وزیر اعظم کو اپنی پالیسی بدلنا ہو گی


سینٹ الیکشن 2021 ء گیلانی نے میدان مار لیا۔ جمہوریت اسی عمل کا نام ہے جہاں بندوں کو گنا جاتا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کون ہیں، کیا کرتے رہے، کیوں ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہی کچھ سینٹ الیکشن میں عملی طور پر سامنے آیا۔ سارے اندازے، تمام تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک ہفتہ قبل میں نے اپنے بعنوان ”کون مارے گا میدان“ میں لکھا تھا ”کہ سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم، وزیر اور اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست دانوں میں معتدل، نرم مزاج، سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک قرار دیے جاتے ہیں۔ تعلیم بہت اعلیٰ نہیں ماسٹر کیا پنجاب یونیورسٹی سے البتہ سیاسی تجربہ اور سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی اثر و رسوخ میں یکتا ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو حکومتی اراکین کو اپنے حق میں رام کرنے پر بھروسا ہے تب ہی تو وہ مقابلہ جیت سکیں گیں ورنہ تو عددی تعداد تو حکومتی اراکین کی زیادہ ہے ”۔

عددی تعداد کا تجزیہ کریں تو قومی اسمبلی میں حکومتی اراکین کی تعداد 180 ہے۔ ووٹ ملے 164 جب کہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں 169 اراکین نے ووٹ ڈالے۔ گویا 16 حکومتی اراکین نے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پر عدم اعتماد کیا۔ اگر ان میں سے 7 مسترد ووٹ حکومتی ووٹ میں شامل کر لیا جائے جیسے کہ بعض اراکین کے بارے میں علم ہو چکا کہ ان سے غلطی ہوئی پھر بھی 9 حکومتی اراکین ایسے تھے جنہوں نے ڈاکٹر شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔ حکومتی اتحاد کی خاتون امیدوار کو 172 ووٹ ملے، گویا 8 اراکین نے واضح طور پر حکومت سے ناراضگی اور حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا۔

بعض ناراض اراکین نے الیکشن سے قبل ہی اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ حکومت نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا یا عمران خان ان باغی اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے جیسے ڈاکٹر عامر لیاقت نے علانیہ کہا کہ وہ حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیں گے، یہی نہیں بلکہ جب عامر لیاقت، عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے میڈیا کو واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ وہ پارٹی امیدوار کو ووٹ دیں گے بلکہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی بات کی، گویا عمران خان عامر لیاقت کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا عامر لیاقت اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

حکومتی نااہلیاں، ڈھائی سال کی کارکردگی واضح طور پر غیر تسلی بخش رہی، خان کو ٹیم کام کرنے والی نہیں ملی۔ حفیظ شیخ کی قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے بارے میں یہ تاثر عام اور سچ ہے کہ وہ ایک ٹیکنوکریٹ ہیں، آئی ایم ایف کے آدمی ہیں، ملک میں اس وقت آتے ہیں جب ائر پورٹ سے اترتے ہی جھنڈے والی گاڑی ان کے لیے تیار کھڑی ہو، جب یہ گاڑی واپس لے لی جائے تو وہ ملک سے واپس پرواز کر جاتے ہیں۔ میں پہلے لکھ چکا کہ قابلیت اور تعلیم اور ہنر مندی میں حفیظ شیخ کہی آگے ہیں یوسف رضا گیلانی سے۔ لیکن یوسف رضا گیلانی کی اپنی ذاتی حیثیت، ان کا مزاج، ان کا سیاسی کردار، ان کا معتدل ہونا، دھیما پن، دوستانہ، ہمدردانہ رویہ انہیں منفرد بناتا ہے۔ حالانکہ ان پر بعض الزامات بھی ثابت ہوچکے، سزا ہوئی، نااہل ہوئے، ان سب کے باوجود وہ ایک سیاسی آدمی ہیں جب کہ حفیظ شیخ غیر سیاسی شخصیت ہے۔

حفیظ شیخ کی شکست میں ووٹرز کی خرید و فروخت کو بھی دخل حاصل ہے۔ ٹی وی چینل ویڈیو اور آڈیو دکھاتے رہے ہیں، یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہوا، سینٹ میں خرید و فروخت بہت پرانی ہے۔ حکومت کو شاید ادراک تھا اس بات کا کہ اس کے اراکین باغی ہوسکتے ہیں، بک سکتے ہیں اسی لیے اس نے کوشش کی کہ سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں۔ دوسری جانب اپوزیشن کچی گولیاں کھیلی ہوئی نہیں تھی، اس میں عمران خان سے کہیں زیادہ سیاست کا تجربہ رکھنے والے ایک نہیں بلکہ بے شمار شخصیات پائی جاتی ہیں جو یہ کام کرتی رہی ہیں۔

آصف علی زرداری صاحب کا جملہ ”کچھ ہم سے بھی سیکھ لو“، انہوں نے سب کو سکھا دیا، حکومت کو بھی اور اپوزیشن کو بھی۔ اپوزیشن تو تشدد کی جانب جا رہی تھی، یہ آصف علی زرداری کی پارٹی تھی کہ جس نے پی ڈی ایم کا رخ تشدد کے بجائے جمہوری عمل کی جانب موڑ دیا، پی ڈی ایم جماعتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ جمہوری عمل کا حصہ بنیں، ضمنی انتخابات میں حصہ لیں، سینٹ کے انتخابات میں حصہ لیں، ورنہ تو پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے سربراہان تو ”آر یا پار“ کی سیاست کی جانب پی ڈی ایم کو لے جا رہے تھے۔

اس بات کا کریڈٹ زرداری صاحب کو جاتا ہے۔ یہی حکمت عملی بھی زرداری صاحب ہی کی دکھائی دیتی ہے جس نے حکومت کو شکست سے دوچار کیا۔ جہاں تک اراکین کو خریدنے یا اراکین کے فروخت ہونے کا تعلق ہے اسے کوئی بھی ذی شعور اچھا نہیں کہہ سکتا۔ یہ میڈیا کا دور ہے۔ نہیں معلوم بکنے والے اور خریدار کس خوش فہمی اور گھمنڈ میں رہے۔ گیلانی صاحب کے بیٹے اپنے باپ کی حیثیت پر خوش فہمی کا شکار رہے انہوں نے گیلانی صاحب کی شخصیت کو نقصان پہنچایا۔ خاص طور پر اقرار جرم کر کے۔ یہ عمل زندگی بھر ان کا پیچھا کرے گا۔ سندھ کے بعض طاقتور اس کا حصہ بنے جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارا آئین بعض معاملات میں خاموش ہے اور اس قسم کے اقدامات پر گرفت نہیں کرتا لیکن اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات ہر طرح کے قانون پر مقدم ہیں۔ وقتی جاہ و حشم، تزک و احتشام، شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ اور لاؤ لشکر کی خاطر انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار دنیا میں تو وقتی خوشی دل ادے گا لیکن پکڑ تو آخر ہونی ہی ہے پیدا کرنے والے کی عدالت میں۔ وہاں ایسا کام کرنے والے کیا جواب دیں گے، دنیا میں تو یہ کہہ کر آپ چھوٹ جائیں گے کہ ”یہ آواز میری نہیں“ یا پھر ’ہاں! یہ میں ہی ہوں، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ووٹ کو کیسے کینسل کرنا ہے کی ترغیب دے کر”۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی شکست کے چند گھنٹوں بعد ہی یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔ یہ مثبت فیصلہ ہے۔ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو اپوزیشن ان سے ایسا کرنے کی آواز بلند کرتی، کیوں کہ انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا اس وجہ سے اب اپوزیشن وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کی بات کر رہی ہے۔ امید تو یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

لیکن اپوزیشن پھر بھی انہیں چین سے رہنے نہیں دے گی۔ حفیظ شیخ صاحب اب کیا فیصلہ کرتے ہیں، حکومت میں رہتے ہیں یا پرواز بھر لیتے ہیں۔ مسائل اور چیلنجیز حکومت کے سامنے بے تحاشا ہیں۔ حکومت کو اپنی گورنینس کو ہر صورت میں بہتر بنانا ہوگا، بے روز گاری پر توجہ دینا ہوگی، مہنگائی کو قابو میں رکھنا ہوگا، ہر 15 دن بعد پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے لوگوں پر پیٹرول بم گرانے کی روش کو بدلنا ہوگا۔ چوروں کو نہ چھوڑیں لیکن اپوزیشن میں سب چور نہیں، چور آپ کی صفوں میں بھی ہیں سینٹ میں بکنے والے چوروں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ پنجاب میں افہام و تفہیم ہو سکتی ہے، وہ عمران خان، نواز لیگ اور پیپلز پارٹ کی رضامندی سے ہوئی، جس نے پنجاب میں مثبت کردار ادا کیا وہ دیگر جگہ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا۔ وزیر اعظم کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی ہوگی، پاکستان کے لیے، پاکستانی عوام کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments