ہوتا ہے اور پھر وہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ مر جاتا ہے۔

بدھا جوانی میں عیش پرستی کی زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن وہ سفر پر نکلے، انسانوں کی غربت اور بیچارگی دیکھی، دنیا میں غربت اور دکھ دیکھے تو حیران رہ گئے کہ کیسی ہے یہ دنیا؟ اس سفر کے بعد گوتم بدھ نے سوچا کہ یہ دنیا تو دکھ اور غم کا گھر ہے اور جس عیاشی کو وہ انجوائے کر رہے ہیں وہ تو دھوکا اور سراب ہے۔ اس سفر کے بعد وہ اس سوچ میں گم ہو گئے کہ دنیا سے دکھ اور غم کو کیسے ختم کیا جائے؟ بدھا کہتے تھے کہ ہر انسان بھگوان ہے۔

بدھا کے مطابق ہر وہ انسان جو دوسرے انسان کو نفرت اور تعصب سکھاتا ہے وہ انسان نہیں ہے اور ایسے انسان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ ایسا انسان کائنات اور فطرت کا دشمن ہے۔ بدھا کے بچپن کا نام سدھارتھ تھا۔ بدھا شتری قبیلے میں پیدا ہوئے تھے۔ بدھا 624 بی سی میں ایک علاقے میں پیدا ہوئے اس علاقے کا نام تھا لمبینی۔ لمینی نپال کا ایک علاقہ تھا۔ بدھا کے والد کا نام شددھودھن اور ماں کا نام مایا دیوی تھا۔

تاریخ دانوں کے مطابق بدھا کی پیدائش کے سات دن بعد ان کی والدہ مایا دیوی انتقال کر گئی تھی۔ بدھا کیونکہ بادشاہ کے بیٹے اور شہزادے تھے اس لئے ان کے والد نے انہیں پیار اور محبت سے پالا اور تمام بادشاہت ان کے قدموں میں رکھی دی۔ والد نے بدھا کی ایسی تربیت کی کہ ان کی خواہش تھی کہ گوتم بدھا ایک دن تمام دنیا پر حکومت کرے۔ بدھا کے والد نے کبھی بدھا کو دکھ کو دیکھنے تک نہ دیا اور نہ ہی دنیا کے مسائل سے واقف ہونے دیا۔

والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا تمام منفی خیالات اور منفی توانائی سے محفوظ رہے۔ بدھا کے ماننے والوں کو بدھسٹ اور اس روحانی سلسلے کو بدھ ازم کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں لاکھوں بدھ کے پیروکار ہیں۔ بدھ ازم کی بنیاد محبت اور پیار ہے اس لئے پوری دنیا میں بدھ ازم کے ماننے والوں کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اب والد کی خواہش تھی ان کا بیٹا عظیم بادشاہ بنے۔ اس لئے بدھا کو بچپن ہی سے خوشیوں سے بھری زندگی ملی تھی۔

محلوں میں رہتے تھے اور نایاب تالابوں میں نہاتے تھے۔ اس وقت وہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی ملبوسات زیب تن کرتے تھے۔ ہر قسم کی خوشی انہیں میسر تھی۔ وہ دکھ غم جیسے شبدوں سے بھی ناواقف تھے۔ ایسی تھی شروع کی بدھا کی زندگی۔ سولہ سال کی عمر میں بدھا کی شادی ایک لڑکی سے کر دی گئی اس لڑکی کا نام تھا یشودھڑا۔ یہ لڑکی بدھا کی کزن تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے شدت سے محبت کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

یشودھڑا نے ایک بچے کو بھی جنم دیا تھا جن کا نام تھا راہول۔ عیش و عشرت کی زندگی سے ایک دن بدھا تنگ آ گئے اور کہا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے محلات سے نکل کر دنیا جہاں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ بدھا ناواقف تھے کہ باہر کی دنیا کیسی ہوتی ہے اور لوگ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں؟ محل سے وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ سیر کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں آتے ہی انہوں نے ایک بوڑھے انسان کو دیکھا۔ ساتھی سے پوچھا کہ اس کی اتنی ابتر حالت کیوں ہے؟

اس نے بتایا کہ شہزداے یہ ایک بوڑھا انسان ہے جو غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بیمار ہے۔ اس کے بعد جتنا وہ دنیا کو دیکھتے چلے گئے ان کا ہزاروں غریب انسانوں سے واسطہ پڑا، غریبوں کے غم اور دکھ دیکھ کر بدھا پریشان ہو جاتے تھے اور کہتے دنیا تو دکھ کا گھر ہے اور ہر یہاں تو ہر انسان ہی مسائل کا شکار ہے۔ اس کے بعد وہ سوچتے دنیا تو ایسی نہیں جیسے انہیں دکھائی گئی ہے۔ سفر پر نکلنے سے پہلے وہ خوش تھے لیکن بعد میں بہت پریشان ہوئے۔

وہ سوچتے رہے کہ لوگوں کے پاس رہنے کو جگہ نہیں کھانے کو خوراک نہیں، وہ دکھی ہیں اور میں عیاشی کی زندگی گزار رہاہوں۔ یہ سب کچھ سوچ کر وہ اپنے آپ کو کوستے رہے کہ وہ کیسے ظالم شہزادے ہیں جنہیں اپنی رعایا کے دکھ و درد کا علم ہی نہیں۔ بدھا ایک حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ جانوروں اور پرندوں سے محبت کرنے والے بدھا انسان کی حالت دیکھ کر چونک گئے۔ اب ان کے دماغ میں ایک ہی بات تھی کہ یہ دکھ کیا ہیں اور کیوں ہیں اور کیسے دنیا سے دکھ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟

اپنے محل میں وآپس آنے کے بعد وہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ محل سے نکل گئے اور انتہائی غریب انسان کے طور پر زندگی گزارنا شروع کردی۔ ایسی غربت بھری زندگی کہ بھیک مانگنا شروع کر دیا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ انہوں نے اپنی مرضی سے انتہای مفلسی کی زندگی گزارنا شروع کی اور پھر جاکر انہیں معلوم پڑا کہ حقیقت میں دکھ کیا ہیں اور کیسے ان دکھوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟ وہ اکیلے جنگلوں میں رہتے رہے اور سچائی کی تک پہنچنے کی جدوجہد میں لگے رہے۔

ایک وقت ایسا بھی بدھا کی زندگی میں آیا جب وہ اپنی پیاری بیوی اور بیٹے تک کو بھول گئے۔ محل چھوڑنے کے بعد بدھا نے سالوں تک ایک گرو سے یوگا کی ٹریننگ حاصل کی، میڈیٹیشن کی ٹیکنیک کی تربت حاصل کی۔ پھر ایسا دور بھی آیا جب بدھا یوگا اور میڈیٹیشن کے ماہر بن گئے لیکن پھر بھی بے چینی اور اداسی کی کیفیت طاری رہی کیونکہ ابھی تک وہ سچائی سے ناواقف تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو شدید دکھ میں مبتلا کر دیا۔ اپنے جسم کو ہر قسم کی عیاشی سے محروم کر دیا اور ہر قسم کے دکھ درد اور غم کو جان بوجھ کر گلے لگا لیا۔پھر کہیں جا کر انہیں حقیقی سچ کے بارے میں معلوم پڑا۔

پھر وہ جان گئے کہ زندگی کیا ہے؟ گاڈ کون ہے؟ دکھ کیا ہیں؟ انسان کیوں خوشی سے محروم ہیں؟ اب اکثر و بشتر جب وہ درجوں دن پیپل کے درخت کے نیچے یوگا کی حالت میں بیٹھے رہتے اور کائنات محسوس ہوتے تھے۔ اب انہیں اپنا ہوش تک نہیں ہوتا۔ تمام خواہشات مٹ گئی۔ سدھارتھ یعنی بدھا کائنات تھے اور کائنات ان سے تھی، تمام سچائیاں گوتم بدھا کی گود میں تھی۔ پیپل کے درخت کے نیچے آنکھیں بند کر کے سالوں تک وہ بیٹھے رہے۔

بدھا کے مطابق محبت سچ ہے، ایک دوسرے کی مدد کرنا سچ ہے، یہ کائنات ہی خدا ہے، اور دنیا جہاں کا ذرہ ذرہ سب ایک ہیں۔

بدھا کے متعلق ایک واقعہ ہے کہ پیپل کے درخت کے نیچے وہ سالوں تک بیٹھے رہے اور اچانک ایک دن ان کی آنکھ کھل کھل گئی۔ انہٰن بھوک محسوس ہوئی کہ اچانک وہاں سے ایک لڑکی گزری جس کا نام سوجاتا تھا، لڑکی نے انہیں کھانے کے لئے کھیر دی۔ بدھا وہ کھیر کھا کر بہت خوش ہوئے۔ سالوں کے بعد کھیر کھانے کا جو شوق تھا اس سے وہ بہت خوش ہوئے اور پہلی مرتبہ انہیں خوشی کے سچ سے آگاہی ہوئی۔

اس کے بعد بہت سے افراد بدھا کے پیروکار بن گئے۔ بدھا کے ماننے والے ان لوگوں کو بدھسٹ کہا جاتا ہے جن کا نظریہ بدھ ازم ہے۔ بدھا نے اپنی زندگی میں سارے ہندوستان اور نیپال کا سفر کیا تھا اور اپنا پیغام دنیا تک پہنچایا اور وہ پیغام یہ تھا کہ زندگی محبت ہے، کائنات محبت ہے اور انسان اپنے آپ کا بھگوان ہے۔ بدھا محل سے نکلنے کے بعد کبھی ایک جگہ نہ رکے۔ ہمیشہ سفر میں رہے۔ اسی وجہ سے ان کا پیغام لاکھوں انسان تک پہنچا اور لاکھوں کی تعداد میں ان کے پیروکار تھے۔

اسی سال کی عمر میں بدھا کوشی نگر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ بدھ کیا ہے؟ بدھ کا مطلب ہے جو اپنی نیند سے جاگ جائے۔ بدھا کے مطابق حقیقی انسان وہ ہے جو پر لمحے شانت ہو اور ہر لمحے دکھ سکھ میں ا سکے چہرے پر مسکان رہے۔ پرانے لوگوں کے مطابق بدھا کی پیدائش نیپال کے ایک خوبصورت باغ میں اور چاند کی 14 ویں تاریخ کو ہوئی اور جب بدھا پیدا ہوئے تو آسمان سے پھولوں کی پتیوں کی پیدائش ہوئی اور زمین جھومنے لگی، اس وقت کے شہزادوں کے بال کر لی ہوا کرتے تھے، یا وہ بالوں میں جوڑا باندھا کرتے تھے، اور اسی لیے بدھا کے زیادہ تر مجسموں میں بدھا کے بال گھنگریالے ہوتے ہیں۔

ہندو ازم اور بدھ مت میں صرف یہ فرق ہے کہ ہندو مذہب میں کئی خداؤں کے وجود کا یقین کیا جاتا ہے لیکن بدھ مت میں خدا کے وجود کا تو تصور بھی موجود نہیں ہے بدھ مت کے پیروکاروں کے مطابق دنیا کا ہر بدھا بھگوان ہے۔ دنیا میں تقریباً 500 ملین افراد جو بدھا کے پیروکار ہیں، اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 10 فیصد بنتا ہے، دوسرے کئی مذاہب کی طرح بدھ مت کی بھی کوئی آسمانی یا روحانی کتاب نہیں ہے اور یہ نظریہ صرف زبانی تعلیمات پر ہی مبنی رہا اور خود بدھ مت کے پیروکاروں کے پاس اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ فلاں بات بدھا نے کہی تھی۔

بدھ مت کا دائرہ صرف تین بنیادی تصورات کے گرد گھومتا ہے۔

نمبر 1 :۔ کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔

نمبر 2 :۔ ہر عمل کا انجام ہوتا ہے۔

نمبر 3 :۔ تبدیلی یا تغیر ممکنات میں سے ہیں۔

بدھا کو عظیم پیشوا کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ وہ بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کرنے میں ماہر تھے۔ زندگی میں خوش رہنے کا راز بتاتے ہوئے بدھا کہتے ہیں کہ بے وجہ خواہشات ہی انسان کو غمگین کرتی ہیں۔ بدھا ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اس لئے ہندو بدھا کو اپنے دیوتاؤں میں شمار کرتے ہیں۔

اکثر چائنیز ریسٹوران میں لوگ ایک موٹا سا مجسمہ دیکھتے ہیں اور اسے بدھا سمجھتے ہیں لیکن وہ بدھا کا مجسمہ نہیں ہے بلکہ وہ چینی کہانیوں کا ایک کردار ہے جس کا نام بدھائی ہے۔ بدھ مت کے ماننے والے روح کی موجودگی پر یقین نہیں رکھتے اور صرف ظاہری جسم پر ہی یقین رکھتے ہیں اس کے علاوہ بدھ مت میں مرنے کے بعد سزا کا کوئی تصور موجود نہیں، اسی لئے بدھ مت میں جنت اور جہنم کا بھی کوئی تصور موجود نہیں ہے اور یہ تمام باتیں ان کے نزدیک انسانی ذہن اور دل کا فتور ہیں۔

بدھ مت کے قدیمی بزرگوں کے مطابق جب بدھا کو مرنے کے بعد جلایا گیا تو ان کا ایک دانت باقی رہا، اور وہی دانت اب سری لنکا کے ایک مندر میں موجود ہے۔ تحقیق کے مطابق بدھا کے سب سے پرانے مجسمے افغانستان میں ہوا کرتے تھے اور ایک مجسمہ تو پچھلے چند سالوں میں ہی دریافت ہوا تھا، جسے طالبان نے سال 2001 میں گرا کر توڑ دیا تھا۔ بدھا نے کبھی بھی خود کو خدا یا کسی قسم کی الٰہی ہستی خیال نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو دوسروں کو ”راہ دکھانے والا“ سمجھا تھا۔

ایسا صرف بدھا کی موت کے بعد ہوا تھا کہ ان کے بعض پیروکاروں نے انہیں دیوتا کے عہدے پر فائز کر دیا۔ بدھ مت سکھاتا ہے کہ نروانا انسانی ذات کی اعلیٰ اور خالص ترین حالت ہے اور یہ انفرادی تعلق کے وسیلہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ نروانا کا تصور عقلی تشریح اور منطقی ترتیب کی مزاحمت کرتا ہے لہٰذا اس کی تعلیم نہیں دی جا سکتی بلکہ یہ حالت صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔ بدھا کے پیروکاروں اور پرستاروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

ان کے چاہنے والے دنیا کے چاروں کونوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدھ ازم ایک مذہب ہے اور بدھا ایک لاکھ چالیس ہزار پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر تھے جو اس دنیا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہ تو بدھ ازم مذہب ہے اور نہ ہی بدھا پیغمبر تھے کیونکہ نہ تو وہ کسی آسمانی خدا کو مانتے تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی دعویٰ کیا کہ ان پر وحی اترتی تھی۔ وہ گناہ و ثواب پر یقین رکھتے تھے نہ ہی جنت دوزخ پر۔ ایسے لوگ بدھا کو ایک دانشور سمجھتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی نگاہ میں بدھا ایک ماہر نفسیات تھے کیونکہ وہ انسانی ذہن کے رازوں سے واقف تھے۔

بیسویں صدی میں بدھا کی مقبولیت کی ایک وجہ ہرمن ہیسے کا ناول سدھارتھا ہے جو بدھا کی زندگی کے بارے ہے۔ جب اس ناول کو ادب کا نوبل انعام ملا تو اسے لاکھوں لوگوں نے پڑھا اور ان کی بدھا کی زندگی اور تعلیمات میں دلچسپی میں اضافہ ہوا۔

مغرب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بدھا کو ایک ایسا انسان دوست فلاسفر سمجھتے ہیں جنہوں نے ہندو ازم کے روایتی مذہب اور اعتقادات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے عوام کو ترغیب دی کہ وہ برہمنوں کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کی پیروی کریں۔ بدھا نے عوام سے کہا کہ وہ آسمانی تعلیمات سے زیادہ اپنی عقل پر بھروسا کریں۔ بدھا خود بھی عوام سے برہمنوں کی دقیق، مشکل اور گنجلک زبان کی بجائے عام فہم زبان میں خطاب کرتے تھے تاکہ ان کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔

بیسویں صدی سے بدھا کے فلسفے کی مقبولیت کی وجہ سے کئی حلقوں میں MEDITATION AND MINDFULNESS کی روایات مقبول ہو رہی ہیں۔ جن لوگوں نے بدھا کے اقوال کا مجموعہ DHAMAPADA پڑھ رکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بدھا نے انسانی دکھوں کی تشخیص بھی کی اور ان کا حل بھی بتایا۔ ان اقوال سے بدھا کے شعور کی بلندی اور بصیرت کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں یہاں بدھا کی تعلیمات کے صرف چار اصولوں کا ذکر کروں گا تاکہ ناظرین کو بدھا کے فلسفے سے تعارف ہو سکے۔

بدھا کے فلسفے کا پہلا اصول یہ ہے کہ انسانی سوچ انسان کی جذباتی کیفیت کا تعین کرتی ہے۔ اگر انسان زندگی کے بارے میں مافوق الفطرت حوالے سے سوچیں گے تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گے اور اگر حقیقت پسندانہ انداز سے سوچیں گے تو ایک خوشحال زندگی گزاریں گے۔

بدھا کے فلسفے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ انسان کو ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھنا ہو گا۔ جو لوگ اپنے خیالات پر قابو نہیں رکھتے ، ان کی زندگی پر ان کے خیالات کا کنٹرول ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ Be master OF mind do not be mastered BY mind

یہ فرق بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن اس میں ذہنی صحت کا ایک بڑا راز پوشیدہ ہے۔ جو انسان اپنی سوچ اور اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھ جاتے ہیں وہ اپنی توجہ زندگی کی اہم مسائل پر مرکوز کرتے ہیں۔ اس طرح وہ غیر ضروری چیزوں پر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتے۔

بدھا کے فلسفے کا تیسرا اصول یہ تھا کہ انسان اس لیے دکھی ہوتے ہیں کہ وہ دنیاوی چیزوں سے دل لگا لیتے ہیں۔ وہ اس لگاؤ کی وجہ سے ان چیزوں سے بڑی بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہین اور ان کے سکھ آہستہ آہستہ دکھ بن جاتے ہیں۔

بدھا کے اصول پر مختلف روایتوں کے بہت سے سنت، سادھو اور صوفی عمل کر رہے ہیں اور درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ صوفیوں کے مطابق انسان کا دل ایک کشتی کی طرح ہے اور زندگی سمندر کی طرح۔ جب تک سمندر کا سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں ٹن پانی کشتی سے باہر رہتا ہے وہ محفوظ رہتی ہے لیکن اگر اس میں سوراخ ہو جائے اور دو گیلن پانی کشتی کے اندر آ جائے تو وہ دو گیلن پانی اسے ڈبو دیتا ہے۔ جب انسانی دل میں کوئی خواہش گھر کر لے تو وہ اسے دکھی کر سکتی ہے۔

بدھا کے فلسفے کا چوتھا اصول یہ تھا کہ جو لوگ صرف نیکی کی باتیں کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے وہ کبھی خوش نہیں رہتے۔ بدھا جانتے تھے کہ دنیا قوانین فطرت سے چلتی ہے اور نتائج کا انحصار عقائد سے زیادہ اعمال پر ہوتا ہے۔ اسی کو مکافات عمل کہاجاتا ہے۔

چونکہ بدھا کی ایک بہتر انسان بننے کی تعلیمات میں کہیں کسی آسمانی خدا، فرشتوں، مذہبی کتابوں، گناہ و ثواب ، جنت دوزخ کا ذکر نہیں اس لیے بھی وہ سیکولر دنیا میں زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ بدھا کا نیک انسان ایک کنول کے پھول کی طرح ہے جو دلدل میں رہ کر بھی اس سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ دنیا میں رہ کر بھی اس سے دل نہیں لگاتا۔

بدھا کی تعلیمات عیسائیت اور اسلام سے سینکڑوں سال پہلے کی ہیں۔ بدھا کا مشہور قول ہے کہ کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ کسی دانا انسان نے کہی ہے۔ کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ اسے سب مانتے ہیں۔ کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی مقدس کتاب میں لکھی گئی ہے۔ کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ کہ اسے کوئی اور مانتا ہے۔ صرف اس بات کو مانو جسے تم خود سچ سمجھتے ہو۔

بدھا کا موقف تھا انسان کا اپنا تجربہ اس کا سب سے بڑا استاد ہے۔ بدھا کا مشورہ تھا کہ ہر انسان کو اپنے ضمیر کی پیروی کرنی چاہیے اور دوسروں سے ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments