عمران خان کا دورہ: سری لنکا اور پاکستان کے بڑھتے تعلقات کیا انڈیا کے لیے نیا چیلنج ہو سکتے ہیں؟


عمران اور راج پکشے

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سری لنکا کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان سری لنکا کے صدر گوٹابھایا راج پکشے اور وزیر اعظم مھیندا راج پکشے سے ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ سرمایہ کاروں کی ایک کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔

عمران خان کا یہ دورہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے سری لنکا کے دورے سے قبل سری لنکا کے مقامی میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان کے وزیراعظم کا سری لنکا کی پارلیمان سے خطاب کا منصوبہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی دعوے سامنے آئے کہ عمران خان کے خطاب کو منسوخ کیے جانے کے پس پشت انڈیا ہے اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سری لنکا کی پارلیمان میں مسئلہ کشمیر اٹھا سکتے تھے اور یہ دہلی کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے جبکہ ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ عمران خان سری لنکا کی پارلیمنٹ میں وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں بات کر سکتے تھے۔

تاہم سری لنکا کا کہنا ہے کہ خطاب کی منسوخی کی وجہ کووڈ 19 کی پابندیوں اور ضابطہ کار کے باعث کی گئی ہے۔

کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے کسی دوسرے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنا اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔ سری لنکا کی حکومت یہ اعزاز پاکستان کے وزیر اعظم کو دینا چاہتی تھی جو دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کا کی عکاسی ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مارچ سنہ 2015 میں سری لنکا کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کے سری لنکن پارلیمان سے خطاب کی منسوخی کی وجہ سری لنکن مسلمان یا انڈیا؟

سری لنکا میں چین کی سرمایہ کاری کے خلاف پرتشدد احتجاج

وزیراعظم عمران خان کی سری لنکا کے مسلمان اراکین پارلیمان سے ملاقات ’سکیورٹی خدشات‘ کی وجہ سے منسوخ

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا موجودہ دورہ اس لیے بھی زیر بحث ہے کیوں کہ سری لنکا عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے انڈیا اور چین کے لیے اہم ہے۔ دوسری طرف چین اور پاکستان کی دوستی انڈیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

عمران سری لنکا میں

بہر حال اس غیر ملکی دورے سے وجود میں آنے والے توازن پر بات کرنے سے قبل آئیے سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں۔

بہت پرانے اور گہرے تعلقات

پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات کو تجارت، دفاع اور ثقافتی شراکت کی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سارک (ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کواپریشن) خطے میں سری لنکا کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار پاکستان ہے۔ سری لنکا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔

یہ معاہدہ سنہ 2005 میں ہوا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں سری لنکا کے قونصل خانے کے مطابق سنہ 2005 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی جو سنہ 2018 میں بڑھ کر 50 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہوگئی۔ بہرحال، اگر تجارت کے توازن کی بات کی جائے تو یہ ہمیشہ ہی پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ پاکستان کی برآمدات سری لنکا سے زیادہ رہی ہیں۔

سری لنکا سے پاکستان کو برآمد کی جانے والی اشیا میں خشک ناریل، ایم ڈی ایف بورڈ، سپاری یعنی ڈلی، چائے، کپڑے، صنعتی اور سرجیکل دستانے، کریپ اور شیٹ ربڑ، ڈبے، بکسے، بیگ، ناریل کا تیل، بنے ہوئے کپڑے اور جانوروں کے چارے شامل ہیں۔

ان میں سے خاص طور پر سپاری یعنی ڈلی، حال میں خبروں میں زیادہ رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ کشیدگی کے سبب پاکستان میں انڈین سپاری کی برآمدات میں خلل پڑا تھا۔ پاکستان میں سپاری کی فراہمی اب سری لنکا سے ہوتی ہے۔

سری لنکا سے پاکستان میں چائے کی برآمدات بھی بڑھی ہے لیکن پاکستان کی چائے کی مارکیٹ پر زیادہ تر کینیا کا قبضہ ہے۔

سری لنکا کے قونصل خانے کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1984 تک پاکستان کو چائے کا سب سے بڑا سپلائی کرنے والا ملک سری لنکا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ پاکستان میں جس قسم کی چائے کا استعمال ہوتا ہے، چین اس قسم کی چائے کا صرف 10 فیصد پیدا کرتا ہے۔

پاکستان سے سری لنکا کو برآمد کی جانے والی اشیا میں پورٹ لینڈ سیمنٹ، دوائیں، آلو، بنے ہوئے کپڑے، پائپ اور ٹیوب، بیڈ ٹیبل، کچن ٹوائلٹ لینن، چاول، ڈینم فیبرک، مچھلی وغیرہ شامل ہیں۔

دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ سرمایہ کاری انتہائی درمیانی سطح پر ہے۔ فی الحال سری لنکا میں پاکستانی سرمایہ کار کیمیکل، ربڑ، پلاسٹک، ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ، چرمی مصنوعات، خوراک اور مشروبات وغیرہ کے شعبوں میں کچھ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

عسکری تعلقات میں قربت

پاکستان اور سری لنکا کے عسکری تعلقات کے بارے میں بات کریں تو لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے ساتھ جنگ کے دوران دونوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ اس وقت پاکستان نے ایل ٹی ٹی ای سے مقابلہ کرنے کے لیے سری لنکا کی فوج کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔

سنہ 1971 کے دور میں انڈیا نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں تنازعات کے درمیان اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت سری لنکا نے مغربی پاکستان کو فضائی حدود فراہم کی تھیں۔

پاکستان بھی سری لنکا کو بنیادی چھوٹے ہتھیار سپلائی کرتا رہا ہے۔ نیز دونوں ممالک کی مشترکہ فوجیں مشقیں بھی ہوتی رہی ہیں۔

تاہم مارچ سنہ 2009 میں لاہور میں منعقدہ کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد کچھ کھلاڑیوں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ سری لنکا کے کرکٹ بورڈ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کھلاڑیوں کی ایما پر چھوڑ دیا تھا۔

مودی اور مہندا

انڈیا اور پاکستان کے درمیان کردار

انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے قومی مدیر اور بین الاقوامی امور کی ماہر نیروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان بہت گہرے تعلقات رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سری لنکا کے آزاد ہونے کے بعد سے ہی پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کاروباری، عسکری، دفاعی اور ثقافتی ہر سطح پر اچھے تعلقات رہے ہیں۔ عسکری تعلقات زیادہ مضبوط ہیں۔ جس طرح انڈیا اور سری لنکا کے مابین تعلقات ہیں اسی طرح سری لنکا اور پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔‘

’ایل ٹی ٹی ای کے خلاف پاکستان نے ہتھیاروں سے لے کر سری لنکا کی ہر طرح مدد کی تھی۔ سری لنکا کی فوج کی پاکستان میں تربیت ہوتی ہے۔‘

تاہم نروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں پاکستان کا اتنا کردار نہیں ہے جتنا انڈیا کا ہے۔ اس معاملے میں چین اور انڈیا مد مقابل ہیں۔

اگر پاکستان اور سری لنکا کے عوام کے درمیان تعلقات کی بات کریں تو نروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے عوام کا پاکستان میں خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انھیں بہت پیار اور احترام ملتا ہے۔

شی جن پنگ اور مہندا

انڈیا کے لیے اس دورے کی اہمیت

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا سری لنکا کا دورہ نہ صرف انڈیا اور پاکستان کے تناظر میں بلکہ انڈیا، پاکستان اور چین کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

سری لنکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انڈیا اور چین کے درمیان غیر مستحکم صورتحال رہتی ہے۔ کبھی انڈیا اور کبھی چین کی مداخلت کی بات کہی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین کی پاکستان سے قربت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا عمران خان کا دورہ انڈیا کے لیے کوئی نیا چیلنج لے کر آ سکتا ہے۔

اس کے متعلق جے این یو میں سینٹر فار ساوتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’پورے ایشیا میں تعلقات از سر نو طے ہو رہے ہیں، خواہ اسلامی دنیا ہو یا جنوب مشرقی ممالک۔ چین اقتصادی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنا سپورٹ بیس بنا رہا ہے۔ اگر ہم انڈیا کے تناظر میں سری لنکا اور پاکستان کو دیکھیں تو وہ چھوٹے ممالک ہیں اور سری لنکا میں پاکستان انڈیا کے لیے کوئی بڑا چیلنج پیش نہیں کرنے جا رہا ہے۔

’لیکن سری لنکا میں راج پکشے برادران چین کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سری لنکا کے انتخابات سے قبل انڈیا کی حمایت کہیں نہ کہیں سابق صدر میتریپال سری سینا کو تھی۔ حال ہی میں راج پکشے حکومت نے ٹریڈ یونینوں کی مخالفت کے بعد انڈیا کے ساتھ ایسٹ کنٹینر ٹرمینل معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔‘

پروفیسر بھاردواج کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں جو انڈیا مخالف عناصر ہیں انھیں پاکستان اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین بھی ان میں ایک ہے۔ چین ان تمام ممالک کو قریب تر لا رہا ہے جو امریکہ کے قریب رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی انڈیا کے خدشات کو بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسائل حل کرنے میں الجھا رہے اور چین کے خلاف جارح نہ ہو سکے۔

اگرچہ سری لنکا کی حکومت کو بھی انڈیا کی ضرورت ہے اور اس کے بارے میں مثبت علامات بھی سامنے آرہی ہیں۔ مہندا راج پکشے انڈیا کے دورے پر آ چکے ہیں انڈین وزیر خارجہ راج پکشے کے حکومت بنانے کے اگلے ہی دن وہاں پہنچ گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی اور عسکری تعلقات کی بات کریں تو دونوں ممالک ایک ہی سطح پر ہیں۔ تجارت میں پاکستان کی برآمدات زیادہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں کاروبار عمران خان کے اس دورے میں کوئی اہم مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔

کچھ معاملات پر خاموشی

بہر حال سری لنکا اور پاکستان کے مابین اچھے تعلقات کے باوجود کچھ معاملات ایسے ہیں جن کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں چرچ پر ہونے والی بمباری کے بعد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس ملک میں فسادات بھی ہوئے ہیں۔ راج پکشے سنہالا بدھ مت قوم پرست تنظیم بوڈو بال سینا کی حمایت کرتے رہے ہیں جبکہ اقلیتی مسلم برادری اس کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ لہذا مسلمان سمیت دیگر اقلیتی برادری راج پکشے حکومت میں بہت پرسکون محسوس نہیں کرتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ بار بار سامنے آتا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا اس معاملے پر کھل کر حمایت یا مخالفت میں سامنے نہیں آتے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم سری لنکا میں مسلمانوں کی صورتحال پر کبھی بیان نہیں دیتے ہیں۔ تاہم پاکستان اس کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مسلم دنیا کے قائد کی حیثیت سے نظر آنا چاہتا ہے اور چین کی طرح سری لنکا کا قرض دار بھی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اس دورے سے کوئی ٹھوس نتائج حاصل کرنا مشکل ہے۔

دوسری جانب نروپما سبرامنیم کا خیال ہے کہ عمران خان کا یہ دورہ خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جب سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں انھوں نے دوسرے ممالک کا بہت کم دورہ کیا ہے۔ درمیان میں کورونا کی وبا بھی ایک بڑی رکاوٹ بن گیا۔

ان کا خیال ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں سری لنکا توازن رکھنا جانتا ہے۔ اسی کے ساتھ انڈیا سری لنکا میں پاکستان کو اپنا مد مقابل بھی نہیں مانتا ہے۔ لہذا اس سے انڈیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم سری لنکا کے دورے پر جا رہے ہیں کیونکہ مختلف ممالک کے وزیر اعظم کا ایک دوسرے ممالک کا دورہ کرنا معمول کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp