لاپتہ افراد: ’گمشدہ‘ والدین کی بیٹیوں پر کیا گزرتی ہے اور انھیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟


 

لاپتہ افراد

(دائیں سے بائیں) سمیع بلوچ، ماروی ایوب، عائشہ مسعود اور امّ البنین چنگیزی نے بی بی سی سے اپنے تجربات کے حوالے سے بات کی

’اگر میرے والد کو نہیں اٹھایا گیا ہوتا تو آج میں بھی باقی لڑکیوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر نخرے کرتی، اپنی خواہشیں منواتی۔۔۔ میں اپنے بال سنوارتی، لپ سٹک لگاتی، سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں لگاتی۔ میری سب سے بڑی پریشانی یہ نہ ہوتی کہ میری والدہ کی طبیعت کب ٹھیک ہو گی یا کب میری بہن اپنی پڑھائی مکمل کر پائے گی۔ میرے کندھے ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد ہوتے۔۔۔‘

یہ کہنا ہے سمی بلوچ کا جن کے والد 2009 سے لاپتہ ہیں۔ حال ہی میں ان کی وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید سے ملاقات ہوئی جس سے وہ نا امید واپس لوٹیں ہیں۔

انھوں نے بتایا ’ہمیں صاف لفظوں میں کہہ دیا گیا ہے کہ حال ہی میں لاپتہ ہونے والے افراد کو تو واپس لایا جا سکتا ہے لیکن جو لوگ 10 یا 12 سال پہلے لاپتہ ہوئے ہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔‘

پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ کیے گیے افراد کا معاملہ ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی طرح ہے۔ جس میں تقریباً ہر ماہ تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

11 سال سے لاپتہ والد کی راہ تکتی سمی بلوچ کی کہانی

’لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے‘

ادریس خٹک: ’میرے والد کو اغوا کیا گیا اور مجھے نہیں پتہ کیوں؟‘

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جبری گمشدگی کا پہلا کیس سنہ 1970 کی دہائی میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد سے اب تک سینکڑوں افراد جبری لاپتہ لوگوں کی ’ان دیکھی‘ فہرست میں شامل ہوتے رہے ہیں۔

لاپتہ افراد کے کمیشن کے مطابق اس وقت پاکستان سے 2122 افراد لاپتہ ہیں۔ جن کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنے اور ریلیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ ان دھرنوں میں لاپتہ افراد کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں پیش پیش رہی ہیں۔

بی بی سی نے اس معاملے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے چند لاپتہ افراد کی بیٹیوں سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کے لیے ایک لاپتہ شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب کیا ہے؟

’میری امّی آدھی بیوہ ہیں‘

25 برس کی عائشہ مسعود نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک لاپتہ شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب ہے کہ مجھے نہیں پتا کہ میرے والد کس حالت میں اور کہاں ہیں، اگر نہیں رہے تو کون بتائے گا؟ میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں جبکہ ہمیں اس بات کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے کہ والد کے شناختی کارڈ کو استعمال کریں یا نہیں؟ کیا ہم جیسے لوگوں کے لیے قانون میں کوئی شِق شامل کی جاسکتی ہے جس سے انھیں ’لاپتہ افراد کے خاندان‘ کا سٹیٹس دے دیا جائے؟ تاکہ ہم اپنی زندگی کے باقی کام نمٹا سکیں؟‘

عائشہ نے کہا ’میں نے اپنی دوستوں کو کہہ دیا تھا کہ مجھ پر رحم نہ کھائیں۔ مجھ سے ویسا ہی رویہ رکھیں جیسا کہ باقی لوگوں کے ساتھ رکھتے ہیں۔‘

عائشہ مسعود نو سال کی تھیں جب ان کے والد مسعود جنجوعہ سنہ 2005 کو لاپتہ ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان کو اب بھی یاد ہے کہ اپنے والد کی بازیابی کے لیے انھوں نے بہت چھوٹی عمر میں اپنی والدہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ ایک دھرنے میں شرکت کی۔

انھوں نے بتایا: ’میں نے اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے ایک بینر اٹھایا ہوا تھا۔ جس پر لکھا تھا کہ ’مسٹر پی ایم، ویئر از مائی فادر؟‘

عائشہ کی یہ تصویر تمام تر اخبارات اور چینل میں چھپی اور نشر کی گئی۔ ’میں اس کے بعد دو ہفتے سکول نہیں گئی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ سکول میں سب مجھ سے سوال پوچھیں گے۔‘

عائشہ کا خوف دیکھتے ہوئے ان کی والدہ نے کلاس ٹیچر سے درخواست کی کہ باقی بچوں کو الگ سے سمجھائیں کہ میری بیٹی سے یہ سوال نہ پوچھیں۔

’مگر ٹیچر نے پوری کلاس کے سامنے کہہ دیا کہ کوئی بھی عائشہ سے نہیں پوچھے گا کہ اس کے والد کیوں لاپتہ ہیں اور کہاں چلے گئے ہیں۔ میں اس وقت لال ہو گئی تھی کیونکہ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔‘

کلاس میں ہونے والے اس واقعے کے بہت برسوں بعد انھوں نے اس بارے میں بات کرنے کی ٹھانی۔

لاپتہ افراد احتجاج

’میں نے یونیورسٹی میں سب کے سامنے اپنے والد کے بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ میں کانپ رہی تھی، میں پھر بھی اپنی تمام تر تکالیف اور اپنی والدہ کی جدوجہد بیان کرتی رہی۔ ایسا کرنے سے مجھے اچھا محسوس ہوا۔‘

اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کیونکہ میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں تو مجھے جب میک اپ کرنے کا دل چاہتا تھا تو ظاہر ہے بھائی بھاگ جاتے تھے۔ تو ایسے میں میرے بابا کہتے تھے کہ مجھے میک اپ کردو۔ تو میں اپنا تمام تر سامان لے کر پہلے ان کی پونی بناتی تھی اور پھر انھیں پاؤڈر لگاتی تھی۔‘

’مجھے آخری بات یہ یاد ہے کہ میں نے بابا سے جھگڑا کیا تھا۔ میں اس وقت نو سال کی تھی اور ان پر غصے میں تھی کہ وہ سفر سے واپسی پر میرے لیے اچھا گفٹ نہیں لے کر آئے تھے۔ مجھے اس بات کا آج تک افسوس ہے کیونکہ اس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئے اور مجھے انھیں صحیح طرح سے منانے اور خدا حافظ کہنے کا موقع نہیں ملا۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر ان کے والد لاپتہ نہ ہوتے تو ان میں خود اعتمادی نہ آتی۔

’لڑائی کرنے سے خود کو روکنا پڑتا ہے‘

راولپنڈی سے خاصے دور کوئٹہ میں 18 برس کی امّ البنین چنگیزی کو اپنے والد سے کی گئی آخری بات کچھ یوں یاد ہے۔

’یہ تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں ٹیوشن پر تھی اور میں نے والد کو فون پر کہا کہ مجھے گھر آنا ہے۔ اس وقت بابا نے کہا کہ آپ ٹیکسی میں آ جاؤ میں گھر سے باہر کام کے لیے نکل رہا ہوں۔ میں جب گھر پہنچی تو بابا نہیں تھے اور میری ان سے آخری بات یہی ہوئی تھی۔‘

امّ البنین نے اپنے گھر سے ُزوم کے ذریعے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک لاپتہ شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اپنے والد کے بارے میں کی جانے والی ہر بات پر خود کو کسی سے لڑائی کرنے سے روکنا پڑتا ہے۔‘

لاپتہ افراد احتجاج

عائشہ مسعود نو سال کی تھیں جب ان کے والد مسعود جنجوعہ سنہ 2005 کو لاپتہ ہوئے تھے اور والد کی بازیابی کے لیے انھوں نے بہت چھوٹی عمر میں اپنی والدہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ ایک دھرنے میں شرکت کی تھی

انھوں نے کہا کہ میں پہلے بہت حساس تھی اور چھوٹی سی بات پر ناراض ہو جاتی تھی لیکن اب بڑی سے بڑی بات بھی ہو جائے تو مجھ پر اثر نہیں ہوتا۔

ایک سوال پر تھوڑا سوچتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر میرے بابا لاپتہ نہیں ہوئے ہوتے تو مجھ ہر چھوٹی بات کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔ کچھ خریدنے سے پہلے نہیں سوچنا پڑتا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ ہم لوگ عید ساتھ مناتے، فادرز ڈے ساتھ مناتے۔۔۔‘ اس کے آگے وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پائیں۔

’جبری گمشدگی تو شروعات ہوتی ہے‘

بلوچستان کے پسماندہ علاقے مشکے سے تعلق رکھنے والی سمی بلوچ نے بتایا کہ ان کی اپنے والد سے آخری ملاقات دروازے پر ہوئی تھی۔

’میرے ٹونسلز کا علاج ہوا تھا اور میں ہسپتال میں داخل تھی۔ میرے والد کو فون پر فون آرہے تھے۔ وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہ رہے تھے۔ بالآخر جب جانے لگے تو میں انھیں دروازے پر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس وقت مجھے بابا بہت اچھے لگ رہے تھے اور عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔ میرے بابا نے دیکھا کہ میں دروازے پر کھڑی ہوں تو وہ واپس آئے اور مجھے گلے لگا کر کہا کہ میں دو دن میں واپس آجاؤں گا۔ اس بات کو اب بارہ سال ہو گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کسی کی جبری گمشدگی تک بات نہیں رک جاتی۔ یہ تو شروعات ہوتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ آپ کی زندگی کا مطلب، مقصد سب بدل جاتا ہے۔ میری زندگی میں میری والدہ، بہن، گھر کا خرچ سب شامل ہے۔ میں کراچی میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوں تاکہ جب بھی ہو سکے تو اپنے والد کی بازیابی کے لیے کہیں جانے میں مشکل نہ ہو۔ میرے لیے لاپتہ شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی بات ہو جانے کے لیے تیار رہوں۔‘

’اپنی خواہشات پورا کرنے کا وقت نہیں ملتا‘

اسی طرح صوبہ سندھ کے ڈسٹرکٹ خیرپور کی بیس برس کی ماروی ایوب نے بتایا کہ ان کے والد کو اگر 27 اپریل 2017 کو نہیں اٹھایا گیا ہوتا تو وہ آج ڈاکٹر بننے کی تیاریوں میں مصروف ہوتیں۔

’میرے بابا کی خواہش یہی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں لیکن اِس وقت میری پڑھائی رکی ہوئی ہے کیونکہ مجھے گھر کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ امّی کا خیال رکھنا پڑتا ہے، سلائی کرنی پڑتی ہے تاکہ پیسے جمع ہوتے رہیں، احتجاج میں جانا ہوتا ہے، عدالت میں کیس کی سماعت میں حاضری دینی ہوتی ہے۔ تو اس کے بعد پڑھائی یا اپنی خواہشات پورا کرنے کا وقت نہیں بچتا۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر آج ان کے والد واپس آجائیں تو وہ پتا نہیں انھیں کیا بتائیں گی۔ ’میں پہلے بھی سکول سے آکر ان کو سب کچھ بتاتی تھی۔ اگر ابھی وہ میرے سامنے آجائیں تو میں پچھلے تین چار برسوں کی تمام تر باتیں بھول جاؤں گی۔ انھیں کہوں گی کہ میں نے انھیں ہر روز یاد کیا۔‘

امّ البنین نے کہا کہ اگر ان کے والد واپس آجائیں تو وہ ان سے سب کی شکایت کریں گی۔

’بتاؤں گی کہ کیسے ان کے دوست ان کے دوست نہیں ہیں۔ ہمیں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ ایران کا ایجنٹ، کرپٹ۔ میں انھیں بتاؤں گی کہ میں ان تمام لوگوں کو معاف نہیں کروں گی۔ ان کی خاطر سب سے لڑوں گی۔‘

سمی نے کہا کہ ’اگر میرے بابا آج آکر میرے سامنے کھڑے ہوجائیں تو میں انھیں زور سے گلے لگاؤں گی اور بہت روؤں گی۔ میں انھیں کہوں گی کہ میں نے ان بارہ برسوں میں ان کی بہادر بیٹی ہونے کے ناتے نہیں روئی، دھمکیوں سے نہیں ڈری، مرنے کو تیار ہو گئی لیکن ان کے واپس آنے پر دل کھول کر رو رہی ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp