پیریڈز پارٹی میں جانے سے پہلے یہ کالم پڑھ لیں


ایک دو روز قبل مکرمہ محترمہ مقدس رفیق صاحبہ کا ایک کالم بعنوان ”برائیڈل شاور اور پیریڈز پارٹی“ کے نام سے شائع ہوا۔ اپنی کم علمی کے باوجود میں نے اسے ایک بار پڑھا دوسری بار پڑھا بلکہ بار بار پڑھا۔ میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ کیا سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن چند ماہ میں ایسے کئی کالم پڑھنے کو ملے کہ یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ واضح الفاظ میں چند گزارشات پیش کی جائیں۔

مکرمہ مقدس صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ والدین کے گھر میں لڑکیاں کنڈی لگا کر اور کھڑکیاں بند کر کے کپڑے بدلتی ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کیا گھر میں صرف لڑکیاں ہی کنڈی لگا کر کپڑے بدلتی ہیں؟ کیا لڑکے اور مرد دروازے کھول کر، کھلی کھڑکی میں یا ڈرائنگ روم میں کھڑے ہو کر لباس تبدیل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گھر کے سارے افراد بند کمرے میں کپڑے بدلتے ہیں۔

اس فرضی ظلم کے بیان کے بعد وہ تحریر فرماتی ہیں کہ اس کے بعد لڑکی کو سہاگ رات میں ایسا مرد دے دیا جاتا ہے جسے وہ جب جانتی ہی نہیں تو پسند کیسے کرتی ہوں گی۔ ایسے شخص کے ساتھ تو دس منٹ بیٹھا بھی نہیں جا سکتا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ شادی کے لئے لڑکا اور لڑکی کی رضامندی اور ایک دوسرے کو پسند سے قبول کرنا ضروری ہے۔ لیکن مقدس صاحبہ یہ حقیقت فراموش کر رہی ہیں کہ اس صورت حال میں جب لڑکا اور لڑکی نے ایک دوسرے کو نہ دیکھا ہے اور نہ پسند کیا ہے تو یہ صرف لڑکی کے ساتھ نہیں بلکہ لڑکے ساتھ بھی تو زیادتی ہے۔ اکثر ایسی صورت میں اس لڑکے کی ماں نے ایک چاند سی بہو کو پسند کر کے اس کے پلے باندھ دیا ہے۔ اس پر مرد بھی تو احتجاج کر سکتے ہیں کہ دیکھو ہم پر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔

اور اگر کوئی لڑکی اپنے ہونے والے خاوند کے ساتھ دس منٹ بیٹھ بھی نہیں سکتی تو یہ اس لڑکی کا فرض ہے کہ شادی سے انکار کر دے اور اگر والدین اس پر جبر کریں تو پھر اپنے حق کے لئے خود جدوجہد کرے۔ لیکن اس کا الزام ہونے والے خاوند کو کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ شادی ہو جائے تو یہ اس کے خاوند کے ساتھ بہت زیادتی ہے کہ اس کے گھر میں ایسی لڑکی نے بیوی بن کر نزول اجلال فرمایا ہے جو کہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتی۔

ذرا تصور فرمائیں کہ شادی کی پہلی رات دلہن اپنے خاوند کو کہے میں تو گھر میں کنڈی لگا کر کپڑے بدلتی تھی۔ اس لئے اگر تم نے میری طرف میلی نگاہ سے دیکھا تو بہت برا ہو گا۔

پھر مقدس صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ یہ جو برائیڈل شاور ہے ناں، یہ بہت زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ اس کا مطلب پاکستان میں جو ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی کی سہیلیاں اس کی شادی سے پہلے اس کے ساتھ وہ وقت گزارنا چاہتی ہیں جو وہ شادی کے بعد نہیں گزار سکے گی۔ یعنی ظلم دیکھو کہ شادی کے بعد لڑکی کی آزادی سلب ہو جائے گی کیونکہ وہ شادی سے قبل جیسی زندگی نہیں گزار سکے گی۔

محترمہ! شادی کے بعد صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ مرد یا لڑکے بھی ویسی زندگی نہیں گزارتے جو وہ شادی سے قبل گزار رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لباس اور زندگیوں کی طرز بالکل بدل جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا چاہیے ورنہ آخر میں دونوں کو ایک ایک وکیل کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ اور صرف شادی ہی نہیں زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے ہر شخص کی زندگی کا انداز مسلسل تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر اس کھلنڈرے انداز میں مٹر گشت نہیں کر سکتا اور نہ اس طرح کا لباس پہن سکتا ہے جس انداز میں لڑکے اور لڑکیاں فیشن ایبل لباس پہن کر پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا آزادی سلب ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ زندگی کی پیش رفت کی علامت ہے۔

اس کالم کے آخر میں قارئین کو ایک اور مشورے سے نوازا گیا ہے۔ اور چند ماہ سے مختلف کالموں میں بھی یہ مشورہ پڑھنے کو مل رہا ہے، لکھا ہے کہ ہمارا معاشرہ تو گھٹن اور پدر سری کا شکار ہے۔ لڑکی کو ماہواری آ جائے تو اس پر اتنا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ بیچاری لڑکی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس لئے مناسب ہو گا کہ کہ جب لڑکی کو پہلی ماہواری آئے تو ایک پیریڈز پارٹی منعقد کرنی چاہیے۔ لوگ جمع ہوں تحفے دیں۔ ہلا گلا اور موج مستی ہو۔ سب مل کر شور مچائیں کہ آہا آہا۔ ہو ہو۔ ہی ہی۔ لڑکی کو ماہواری آ گئی۔

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر کارڈ تقسیم کیے جائیں کہ ہماری لڑکی کو ماہواری آ گئی ہے۔ ہمارے گھر آ کر ممنون فرمائیں۔ بلوغت کے قریب صرف لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ لڑکے کو پہلی مرتبہ احتلام آنے پر دعوتیں ہو رہی ہوں۔ اور دوست جمع ہو کر دھوم دھڑکے کا ماحول پیدا کر رہے ہوں۔ زندگی کے کچھ حصے پرائیویٹ رکھے جاتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ بلوغت پر لڑکیوں کو لڑکوں کی نسبت کافی زیادہ شرح سے ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ صرف ہمارے دقیانوسی معاشرے کی وجہ سے ہے؟ جی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی لڑکیوں میں یہ شرح لڑکوں کی نسبت دوگنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ وہ جابر اور کمینی مخلوق نہیں ہے جسے ’مرد‘ کہا جاتا ہے کہ اس کمینی مخلوق کا گلا گھونٹ کر دنیا کے سب مسائل حل کر دیے جائیں۔ اس کی ایک وجہ لڑکیوں کے جسم میں بننے والا ہارمون ایسٹروجن ہے۔ بلوغت کے وقت جب خون میں اس کی سطح بلند ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں بعض لڑکیوں کو اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح بچے کی پیدائش کے بعد بہت سی خواتین کو ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جھٹ مردوں کے مظالم کو الزام دے کر مظلومیت کا پرچار کیا جائے۔ حمل اور پیدائش کے عمل کے دوران جسم میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض خواتین کو اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورتوں کے ہر مسئلے کی جڑ پاکستان کے مردود مرد نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا معاشرہ ہے۔ جسے کو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے۔ کیونکہ مغربی ممالک کے مادر پدر آزاد معاشروں میں بھی عورتوں میں انگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، مختلف موسموں میں نفسیاتی مسائل اور مختلف چیزوں سے بے تحاشا خوف کے مسائل مردوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔

اسی طرح مردوں کے ہر مسئلہ کی ذمہ دار عورتیں نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق مردوں میں عورتوں کی نسبت خود کشی سے موت کا تناسب ساڑھے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے عوامل پر تحقیق کی جاتی ہے۔ ان خود کشیوں کو روکنے کی سائنسی کوششیں کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ کہیں نہیں ہوتا کہ مرد سڑکوں پر جلوس نکالنے لگ جائیں کہ ہمیں عورتوں نے اتنا تنگ کیا ہے کہ مرد دھڑا دھڑ خود کشیاں کر رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دس سال سے کم لڑکوں میں لڑکیوں کی نسبت نفسیاتی مسائل دوگنا ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے جھٹ یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ گھروں میں لڑکوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عورتوں کو کئی گمبھیر مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں خواتین میں شرح خواندگی بہت کم ہے، بہت سی عورتوں کو جائیداد میں ان کا حصہ نہیں ملتا، گھریلو تشدد اپنی ذات میں بہت بڑا اور عام مسئلہ ہے، زچگی میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ ان سب مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ لیکن پیریڈز پارٹیز جیسے ہلے گلے سے یہ گمبھیر مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔

ویسے بھی بلوغت کے مسائل ایک سائنسی موضوع ہے۔ اس موضوع پر سائنسی لٹریچر کا ایک انبار موجود ہے۔ ان سب تحقیقات میں یہ کہیں پر نتیجہ نہیں نکالا گیا کہ پیریڈز پارٹی منعقد کر کے ڈانس کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن بعض لوگوں کی آراء پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان لوگوں کے نزدیک ان مسائل کا حل یہی ہے کہ مردوں کو اچھی طرح برا بھلا کہا جائے، پہلی ماہواری آنے پر مٹھائیاں تقسیم کی جائیں یا سڑکوں پر کھڑے ہو کر چند روز نعرے مار لئے جائیں۔ اس طرح یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

(ہم سب کا نام نہاد مدیر ہونے کی اپنی تحدیدات ہیں۔ مجھے زیر نظر موضوع پر بھائی ابو نائل سے اتفاق نہیں۔ میں ان کی تحریر کو اتفاق یا اختلاف ہر دو صورتوں میں شائع کرتا تھا۔ کبھی کبھار اپنا اختلاف ریکارڈ کر دیتا تھا اور وہ اس لئے کہ دیگر پڑھنے والوں کے ہمراہ تبصرے میں غلط فہمی کا اندیشہ تھا۔ گزشتہ دنوں محترم بھائی ڈاکٹر شیر شاہ نے اس پر بھی اعتراض لگا دیا۔ دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے۔۔۔ اچھا عزیز من، آپ خوش رہیے۔ مجھے ابو نائل سے اتفاق نہیں لیکن انہیں اپنی بات کہنے کا حق ہے کیونکہ “ہم سب” ہم سب کا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments