ایم آرڈی سے پی ڈی ایم تک: سیاسی اتحاد اور پیپلز پارٹی کا کردار


تقسیم ہندوستان کے بعد روز اول ہی سے پاکستان سیاسی بے یقینی کا شکار رہا ہے اور اس دوران کئی سیاسی اتحاد بنے، کئی بنائے گئے۔ کئی سیاسی پارٹیاں بنی اور کئی بنائی گئی۔ 80 کی دہائی سے لے کر اب تک پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی اہم سیاسی طاقت کی حیثیت میں ایسے کئی اتحادوں کا حصہ اور کچھ اتحادوں سے الگ تھلگ نظر آتی رہی ہے۔ لیکن میرے خیال میں ان اتحادوں میں کم و بیش پیپلز پارٹی کا کردار ہمیشہ ایک سا ہی رہا ہے اور ایم آر ڈی سے لے کر حالیہ پی ڈی ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سیاسی اتحاد تک پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار ہمیشہ ہی اتحادی پارٹیوں یا میڈیا کی تنقید و تشکیک کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا کردار کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ ہمیشہ ہی سے پیپلز پارٹی تنقید کے نشانے پر رہتی ہے۔

ضیاء مارشل لا کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کی باگ ڈور نصرت بھٹو کے ہاتھ میں آئی اور پھر پیپلز پارٹی پر سختیاں ایسے بڑھتی گئی کہ جیسے ان پر دھرتی تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ ان ہی حالات میں پیپلز پارٹی کی باگ ڈور نصرت بھٹو سے بے نظیر بھٹو کو منتقل ہو گئی۔ بے نظیر کے لئے سب مشکل کام یہ تھا کہ بطور خاتون اور ”بھٹو“ انہیں قدامت پرست حریفوں اور مذہبی بنیاد پرست ٹولے کی مخالفت کا مقابلہ کرنا تھا۔ اور اس ”ایک نہتی لڑکی“ نے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔

ضیاء مارشل لاء میں سیاستدانوں اور مخالفین پر جیسے جیسے سختیاں بڑھتی گئی ویسے ویسے سیاستدان ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے اور 9 فروری 1981 کو 9 پارٹیوں کے سربراہان ضیائی مارشل لا حکومت کے خلاف جمع ہوئے اور جنم ہوا پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اتحاد موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (MRD) یعنی ”تحریک بحالیٔ جمہوریت“ کا۔

ایم آر ڈی کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد 1984 میں بے نظیر بھٹو نے لندن میں خود اختیار کردہ جلاوطنی لے لی اور وہاں سے ضیائی مارشل لاء کے خلاف اور 40 ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے کوششیں تیز کر دی۔ بے نظیر کا یہ سیاسی تحرک دیکھ کر سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے اور سیاسی تحریک کو کچلنے کی کوشش کے طور پر سندھ کے شہری علاقوں میں سازش کے نتیجے میں لسانی و نسلی فساد پھوٹ پڑے۔

بے نظیر بھٹو کی بے تحاشا عوامی مقبولیت کے باعث اس کی انتخابات میں کامیابی کو روکنے کے لئے فروری 1985 کو ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کیا اور پی پی پی سمیت تمام ایم آر ڈی جماعتوں نے متفقہ طور پر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کے بعد ایم آر ڈی سے لے کر پی ڈی ایم تک پیپلز پارٹی کسی بھی نوعیت کے انتخابات کے بائیکاٹ کی مخالف ہی نظر آئی ہے۔

یہاں سے بے نظیر کی پیپلز پارٹی نے اپنا پہلا سیاسی سبق سیکھا کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پاکستانی سیاست میں غیر سیاسی لوگوں کے لئے دروازے کھل گئے اور اس کے بعد پاکستانی سیاست پھر کبھی ویسی نہ بن پائی جیسے 80کی دہائی سے پہلے تھی۔

1985 کے انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی حکومت قائم ہوئی اور ایک کٹھ پتلی حکومت بٹھا کر جنرل ضیاء الحق نے 8 سالہ مارشل اٹھانے کا اعلان کیا۔ سویلین حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے 10 اپریل 1986کو وطن واپس آئی۔ اس موقع پر لاہور نے بے نظیر بھٹو کا شاندار استقبال کیا لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم شاید ہی کسی سیاستدان کے لئے جمع ہوا ہو کہ ائرپورٹ سے لے کر جلسہ گاہ تک 8 میل کا فاصلہ 9 گھنٹے میں طے ہوا۔ واپسی کے بعد بے نظیر بھٹو بہت ہی محتاط طریقے سے مہم چلاتے ہوئے کسی ”انہونی“ کو روکنے اور حالات کو پرتشدد ہونے سے روک کر سیاسی طاقت میں بدلنے کی کوشش کرتی رہی۔

بے نظیر کے ایسے سیاسی تحرک نے ایوان اقتدار میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دیں اور حکومت کے پاس اس تحرک روکنے کا کوئی چارہ نہ رہا۔ اب حکومت کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو لڑائی کا راستہ یا پھر مارشل لا کا راستہ اختیار کرنا تھا۔ حکومت نے پہلے راستے کا انتخاب کیا۔ 1984میں ہی حکومت اور ایم آرڈی یعنی متحدہ اپوزیشن نے 14 اگست کو ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا۔ بعد میں جونیجو نے ریلی کا اعلان واپس لے لیا اور اپوزیشن کو بھی ریلی کرنے سے روک دیا لیکن ایم آر ڈی پارٹیوں نے 14 اگست کو بڑی ریلی نکالی اور حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ سیاسی قیادت سمیت ہزاروں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ سیاسی دانشور اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی بحران سمجھتے ہیں۔

یہ وہ موقع تھا جہاں بے نظیر بھٹو نے رک کر اپنے لائحہ عمل کا جائزہ لیا اور سیاسی حالات کا غلط اندازہ لگانے کا ادراک ہوتے ہی اپنی غلطی کا اعتراف کیا کہ انہوں نے حکومت کے خلاف قبل از وقت تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔ انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد ایم آر ڈی سے پیپلز پارٹی نے ہزاروں کارکنان کی گرفتاریوں اور ان پر ہونے والے بہیمانہ تشدد سے یہ دوسرا سبق سیکھا تھا۔ اب پیپلز پارٹی نے طے کیا کہ ”اب معاملات تیزی سے نہیں نمٹائیں گے بلکہ اپنی عوامی حمایت کو ایسے مواقع پر استعمال کریں گے جہاں یہ بحران ختم ہو چکا ہو“ ۔

کریک ڈاؤن سے قبل بے نظیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ بس ان کے کہنے کی دیر ہے اور لوگ جان ہتھیلی پہ لئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ مگر اب وہ سمجھ چکی تھیں کہ بڑے بڑے ہجوم جمع کرنا اور بات ہے لیکن اپنی ذاتی شہرت کو سیاسی طاقت میں تبدیل کرنا اور بات۔ یہ بات عمران خان 22 سال سیاست کے ریگزاروں میں بھٹکنے کے باوجود سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایم آر ڈی ملکی سیاسی تاریخ میں ایک ایسا مضبوط اتحاد تھا جس میں مارکس وادی لیفٹ بھی شامل تھا تو مذہبی جماعتیں بھی، بڑی جماعت بھی تھی تو چھوٹی جماعتیں بھی ضیا مارشل لا کے خلاف مضبوط اپوزیشن کی صورت میں موجود تھیں۔ لیکن 1985 میں مارشل لا کے خاتمے کے ساتھ حکمرانی مصنوعی طور پر ہی سہی سول حکومت کے حوالے ہونے سے ایم آر ڈی کے نعرے اپنی کشش کھو چکے تھے۔ اور ایم آر ڈی نئی صورتحال سے خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پائی اور اپنے پرانے نعروں پر چلتی رہی۔ لہٰذا اب ظاہری طور پر مارشل لاء ختم ہو چکی تھی تو اس اتحاد میں بھی وہ جان باقی نہ رہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments