کیپٹل ہل پر حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھی: سابق حکام کا الزام


سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے چھ جنوری 2021 کو امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی کانگریس کی عمارت ‘کیپٹل ہل’ پر حملہ کیا تھا۔

امریکی دارالحکومت کی سیکیورٹی کے سابق ذمہ داران نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل کمپلیکس حملے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے “باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت” کیا گیا تھا۔

کیپٹل پولیس کے سابق چیف اسٹیون سنڈ، سابق ہاؤس سارجنٹ آرمز (پروٹوکول افسر) پال ارونگ اور سینیٹ سارجنٹ آرمز مائیکل اسٹنگر نے منگل کو سینیٹ کی ‘ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی’ اور ‘رولز اینڈ ایڈمنسٹریشن کمیٹی’ کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیانات قلم بند کرائے۔

یاد رہے کہ سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کمپلیکس پر اُس وقت دھاوا بولا تھا جب وہاں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔

حملہ آوروں نے عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی جس کے باعث ارکانِ کانگریس محصور ہو کر رہ گئے اور بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کا عمل تعطل کا شکار رہا تھا۔

مذکورہ حملے سے متعلق سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی کی جانچ پڑتال کی سینیٹ میں یہ پہلی سماعت ہے۔ آئندہ ہفتے ہونے والے دوسری سماعت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے سابق حکام، محکمۂ دفاع اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے حکام شہادت کے لیے پیش ہوں گے۔

منگل کو سماعت کے دوران سابق سیکیورٹی حکام نے گواہی دی کہ وہ کیپٹل ہل پر ایک بڑے احتجاج اور ممکنہ طور پر تشدد سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن ان کے پاس یہ خفیہ معلومات نہیں تھیں کہ ٹرمپ کے حامی کانگریس پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

سابق کیپٹل پولیس چیف اسٹیون نے کہا کہ دارالحکومت میں ہلہ بولنا ناقص پلاننگ یا ناکامی کا نتیجہ نہیں کیوں کہ مناسب تیاری کے لیے خفیہ معلومات نہیں تھیں اور کیپٹل کے دفاع کے لیے پولیس کو انتہائی پرتشدد ہجوم سے نبرد آزما ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ چھ جنوری کو ٹرمپ کے ہزاروں حامی وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے تھے جہاں انہوں نے صدر کا خطاب سننے کے بعد کیپٹل ہل کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق ٹرمپ کے 800 حامی مختلف مقامات پر پولیس کی جانب سے رکھی گئی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے کانگریس کی عمارت پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے پولیس افسران کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور کانگریس کے ارکان کو بھی دھمکایا۔

اس حملے میں کیپٹل پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک اور 140 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

کیپٹل ہل پر حملے اور سیکیورٹی کی ناکامی سے متعلق کئی سوالات اٹھنے پر کیپٹل سیکیورٹی کے تین اعلیٰ حکام نے فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

کیپٹل ہل حملہ: امریکہ میں مقیم تارکینِ وطن کیا سوچ رہے ہیں؟

تینوں سابق حکام نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ یہ حملہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا اور بعض حملہ آور اپنے ساتھ ریڈیو مواصلات کے برقی آلات اور بلندی پر چڑھنے کے لیے ساز و سامان بھی لائے تھے۔

چھ جنوری کو پولیس کی تیاریوں کا دفاع کرتے ہوئے سند نے کہا کہ حملے سے تین روز قبل خفیہ معلومات تھیں کہ چھ جنوری کو اسی طرح کی ریلی ہو گی جس طرح نومبر اور دسمبر میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے واشنگٹن میں ریلیاں نکالی تھیں۔

اسٹیون کے بقول انہوں نے ایک مربوط سیکیورٹی پلان ترتیب دیا تھا جس کے تحت چھ جنوری کو کیپٹل ہل کے اطراف لگ بھگ 1200 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

تین سابق عہدے داروں نے کہا کہ ایف بی آئی کی جانب سے پانچ جنوری کو جاری کی گئی معلومات ان تک نہیں پہنچیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایسی معلومات موجود ہیں کہ چھ جنوری کو پرتشدد واقعات ہو سکتے ہیں۔

ایف بی آئی کے ‘نورفالک فیلڈ آفس’ نے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں آن لائن خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ کہا جا رہا ہے “وہاں پہنچو اور جنگ کے لیے تیار رہو۔”

وائس آف امریکہ کو ایک ای میل میں ایف بی آئی نے کہا ہے کہ اُس نے واشنگٹن میں دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔

ایف بی آئی کے مطابق انہوں نے نہ صرف ‘جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس’ کو یہ معلومات فراہم کیں بلکہ اسے ‘انفورسمنٹ انٹرپرائز پورٹل’ پر بھی اپ لوڈ کر دیا تھا جہاں ملک بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران موجود ہیں۔

سینیٹ کمیٹی میں مذکورہ رپورٹس کے حوالے سے سنڈ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ رپورٹ کیپٹل پولیس کے سارجنٹ کو بھیجی گئی تھیں۔ تاہم یہ چین آف کمانڈ سے نہیں گزری۔ دو سابق سارجنٹ آرمز نے کہا کہ اُنہیں ایسی کوئی معلومات موصول نہیں ہوئیں۔

سماعت کے دوران سینیٹ کمیٹی برائے رولز اینڈ ایڈمنسٹریشن کی چیئرپرسن سینیٹر ایمی کلوبچر نے کہا کہ “حقیقت یہ ہے کہ خفیہ معلومات کی رپورٹ ہاؤس اور سینیٹ سارجنٹ آرمز تک نہیں پہنچی جو کہ بہت پریشان کن بات ہے اور یہ انٹیلی جنس کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔”

ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے جب سیکیورٹی ناکامی سے متعلق سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا محکمہ وفاقی، ریاستی، مقامی، قبائلی اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ مقامی دہشت گردوں کی جانب سے آن لائن پوسٹ کردہ خطرات کی نشاندہی کی جا سکے۔

اسٹیون نے ہاؤس اور سینیٹ کے سابق سارجنٹ آرمز پر الزام عائد کیا کہ وہ نیشنل گارڈز کی مدد کی درخواست پر فوری طور پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔

کیپٹل پولیس بورڈ نے ایوانِ نمائندگان کے پروٹوکول افسر کو کہا تھا کہ وہ نیشنل گارڈ کی معاونت کی درخواست کی لازمی منظوری دیں۔

اسٹیون نے کہا کہ جب انہوں نے واقعے سے دو روز قبل نیشنل گارڈز کی مدد کی درخواست کی تو ہاؤس سارجنٹ آرمز نے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور یہ تاثر دیا کہ “اُنہیں نہیں لگتا کہ انہیں نیشنل گارڈ کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس حوالے سے خفیہ معلومات موجود ہیں۔”

اسٹیون نے کہا کہ سابق پروٹوکول افسر ارونگ کو اس بات پر خدشات تھے کہ نیشنل گارڈ کی طلبی پر کیا تاثر لیا جائے گا۔

البتہ ارونگ کا کہنا تھا کہ ہم نے مشاورت کی تھی اور اجتماعی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ انٹیلی جنس نے دارالحکومت میں نیشنل گارڈز رکھنے کی ہدایت نہیں کی تھی۔

یاد رہے کہ سینیٹ میں کیپٹل ہل پر حملے میں سیکیورٹی کی ناکامی پر سماعت ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب ہاؤس اسپیکر نینسی پیلوسی نے چھ جنوری کے واقعے پر نائن الیون حملوں کے طرز پر آزاد کمیشن بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments