ماں بولی، سید حسن مرتضیٰ،مختارا اور پنجابی اکھان


کہتے ہیں ماں بولی زبان سب کو پیاری ہوتی ہے اور اس کا پرچار کرنا سب پر لازم ہے لیکن پنجابی کے ساتھ جو سلوک پنجاب میں کیا جا رہا ہے ، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ بچوں کے کلاس رومز سے لے کر بیڈ روم تک پنجابی بولنے پر ممانعت ہے جس کا نہ صرف پنجابی زبان کو بلکہ پنجابی کلچر اور پنجابی روایات کو نقصان پہنچے گا۔

21 فروری پنجابی ماں بولی کا عالمی دن ہے ، اس دن کا انعقاد اور پنجابی کی ترویج ایسے ہی کریں جیسے پچھلے ایک سال سے پنجابی کی کچھ تقاریر اور پنجابی اکھان کی کی جا رہی ہے۔

پنجابی کا وہ جملہ جو ندیم افضل چن نے بولا ، مہینوں زبان زد عام رہا (مختاریا وڑ جانی دیا) ۔ اس جملے میں پنجابی کے اس میٹھے لہجے کا کردار ہے جس سے ہر شخص محظوظ ہوتا ہے اور اس کو گالی کی بجائے بطور تنبیہہ لیتا ہے۔

ایک دو اکھان جو سید حسن مرتضیٰ  نے اسمبلی میں بیان کیے اور پنجابی ایسے سینکڑوں اکھانوں سے بھری پڑی ہے اور ان سب میں پیچھے ایک کہانی چھپی ہے۔ بے شک آپ میڈیم اردو یا انگلش ہی رکھیں لیکن پنجابی بطور سبجیکٹ اور پنجابی کو عام گھروں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔

اسی سلسلے میں سید حسن مرتضیٰ  نے پنجاب اسمبلی میں اسپیکر صاحب سے اجازت لے کر جو پنجابی میں خطاب کیا ہر پنجابی بولنے والا شخص سننا چاہتا ہے۔ حسن مرتضیٰ نے حلقے کے مسائل پنجابی زبان میں پیش کیے تو انہیں پذیرائی پورے پاکستان سے ملی اور جو پنجابی کے اکھان انہوں نے اپنی تقاریر میں استعمال کیے اس کو لوگوں نے نہ صرف انجوائے کیا بلکہ اسے سمجھا بھی ہے اور حقیقت کے قریب تر پایا ہے۔ پنجابی سے محبت کرنے والے لوگوں نے ان کی تقاریر اپنی فیس بک کی زینت بنانا باعث فخر سمجھا۔

پنجابی کے یہ اکھان کیسے ہر پاکستانی کو سمجھ آ گئے یہ بات قابل غور ہے ۔ اگر یہ تقاریر اور اکھان سب لوگوں کی سمجھ میں آ سکتے ہیں تو سائنس اور دوسرے مضامین جہاں سمجھانے کی غرض سے کیوں نہ ان کا پنجابی زبان میں ترجمہ کیا جائے تاکہ آسانی سے سمجھائے جا سکیں جس سے ماں بولی سے لگاؤ رہے گا اور دوسرا زبان بھی زندہ رہے گی۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پنجابی ایک میٹھی اور دل کو چھو لینے والی زبان ہے۔ سید حسن مرتضیٰ نے جو نمبردار اور گامے والا قصہ بیان کیا اور اسے سیاست سے جوڑا ،  یہ پنجابی زبان کا ہی خاصہ ہے کہ مزاح کی منفرد سہولت اس نے ہمیں دی ہے۔

دوسری تقریر میں حلقے کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے جب پنجابی زبان استعمال کرتے ہوئے سپیکر صاحب کو بتایا کہ چور کیسے گردنیں دبوچتے ہیں ، اگر یہ اردو یا انگلش میں کی جاتی ایک تو نہ یہ مشہور ہوتی اور نہ ہی اس پر کوئی عمل ہوتا لیکن جب اتنے لوگوں نے سنا، دیکھا اور شیئر کیا تب حکومت نے اس طرف خصوصی توجہ دی کہ یہ مسئلہ تو بہت گمبھیر ہے۔

لب و لہجے کا فرق ہو سکتا ہے لیکن بات لاقانونیت کی کی گئی جو کہ اس حکومت میں عام ہے ، سڑکوں پر ڈاکو دندنائے پھرتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر پنجابی نے شاہ صاحب کی تقاریر کو انجوائے کیا لیکن اس سے بڑی منافقت کیا ہو گی کہ لوگ اپنے بچوں کے پنجابی زبان بولنے پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔

سید حسن مرتضیٰ نے جیسے پنجابی کی نمائندگی پنجاب اسمبلی میں کی اور بھرپور طریقے سے مادری زبان میں اپنا موقف پیش کیا ، یہ خوش آئند بات ہے کہ ماں بولی زبان کی ترقی کے لیے سنجیدگی ایوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

پنجابی زبان ہر لحاظ سے مکمل اور شائستہ زبان ہے۔ ہر صوبہ اپنی اپنی زبان کی ترویج کے لیے بندوبست کرتا ہے لیکن پنجابی لوگوں نے ہمیشہ اپنی زبان بولنے میں عار اور شرم محسوس کی ہے۔ پنجابی اگر کوئی بول دے تو یا اسے جنگلی کہا جاتا ہے اور کہیں قومی سطح پر بول دے تو اسے ’پنجابی کارڈ‘ کہا جاتا ہے جس کی بھرپور مذمت ہونی چاہیے۔

ہم پنجابیوں کو اپنی ماں بولی زبان کو بچانا ہو گا۔ اگر سی ایس ایس یا پی ایم ایس میں آ کر طالب علم پنجابی پڑھنا پسند کرتے ہیں تو کیا انہیں میٹرک لیول سے ہی پنجابی بطور مضمون نہیں پڑھائی جا سکتی۔ پرائیویٹ سکولوں میں بھی پنجابی کی ترویج کے لئے خصوصی بندوبست کیے جانے چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments