ایک عورت جسے پیدا ہونے سے آٹھ برس پہلے ونی کیا گیا


میرا جسم تب بیچ دیا گیا جب میں عالم ارواح کی مکین تھی اور جسم ہونے اور نہ ہونے کے بیچ معلق تھا!

میرے اس جسم کی خرید وفروخت جو موجود ہی نہیں تھا، کا ذمہ دار وہ شخص تھا جو دنیا میں میرا ہونے والا باپ تھا۔ اسے اپنے مادہ تولید اور اپنے قبضے میں موجود بیوی نامی غلام عورت کے رحم پہ اس قدر اعتماد تھا کہ اس نے اس سودے کی حامی بھر لی جس کا انتظار اسے آٹھ برس تک کرنا پڑا۔

سوچیے کیسی عجیب لڑکی تھی میں، جس کی پیدائش پہ میرے باپ نے قبیلے کی روایات کے برعکس خوشیوں بھرا جشن منایا۔ اور کیوں نہ مناتا اس کا ماضی میں کیا جانے والا سودا منافع بخش ثابت ہونے کے قریب تھا۔

اور وہ عورت جس نے مجھے جنم دیا، وہ میرے باپ کی مسرت دیکھ کر آہیں بھرتی آنسوؤں سے میرا منہ دھوتی تھی اور دھوتی ہی چلی جاتی تھی۔ میں اب سوچتی ہوں کہ اگر اس کی جگہ میں ہوتی تو میں نے نوزائیدہ کو مٹی میں گاڑنے کا فیصلہ کر لیا ہوتا۔ اذیت تو ہوتی لیکن سوچیے نا کچھ پل کی اذیت زیادہ تھی یا عمر بھر کا روگ۔ میری ماں، باپ کی طرح تاجر نہیں تھی نا سو مجھے زندگی بخش کے گھاٹے کا سودا کیا۔

صرف باپ کی مسرت ہی دیدنی نہیں تھی، پدرسری روایات کو زندہ رکھنے والا جرگہ بھی مونچھوں پہ تاؤ دیتے ہوئے اپنے فیصلے کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے مبارکبادیاں وصول کرتا تھا۔ کیا ہوا جو ایک بچی تمام عمر تشدد کا شکار ہو گی، بچی کا جسم باپ کی ملکیت ہی تو ہے سو باپ کو حق ہے کہ بھیڑ بکری کو مقتل میں بھیجے یا بیٹی۔

اور دور کہیں کسی اور گھر میں بھی دشمن پہ فتح حاصل کرنے کی خوشی میں ڈھول اور نفیریاں بجتی تھیں اور مٹھائی تقسیم ہوتی تھی۔ یہ تصور ہی رگوں میں لہو دوڑاتا تھا کہ ایک دشمن مرد کے مادہ تولید سے بنی مخلوق ان کے تسلط میں آنے کے لئے دنیا میں آن پہنچی۔ ایک ننھے منے جسم کو روندنے کا مزا بہت سوں کی طبعیت میں جولانی لاتا تھا۔

دونوں قبیلوں میں چلتی پھرتی زندہ لاش نما عورتیں آہ بھر کے ننھی بچی کو دیکھ کے ایک نظر آسمان کی طرف اٹھا کر زیر لب سوال کرتی تھیں،

پالنے والے، کیا تھا جو زر سانگا جنم نہ لیتی! کیا ہوتا جو زر سانگا کی ماں کا حمل گر جاتا! کیا تھا جو شقی القلب معاشرے کی تجارت میں استعمال ہونے والی ان روحوں کو تو اپنے پاس روک لیتا اور زمین پہ نہ اتارتا۔

زر سانگا کے جسم کی حفاظت اس کے باپ نے بڑی جانفشانی سے کی۔ باپ ہونے کی ذمہ داری سے نہیں بلکہ ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے جو فروخت کیے ہوئے مال میں ملاوٹ نہیں کرتا اور اپنی زبان سے بھی نہیں پھرتا۔

جوں جوں زر سانگا بڑی ہوتی گئی، باپ کے چہرے پہ مسکراہٹ روشن ہوتی گئی۔ زر سانگا سوچتی، میرے بابا کتنے اچھے ہیں، بالکل آسمان جیسے، مہربان اور شفیق! کون کہتا ہے کہ لڑکیوں سے لڑکوں کے مقابلے میں کمتر سلوک ہوتا ہے۔

ماں بہت عجیب تھی! جب بھی زر سانگا کو دیکھتی، رونے لگتی۔ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں اور اس وقت تک چپ نہ کرتی جب تک بابا اسے آنکھیں نہ دکھاتا۔ زرسانگا کو وہ پاگل لگتی جو بیٹھے بیٹھے اس کے ہاتھ پاؤں ٹٹولنے لگتی، چومتے ہوئے نہ تھکتی، اور رات کو ساتھ لپٹا کے سلاتی۔

ماں کو اس کے بال بہت اچھے لگتے، وہ ان میں تیل ڈالتی، کنگھا کرتی، چوٹی کرتی اور کبھی کھلا چھوڑ دیتی۔ پھر پہروں ان بالوں میں منہ چھپا کر کچھ سوچا کرتی۔ شاید جانتی تھی کہ کبھی ایسا وقت آئے گا کہ جب زرسانگا کے گھنے بالوں سے بنی چٹیا جڑ سے اکھاڑ کے اس کے ہاتھ میں دے دی جائے گی۔

جانتے ہیں آپ جب ڈھیروں بالوں کی چوٹی جڑ سے کھینچی جائے تو ساتھ میں جلد بھی سر سے جدا ہو جاتی ہے، اور یہ ایک زندہ عورت کے سر کی جلد تھی!

آپ نے قربانی کے جانور کی جلد قصائی کو اس کے جسم سے کھینچتے دیکھا ہی ہو گا۔ فرق یہ ہے کہ وہ جانور قربان ہو چکا ہوتا ہے۔ زرسانگا ہوش میں تھی جب اس کے بالوں کے ساتھ جلد بھی کھینچ لی گئی۔ ویسے درد کی شدت سے وہ بے ہوش تو ہو گئی تھی۔ نہ جانے کب ہوش آیا تو دیکھا کہ چٹیا برابر میں رکھی تھی۔ کچھ دیر ہاتھ میں الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی، پھر ماں کو تحفے میں دینے کے لئے سنبھال لی۔ زرسانگا کی ماں کو بہت پسند تھے نا اس کے بال!

ویسے زرسانگا نے غلط فیصلہ کیا تھا۔ اس چٹیا کے تحفے کا اصل حقدار تو اس کا باپ تھا جس نے فروخت کی جانے والی کے جسم کی اتنی اچھی پرورش کی تھی۔

بابا کو بچپن میں زرسانگا کی صحت کی بہت فکر رہتی۔ وہ اس کی ماں کو ہدایت کرتا کہ اسے دیسی گھی کی چوری کھلائی جائے۔ وہ اسے جلد از جلد بڑا ہوتا دیکھنا چاہتا تھا۔ چوری میٹھی تو ہوتی ہی، لیکن کبھی کبھی کوئی لقمہ نمکین ہو جاتا، اماں کی آنکھوں سے پانی ہی نہیں تھمتا تھا۔ جانتی تھی نا کہ اس کی زرسانگا کو تمام عمر ایک سوکھی روٹی ملے گی جو پانی میں ڈبو ڈبو کے حلق سے نیچے اتارا کرے گی۔

اور پھر قربانی کا دن آ گیا! قربانی پہ تو عید ہوتی ہے نا لیکن اس کی قربانی سیاہ گھپ اندھیروں میں ہوئی۔ نو برس کی عمر میں اسے ماں کے بستر سے نکال کر ایک ادھیڑ عمر مرد کے حجرے میں پہنچا دیا گیا۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی کہ باپ جیسا مرد اسے اتنی اذیت کیوں دیتا تھا، سانس لینے میں اتنی دقت کیوں تھی اور درد و اذیت سے جب جسم کانپتا تھا تو ساتھ میں متلی کیوں ہوتی تھی؟ وہ ہوش اور بے ہوشی میں معلق ماں اور بابا کو پکارتی تھی اور اپنے ہی خون میں لت پت ہوتی تھی۔

دور دیس میں زرسانگا کی ماں انگاروں پہ لوٹتی تھی اور اس کا بابا خریدوفروخت کے اس سلسلے میں قرض چکا کر آرام دہ بستر پہ سکون سے سوتا تھا۔

اور پھر وہ زندگی شروع ہوئی جسے جہنم سے کم کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ مارپیٹ سے زر سانگا کے جسم کی ہڈیاں باری باری ٹوٹتی رہیں اور آپ ہی آپ جڑتی رہیں۔ فاقوں، تشدد اور تنہائی نے اسے بچپن میں ہی بڑھیا بنا دیا۔

ابتدا میں وہ سمجھ ہی نہیں پاتی تھی کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے اسے کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ پھر کچھ برسوں بعد علم ہوا کہ وہ اپنے باپ کے کیے جرم کا تاوان ہے جو اس نے کسی اور مرد کو قتل کرنے کے بدلے میں بیٹی کو ونی کیا تھا۔ بیٹی بھی وہ جو قتل کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔

اس جہنم میں زندگی گزارتے ہوئے زرسانگا کو ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی اور آج تک نہیں آئی کہ غیرت مند مردوں کی نادانیوں کا بدلہ عورت کے جسم کی صورت کیوں چکایا جاتا ہے؟ اور اس جیسے دوسرے غیرت مند مرد، اپنا بدلہ مرد سے چکانے کی بجائے عورت کے جسم کو مضروب کر کے کیا لذت کشید کرتے ہیں؟

اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے رب کائنات نے زرسانگا کی ماں کی کوکھ بانجھ کیوں نہیں رہنے دی؟

زر سانگا اب ستر برس کی ہو چکی ہے اور اسے یوم حساب کا انتظار ہے۔ جس دن وہ اپنا سوال اور اپنا حساب اس پالن ہار کے آگے رکھے گی اور یہ بھی التجا کرے گی کہ خدایا، اگر عورت کو تو نے اپنی بنائی ہوئی دنیا میں بھیجنا ہے تو اسے اپنے جسم پہ اختیار کے ساتھ بھیج!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments