ہم اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار تو نہیں؟


نویرا رات کی ڈیوٹی کر کے تھکی ہوئی آئی تھی۔ نکھٹو شوہر گھر پر نہیں تھا۔ بچوں کو ناشتہ کرا کے بکھرے گھر کو سمیٹ کر بستر پر لیٹی ہی تھی کہ آنکھ لگ گئی۔ تھکاوٹ اتنی زیادہ تھی کہ بچوں کے اودھم مچانے کے باوجود نیند کی وادیوں میں ایسی غرقاب ہوئی کہ دروازہ پیٹنے کی آواز پر بھی نہ اٹھ سکی۔ سات سالہ بچی نے دروازہ کھولا۔ مازن کے استفسار پر بچی نے بتایا وہ سو رہی ہے۔ فرعون مازن کے لئے بھلا یہ کیسے قابل قبول ہو سکتا تھا کہ باندی اس کی دستک کا جواب نہ دے، اس کے استقبال کو در پر نہ آئے۔

کیا ہوا جو رات بھر جاگ کر نوکری کی تھی تاکہ نکھٹو شوہر اور بچوں کا پیٹ پال سکے ، اسے یہ حق کس نے دیا کہ وہ مجازی خدا کی پکار پر حاضر نہ ہو۔ وہ غیظ و غضب میں بھرا ہوا باورچی خانے سے چھری اٹھا کر بیڈ روم میں گیا اور نویرا کی گردن پر رکھ کر چلایا ”اٹھ“ ۔ نویرا ہڑبڑا کر اٹھی تو لمحے بھر کو تو ایسا لگا کہ شاید وہ قبر میں ہے اور منکر نکیر اس سے عورت ہونے کے گناہ کا حساب طلب کر رہا ہے۔ بس یہی ایک گناہ تو اس سے سرزد ہوا تھا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ نویرا مازن کے جنون کا نشانہ بنی ہو۔ آئے روز کا یہی تماشا تھا۔ معمولی بات پر بچوں کے سامنے اسے بری طرح پیٹ ڈالتا۔ اگر وہ بھاگ کر کسی کمرے میں پناہ لیتی تو کھڑکی سے کود کر اندر گھستا۔ اس کی وحشت کو اس وقت تک قرار نہ آتا جب تک کہ اس کمزور عورت پر اپنی بزدلانہ مردانگی کے وار نہ کر لیتا۔ اور جب جسم و جاں کے زخموں سے چور نویرا سہمے ہوئے بچوں کو اپنی آغوش میں سمیٹے سسک رہی ہوتی تو یہ روتی سسکتی عورت مازن کے اندر کے حیوان کو تسکین دیتی، چوٹی سر کرنے کی تسکین اور پھر چولا بدل کر وہ چوٹی سی نیچے اتر آتا، بہت نیچے، نویرا کے قدموں میں۔ اپنی تھوتھنی اس کے پیروں میں رگڑتا، معافیاں مانگتا، توبہ کرتا۔ وہ توبہ جسے بہت جلد پھر ٹوٹنا ہوتا۔ اس کا منہ دھلاتا، زخموں پر مرہم لگاتا، لقمے بنا کر کھلاتا اور پھر پچکار کر اپنی جنسی بھوک مٹاتا اور ساتھ ہی یہ کہہ کر اسے پابند زباں بندی کر دیتا کہ اگر اس نے کسی کو کچھ بتایا تو اسے طلاق۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین! یہ بدصورت منظر کشی تہذیب کے منہ پر طمانچہ ہے ، نام نہاد تہذیب یافتہ ترقی پسند معاشرے میں یہ کریہہ صورت عفریت من مانی کرتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کا ہاتھ نہیں روکتا۔ گھریلو تشدد دراصل اس جنونی رویے کا نام ہے جس کا حامل خاتون خانہ پر فرعونی حاکمیت اور تسلط قائم اور برقرار رکھنے کے لئے مکر، فریب اور جسمانی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ یہ بدسلوکی زبانی کلامی، جذباتی، یا جنسی زیادتی بھی ہو سکتی ہے مگر اس کی سب سے مکروہ شکل جسمانی زیادتی کی ہے۔

ریسرچ کے مطابق گھریلو تشدد اور کسی معاشرے میں عورت کی حیثیت کا راست تعلق ہے۔ جس معاشرے میں عورت کو آج بھی پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہو اور گھریلو تشدد کو مرد کا حق تسلیم کر لیا گیا ہو، وہاں اس پر آواز کیونکر اٹھائی جا سکتی ہے۔ اسی لئے گھریلو تشدد کا جرم سب سے کم رپورٹ کیا جاتا ہے۔ سوہان روح یہ کہ جو عورت خود شوہر کے استبداد کا نشانہ بنی ہو، جب ساس بنتی ہے تشدد کے خلاف اپنے بیٹے کی گرفت نہیں کرتی بلکہ بعض حالات میں تو اشتعال انگیزی کر کے اس جرم میں آلہ کار بنتی ہے۔

جو بچے ایسے گھروں میں پلتے ہیں جہاں جسمانی تشدد کیا جاتا ہے ، وہ بہت کم عمری سے نفسیاتی اور جسمانی اعراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا تو وہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں یا پھر خوف، تنہائی پسندی اور مالیخولیا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جب بچے یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کی ماں پر تشدد کیا جاتا ہے تو باقی بااثر افراد یا تو چشم پوشی کرتے ہیں یا وہ اسے جائز اور معمول کے طور پر سیکھتے ہیں اور جب وہ خود ازدواجی رشتہ قائم کرتے ہیں تو ماضی کے عین الیقین کی روشنی میں اپنے کردار کا تعین کرتے ہیں ، بیٹی ظلم سہنے والی کا چولا پہنتی ہے یا پھر شادی سے ہی متنفر ہو جاتی ہے اور بیٹا مردانہ برتری کے خمار میں ایک اور عفریت بن جاتا ہے ، یوں یہ جنونی رویہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔

اس جنونی رویے کی شکار عورت کو بہت سے نفسیاتی اور جسمانی عارضے لاحق ہو سکتے ہیں جن میں دائمی درد، تھکاوٹ، بے چینی، خوف، بیزاری، اور چڑچڑاپن شامل ہیں۔ تاہم کبھی کبھی ایک بہت ہی الجھا ہوا ردعمل مشاہدے میں آیا ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والی عورت اس مرد سے محبت میں مبتلا رہتی ہے ، اس کی زیادتیوں کی تاویلیں گھڑ لیتی ہے۔ اس کی معمولی مہربانیوں کو محدب عدسے کی عینک سے ملاحظہ کرتے ہوئے احسان عظیم تسلیم کرتی ہے۔ جب وہ نوالے بنا کر کھلاتا ہے یا اس کے زخموں پر مرہم لگاتا ہے تو اس کی نرم دلی اور مہربانی کے ڈانگ بجاتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ زخم اسی ملعون نے دیے تھے۔

محبت کی یہ مسخ شدہ صورت اسٹاک ہوم سنڈروم (Stockholm syndrome) کہلاتی ہے  ۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جس میں زیادتی کا شکار فرد زیادتی کرنے والے سے لگاؤ کا تعلق قائم کر لیتا ہے اور اس کے ستم کو نظرانداز کر کے، اس کی معمولی مہربانیوں پر توجہ مرکوز کر کے اس کی محبت کا دم بھرتا ہے۔

گھریلو تشدد کا شکار افراد (عموماً خواتین) جس متضاد رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اسے دہشت کا لگاؤ (terror bonding ) ، کچلے ہوئے فرد کا عارضہ (Battered person syndrome) ، اور دانستہ بے بسی (learned helplessness) ، سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت مضروب اپنی زندگی بچانے کے لئے لاشعوری طور پر یہ حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ محبت کا اظہار کر کے وہ جابر سے رعایت حاصل کر لے گا، جان کی امان پالے گا یا پھر اذیت کو نشاط میں بدل دے گا۔ جب کوئی اسے بچانے کے لئے آگے آتا ہے تو تعاون کرنے سے انکار کر دیتا ہے کیونکہ اس کے لاشعور میں یہ خوف مستحکم ہوتا ہے کہ جابر اسے نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹاک ہوم سنڈروم کا نام 1973 میں نلس بجیروت (Nils Benefit) نے تجویز کیا تھا۔ وہ ایک نفسیات دان اور کرمنالوجسٹ تھا۔ وجہ تسمیہ اسی سال اگست میں ہونے والے ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کے واقعے سے منسلک ہے۔ اس واقعے نے انسانی رویے کے نئے پیچ و خم کھولے۔

23 اگست 1973 کی خوشگوار صبح تھی۔ جیل سے مفرور مجرم جین ایرک اولسن سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی گلیوں میں ٹہلتا ہوا ایک بنک (Sveriges kredit bank ) میں داخل ہوا۔  بازو پر جھولتی ہوئی اپنی جیکٹ کے نیچے سے سب مشین گن نکالی۔ ہوائی فائر کر کے لوگوں کو متوجہ کیا اور بناوٹی امریکی لہجے میں چلایا۔

’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ”
(جی ہاں، یہ زبان زد عام فقرہ وہیں سے مستعار لیا گیا ہے )

گارڈ الارم دبانے کو لپکا لیکن اولسن نے فائر کر کے اسے لٹا دیا۔ اس نے بنک کے چار ملازمین، ایک مرد اور تین خواتین کو یرغمال بنا کر لاکر روم میں محبوس کر دیا جہاں وہ چھ دن تک قید رہے۔ اس نے مطالبہ کیا کہ اسے 700,000 ڈالر، ایک گاڑی اور پٹرول دی جائے۔ اس کے ساتھی کلارک اولوفسن کو رہا کیا جائے اور مغویوں کے ہمراہ راہ فرار دی جائے ۔ حکومت نے مطلوبہ رقم اور فورڈ گاڑی اس کے ساتھی کے ہمراہ پہنچا دی مگر اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ مغویوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔

ان چھ دنوں میں مغوی اپنے اغواء کاروں اولسن اور کلارک سے انوکھی انسیت کا شکار ہو گئے اور حکومت کے فیصلے پر اتنے برہم ہوئے کہ ایک مغویہ نے وزیراعظم کو خط ارسال کیا کہ پولیس کی نسبت وہ اغواء کاروں کے ہمراہ نکلنے کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ رہائی کے بعد مجرموں کے خلاف بیان دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اغواء کاروں نے بہت ہمدردی کا سلوک روا رکھا مثلاً جب کرسٹین کو ٹھنڈ لگی تو اس کے شانوں پر گرم جیکٹ اوڑھائی۔

برجیتا کو اپنے گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی سہولت دی اور الزبتھ نے جب حبس کی شکایت کی تو اس کے گلے میں تیس فٹ رسی باندھ کر اجازت دی کہ وہ رسی دراز کر کے کھلی فضا میں چہل قدمی کر سکتی ہے۔ وہ ان معمولی مہربانیوں پر مجرموں کے شکرگزار تھے مگر اس ادراک سے بے بہرہ کہ ان کی اس صعوبت کے ذمہ دار وہی ہیں جنہیں وہ مشکل کشا سمجھ رہے ہیں۔

اسٹاک ہوم سنڈروم کو عوامی شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب 1974 میں امریکی اخبار کے مالک کی انیس سالہ ہوتی پیٹی ہرسٹ کو اغواء کیا گیا۔ قید کے دنوں میں اغواء کاروں کے لئے مثبت جذبات پیدا ہوئے اور مختلف بنک ڈکیتیوں میں ان کا آلہ کار بنی۔ گرفتاری کے بعد جب مقدمہ چلا تو پیٹی کے وکیل نے دلیل دی کی کم عمر لیٹی اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہونے کی وجہ سے مجرموں کی اعانت کرتی رہی۔

اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اسٹاک ہوم سنڈروم کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

یہ بیماری افراد کو ہی نہیں قوموں کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ کیا ہماری قوم اپنے لیڈران کے لئے اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments