عجب روایتی عورت ہے


کلینڈر کے حساب سے ہر دن کوئی دن ہو گا، ہر دن کو منانے والے بھی ہوں گے اور ہر دن کے خلاف بھی۔ حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کیا ایک دن کافی ہوتا کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے یا ایک دن بعد مسئلہ مسئلہ نہیں رہتا، یا ہم حل طلب طبیعت رکھتے ہی نہیں، بس کچھ ہونا چاہیے دل لگی کے لئے

باقی سارے دنوں پہ تو بات ہوتی رہے گی، سب سے پر لطف ٹاپک وومن ڈے ہے اور سب سے زیادہ ادبی دن ماں کا دن ہوتا ہے مدرز ڈے۔ دونوں کا اکٹھے کیا کام بھلا تو بات اتنی سی ہے کہ بات ان دنوں میں ہوتی عورت پہ ہے۔

ایک میں ہم آزادی پہ بات کرتے ہیں اور دوسرے دن میں اسی عورت کے ادب، عزت اور جنت پہ۔ مجھے لگتا ہے آج کل کے دور میں عورت کو شعور کی ضرورت ہے اور مرد کی تھوڑی تربیت کی۔ عورت میں بربریت، حاکمیت نہیں میرا مطلب ہے تربیت کوٹ کوٹ کے بھر دی ہے اور مرد میں تربیت کا فقدان ہے۔

مرد کی شان طاقت، دبدبہ، رعب۔ جو وہ جس پہ جتنا استعمال کرتا اتنا مضبوط ہوتا جاتا اور عورت پہ استعمال کرنا تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن اسی بات کو عورت کی زبان میں کہیں تو وہ کچھ ایسی ہو گی، پٹانا، رجھانا، آنسو بہانا، قابو کرنا، نچھاور کرنا۔ عورت جس پہ جتنا استعمال کرتی اتنی عقلمند کہلاتی ہے۔ کام دونوں کا ایک ہی ہے انداز مختلف۔

گھنگرو ایک ہی ہیں رقاصہ کے بھی۔ قلندر کے بھی
فرق ہے وہ ”ناچے“ تو آخر ”عشق“ میں کس کے۔
دنیا کی کہانی انسانوں کی تو رہی کبھی نہیں ہمیشہ مرد و عورت کی رہی۔

مسئلہ یہ ہوا کہ عورت کو حد سے زیادہ تربیت دے دی گئی اور مرد کو وقت کے رحم و کرم پہ چھوڑا گیا، اب خلا یہ ٹھہرا کہ مرد میں تربیت کی کمی ہے اور عورت میں شعور کی۔

ساری زندگی یہ ہی سنتی ہے عورت، ایسے بیٹھو، ایسے اٹھو، ایسے دوپٹہ لو، ایسے کھانا کھاؤ، ایسے چلو، کون بتاتا ہے ماں، دادی، پھوپھی، خالہ، چاچی، مامی، اور ارد گرد کی وہ تمام عورتیں جن کو لگتا ہے بحیثیت ایک عورت ایک لڑکی کو یہ سب بتانا ان کا فرض ہے۔ مطلب ایک عورت ہی دوسری عورت کو بتا رہی ہوتی ہے۔ تھوڑی اور عمر کو لڑکی پہنچتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، چپ رہتے ہیں، فضول نہیں بولتے، عورت منہ در منہ جواب نہیں دیتی، عورت برداشت کرتی ہے، عورت زبان نہیں چلاتی، عورت گھر بناتی ہے، عورت کھانا بناتی ہے، عورت بچے پالتی ہے۔ عورت تھی چپ کر جاتی، عورت تھی، نبھا لیتی، گھر بنانا عورت کا کام ہے، سمجھوتا کر لیتی آج تک میں نے یہ سب کسی مرد سے نہیں سنا، جب بھی سنا، عورت سے سنا عورت کے لیے۔ ان سب کا اثر کیا ہوا؟ حد سے زیادہ تربیت۔ اور جب ایک فریق مرد (بیٹے، بھائی) کے سامنے دوسرے فریق (بیٹی، بہن) کی اتنی تذلیل ہو تو دیکھنے والا خود بخود ہی خود کو معتبر سمجھ لیتا ہے۔ جس عورت کو مرد سے شکایت ہے وہی عورت اپنی اولاد میں مرد کی تربیت کرنے کی بجائے اپنی بیٹی کو کمتر بناتی ہے۔ مرد کی تربیت میں ہاتھ عورت کا ہی ہوتا زیادہ، مرد کی پراگندہ ذہنیت میں بھی ہاتھ عورت کا ہی ہوا۔

یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے۔ ایک دوست کے ساتھ یونیورسٹی جانا تھا۔ اس کا اور میرا آفس نزدیک ہی تھے تو اسے آنا تھا مجھے لینے کے لیے اس کا انتظار کافی دیر کیا تب وہ آئی کہ آج آفس کے بعد پارلر چلی گئی تھی، امی نے سختی سے کہا تھا کہ آج جا کر آئی بروز بنوانی ہیں تم روز بھول جاتی ہو، سو اسی لیے دیر ہوئی۔ اس بات کو اتنے سال بیت گئے ہیں آج تک میری ماں نے ایسی والی سختی نہیں کی، کہ آئی بروز بنوا لو، اب بال کو کلر کروا لو، اب ایسے بیٹھو، اب ایسے فلاں سے بات کرو۔ جن باتوں پہ مجھے اپنی ماں سے ڈانٹ پڑی ہے وہ میرے سوشل سرکل کی ماؤں سے بالکل مختلف ہے۔ اور تو اور سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک تقریباً ہر لڑکی کی داستان میں یہ ہوتا تھا کہ یہ چیز آئی ہے اور میرے جہیز کے لے رکھی گئی ہے۔ اور میں ساری زندگی سوچتی رہی میری امی کب جہیز بنائیں گی۔

جبکہ اس کے بر عکس مارکس کم آنے پر ڈانٹ اور یہی سنا کہ یہ نہیں کرو گی تو کیا کرو گی، پڑھو گی نہیں تو انڈیپنڈینٹ کیسے ہو گی۔ اپنے پاؤں پہ کیسے کھڑی ہو گی۔ معاشرے کی ماں تو پٹانے کے گر سکھانے سے ساری عمر باز نہیں آتی۔ عورت شادی سے پہلے کی عمر مرد کو پانے / لبھانے کے چکروں میں ہلکان ہوتی پھرتی ہے فٹنس، پارلر، میک اپ اور شادی کے بعد مرد کو قابو کر نے میں خود کو ہی بھول جاتی ہے۔ مرد کو صرف اے ٹی ایم سمجھ کر مرد (باپ، بھائی، شوہر، بیٹا، دوست) کے پیچھے نا بھاگنے والی۔

عورت تو ہمیشہ سے فمینسٹ رہی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا سلوگن تو بس ابھی سوشل میڈیا نے مشہور کر دیا۔ مرضی تو پہلے بھی عورت کی ہی چلتی آئی ہے، شادی سے پہلے تک کچی عمر کی کلی جیسا حسن برقرار رکھنے کے جو کوشش لڑکیاں کرتی ہیں وہ شادی کے چھ ماہ بعد بھول جاتی اور چھ سال بعد تو خیر وہ حسن جو آٹے جیسا تھا اب آٹے کی بوری جیسا دکھتا ہے کی داستان ہوتا ہے۔ کہا نا وہ تربیت کی اور ڈوز کی وجہ سے جو نسل در نسل ایسے پلائی جاتی نہیں بلکہ اب تو خیر پلانے کی ضرورت نہیں اب خون کا حصہ ہے۔ کٹھ پتلی جیسی سوچ رکھنے والوں کی سمجھ نہیں آتی، خود سے لڑ رہے ہیں یا دنیا سے۔ آزاد ہونے کے لیے پہلے سوچ آزاد ہونی چاہے اور سوچ کی قید کی مثال اشفاق احمد کے زاویے سے ہو تو ہاتھ کی مثال ہو گی، جس میں چڑیا گھر میں ہاتھی کا بچہ لایا گیا تب اس کو باریک سی زنجیر سے باندھا گیا تھا، جب وہ بڑا ہوا تب بھی وہی زنجیر تھی، وہ بچپن میں زنجیر توڑ نا سکا اور اس نے سوچ لیا وہ کبھی اسے نہیں توڑ سکتا۔
اسی طرح ایک آدمی کے پاس رسی نہیں تھی اپنا گدھا باندھنے کے لیے تو وہ اپنے ہمسائے کے پاس رسی لینے گیا کہ گدھے کو باندھنا ہے، تو ہمسائے نے کہا رسی تو نہیں ہے پر تم اگر اشارہ سے ایسا کرو جیسے رسے باندھ رہے ہو گلے میں گدھے کے اور پھر اسی طرح اشارے سے رسی کو کھونٹے سے باندھ دو تو گدھا کہیں نہیں جائے گا۔ اس نے واپس آ کر اسی ترکیب پہ عمل کیا۔ صبح ہوئی تو وہ گدھے کو کام پر لے کر جانے کی کوشش کرے اور گدھا اپنی جگہ سے نا ہلے وہ دوبارہ گیا ہمسائے کے پاس باندھے والی ترکیب تو کامیاب رہی پر اب گدھا اپنی جگہ سے نہیں ہل رہا اب کیا کروں تو ہمسائے نے پوچھا تم نے رسی کھولی گدھے کی، اس آدمی نے جواباً کہا جب رسی تھی نہیں تو کھولنا کیا تھا؟ ہمسائے نے سمجھایا جب رسی تھی نہیں تو باندھی بھی تو تھی۔ اب اسی طرح اشارے سے رسی کھولو گدھا چل پڑے گا اور ٹھیک ہوا بھی یہی۔ تو خواتین کی تربیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
سچ کہوں تو آج تک کوئی معصوم عورت نہیں دیکھی۔ پدرسری معاشرے کے زعم میں مرد کو بظاہر جتنا مضبوط، کڑیل دکھایا گیا ہے وہ ویسا ہے نہیں۔ ویسے بھی جسمانی مضبوطی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے عورت کی مینیوپلیٹڈ [ہیرا پھیری] کے سامنے۔ عورت بظاہر مرد کو ساتوں آسمان پہ بیٹھا دیتی ہے اور مرد اسی زعم میں خود کو عقل کل سمجھتا رہتا ہے جبکہ ہوتا وہی ہے جو عورت کروانا چاہتی ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو جیسے سیاست میں بادشاہ گر ہوتے ہیں جبکہ سامنے نظر آتے انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا وہ صرف مہرہ ہوتا ہے، بس مرد بھی وہ ہی مہرہ ہے۔ جس عورت کو یہ گر نہیں آتے جس سے مرد جیسے مہرہ کو چلایا جا سکے تو اسے ہمارے ہی معاشرے میں بے وقوف عورت کہتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ہر صنف پہ ظلم ہوتا ہے جس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے، اور ظلم زیادہ سے زیادہ ہو بھی تو 20 سے 30 فیصد، یہ تو کبھی نہیں ہوا نا کہ 100 فیصد ظلم ہی ظلم ہے۔ چودہ سو سال پہلے کی مثالیں دینے والے کہ جی بیٹیاں زندہ گاڑ دی جاتی تھی کیوں بھول جاتے ہیں اس دور میں بنت محمد کا مقام کیا تھا، حلیمہ سعدیہ کون تھی، حضرت خدیجہ جیسی تاجر اور اثر و رسوخ والی خاتون اور ہندہ جیسی خواتین بھی تھیں۔ اسلام سے ہٹ کر بھی خواتین کی مثالیں موجود ہیں، قلوپطرہ کا حسن اور اثر و رسوخ تو آج بھی مانا جاتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ 100 فیصد غلط نہیں ہوتا۔

ویسے بھی جیسے لبرل ہونا، لبرل دکھنا اور لبرل لبرل ہونے کا علان کرنا مختلف چیزیں ہیں۔ کیونکہ شاعر نے اس پہ کیا خوبصورت لائن لکھی ہے

اکثر شہر کا ملحد گاؤں کی مسجد میں روتا ہے

اسی طرح مجھے لگتا ہے ہم جو نہیں ہوتے اسی کا علان کرتے پھرتے ہیں پھر ویسے ہی دکھنا شروع کرتے ہیں، وہ جیسے کہتے ہیں نا اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے۔ Fake it till make it

باقی رہے وہ جو لبرل ہیں تو ان کا کیسے پتہ چلے تو فیکٹ اینڈ فگرز بولتے ہیں، یہ اہم نہیں کہ ہم نے کون سا ٹیگ لگایا ہے، ماڈرن، مذہبی، ایجوکیٹڈ، لبرل، سیاسی، اہم یہ ہے کہ ہمارا ہونا دوسروں کے لیے کتنا مفید ہے، کیا بہتری اور بھلائی کر رہے ہیں معاشرے کے لیے۔ بالکل ویسے ہی فیمنسٹ فیمنسٹ کے راگ الاپتے وہ ہیں جن کو پتہ ہی نہیں مسائل ہیں کیا، جن کے شوہر کھانا بناتے بھی ہیں، گرم بھی کر لیتے ہیں، کماتے بھی ہیں۔ برابری میں کھانے کی مثالیں واہ، دنیا کے ٹاپ ٹن شیف میں صرف دو خواتین ہیں وہ بھی ایک 7 سٹار اور دوسری 3 سٹار کے ساتھ۔

برابری کی باتوں میں اسلام کی مثال دینے والوں کا بھی جواب نہیں کہ مذہب نے یہ رکھا عورت کے لئے، وہ عزت دی، وہ خواتین جو چودہ سو سال پہلے جنگ میں جایا کرتی تھی وہ تلوار سے لڑا بھی کرتی تھیں، اور پتہ ہے کم سے کم وزن والی تلوار کتنی ہوتی ہے، 8 سے دس کلو کی۔ آج کل تو ہینڈ بیگ کے ساتھ مارکیٹ میں شاپنگ کے بعد تھک جانے والیاں برابری کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔

عورت کو مرد سے جس عزت و احترام کی خواہش ہوتی ہی، وہی مرد کی بھی خواہش ہے۔ ہم نے اسے تقسیم کر کے دنیا میں بس بزنس بنائے ہیں، مرد کرے تو ظلم بربریت، اور عورت مظلوم۔ جب عورت یہی سب کرے تو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق اور ساتھ ہی خود مظلوم بھی (عورت عورت کے خلاف ہو تب؟)۔ مرد ظالم ہوتے ہیں، پر کیا سب اگر ہاں تو کیوں کون بناتا ہے، تربیت کرنے والے ماں باپ۔ پر کیا مرد مظلوم بھی ہوتے نہیں بالکل نہیں ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر عورت بیک وقت ظالم اور مظلوم دونوں ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ مرد (باپ، شوہر، بھائی، بیٹا) کو اپنا اسیر بھی رکھنا چاہتی ہے ہر رشتے کی اپنی مناسبت سے کبھی ماں کے روپ میں ادب آداب کے چکروں میں، بہن، بیٹی کے روپ میں خونی رشتے، عزت کے نشے سے اور بیوی کے روپ کے انداز تو ہوتے ہی نرالے۔

آج کی عورت کنفیوز بہت ہے۔

جس فیمنسٹ کے سلوگن کو لے کر مٹھی بھر لوگ احتجاج کرتے پھرتے ہیں، جیبیں بھر کر، نام کما کر، واہ واہ سمیٹ کر بے حسی کی چادر تان کر سونے والے۔ اصل مسائل پہ نا بات کرتے ہیں نا کر سکتے ہیں ایسا ہوتا اگر تو نا تیزاب پھینکنے جاتے، نا چولھے پھٹتے نا عائشہ جیسی لڑکی نہر میں کودی ہوتی۔ ہزاروں این جی او بیکار ہی ٹھہریں، انسانیت تو ابھی بھی بلک رہی۔ ذہنی پسماندگی اور طبقاتی جرم رویوں کا حصہ بن جائے تو انہی کی نظر سے دیکھنے والوں کو اس سماج میں جرم نہ ہونے کے برابر ہی دکھائی دیں گے۔ فیمنسٹ ایک طبقہ کا نام ہے جو برسات کی بارش میں نکلے بھنورے جیسا ہے جس کی زندگی لمحوں کی ہوتی ہے۔ جو شمع کے گرد شور مچاتے مر جاتے ہیں، نا اپنا فائدہ نا کسی اور کا اور گند الگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments