مکالمے کی نہیں، معالجے کی ضرورت ہے


کہتے ہیں کہ خبر یہ نہیں ہوتی کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا، خبر تب بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے یعنی عمومی نہیں بلکہ غیر معمولی واقعہ خبر بنتا ہے۔ اس مقولے کے مصداق اگر اسپوراڈیکلی (sporadically) کہیں کوئی پرورٹڈ (perverted) بھائی یا باپ اپنی بہن یا بیٹی کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو خبر تو بنتی ہے اور ایسے شخص کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ لیکن اگر اس خبر کو مکرر بیانیہ بنالیا جائے تو پھر دل سوزی کا سبب بنتا ہے۔

”بہن کا جسم بھائیوں کی مرضی“ کے عنوان کے تحت کالم لکھنے سے اس بہن کی عزت تو بحال نہیں ہوگی مگر بقیہ بہن اور بیٹیاں اپنی عزت کے رکھوالے بھائی اور باپ کے لئے اضطرار اور خوف میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ نو عمر بچیاں اس طرح کے کالم پڑھ کر نفسیاتی صدمے (psychological trauma) کا شکار ہو سکتی ہیں اس لئے ایسے کالم پر پی جی (Pg) لکھنا بہتر ہوتا۔

آٹھ مارچ قریب آ رہا ہے اور دائیں اور بائیں بازو کے اصحاب سخن ہر روز ایک نیا کالم لکھ رہے ہیں لیکن اس زبانی جمع خرچ سے عورتوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ عورت مارچ کو عوام میں نفوذ پذیری حاصل نہیں ہوئی کیونکہ اس تحریک کو ہائی جیک کرنے والی خواتین معاشرے کی عام عورت کی نمائندہ ہی نہیں۔ عورت مارچ میں پلے کارڈ پر جو مطالبے لکھے جاتے ہیں وہ عام عورت کے مسائل ہی نہیں۔ ٹانگیں چیر کر بیٹھنے، دوپٹے کو آگ لگا دینے اور مردوں سے کھا نا گرم کروا نے سے مقصور عورت کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔

نیم برہنہ لباس پہنے کوئی ماڈل اگر میرا جسم میرا لباس کا نعرہ بلند کرتی ہے تو یہ اس کا کسب ہے مگر معاشرے کی عام عورت کو اس بے حجابی کا کوئی چاؤ نہیں۔ عام عورت کے اصل مسائل جن کو حل کرنا ضروری ہے وہ گھریلو تشدد، جہیز، پہناونی اور چھوچھک کے نام پر پیسے بٹورنے اور نہ ملنے پر عورت کو جلا مارنا یا مرنے کی جانب دھکیل دینا، تعلیم یا کام سے روکنا یا زبردستی کام کروانا، دفتروں میں جنسی ہراساں کرنا، اور جرگے کے ذریعے ناکردہ گناہوں کی سزا دینا شامل ہے۔

گھریلو تشدد نچلے اور ان پڑھ طبقے کے مردوں کا ہی وتیرہ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ، خوشحال اور ”، مہذب نما“ مرد بھی اپنی بیوی پر بے دردی سے تشدد کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ حقیقی مسائل جو معاشرے کو کوڑھ کی طرح لاحق ہیں اور ان پر سرجیکل اسٹرائیک ضروری ہے۔ لیکن اس کے لئے شعلہ فشانی اور خامہ روائی کافی نہیں بلکہ عملی مداخلت کرنا ہوگی۔ نشستند، گفتند برخاستند سے آگے بڑھنا ہوگا بلا تعصب جرم کی بیخ کنی کرنا ہوگی تسلیم کرنا ہوگا کہ مولوی ہی نہیں گرامر اسکول کا ٹیچر بھی زیادتی کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد گھریلو تشدد ہو رہا ہے تو میاں بیوی کا ذاتی معاملہ سمجھ کر خاموش نہ رہیں بلکہ عملی مداخلت کریں۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی قوت رکھتے ہیں تو ہاتھ سے روکیں ورنہ زبان سے روکیں۔

دنیا بھر میں حتی کہ عرب ممالک میں بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپریشن عورت کے جسم پر ہو اور consent اس کے شوہر یا باپ بھائی سے لی جائے لیکن پاکستان میں ایسا ہوتا ہے۔ شوہر دستیاب نہ ہو تو سسر کے دستخط بھی منظور کرلیے جاتے ہیں مگر جس کے جسم پر چھری چلے گی اور اس آپریشن کے نتیجے میں خون بہنے، بے ہوشی کے ضرر یا وریدوں میں انجماد خون (venous thrombosis) جیسی پیچیدگیاں بھگتنا ہوں گی اس سے اجازت کی ضرورت ہی نہیں۔ معکوس صورتحال میں مریضہ کی جان پر بنی ہے اور آپریشن اشد ضروری ہے مگر شوہر اجازت دینے پر تیار نہ ہو تو عورت مرتی ہے تو مرجائے وہ اپنے لئے آپریشن کی consent نہیں دے سکتی۔

میرا جسم میری مرضی کے مبلغ جن کی مقتدر حلقوں تک رسائی ہے پاکستانی عورت کو اس کے جسم پر یہ معمولی سا حق نہیں دلا سکے بلکہ شاید اس پر کالم بھی نہیں لکھا گیا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو بھی کبھی یہ خیال نہیں ایا۔

عمان میں ابارشن غیر قانونی ہے لیکن ڈاکٹرز نے محسوس کیا کہ بعض حالات میں ماں کی صحت کے لئے ابارشن ناگزیر ہوتا ہے مثلاً حمل کے ابتدائی دنوں میں سرطان کی تشخیص ہو اور حمل کی وجہ سے علاج میں تاخیر ماں کی زندگی اور صحت کے لئے خطرہ ہو یا پھر الٹراساؤنڈ اور دیگر ٹیسٹ ثابت کریں کہ بچہ پیدائش کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا مثلاً دماغ کا ایک بڑا حصہ نامکمل ہو اور ایسے میں حمل کے جاری رہنے سے ماں کے جسم میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

اس مسئلے پر عمان کے مفتی اعظم سے مذاکرات کیے گئے اور سائنسی توجیہات سے انہیں قائل کیا گیا نتیجتاً ایسی کسی صورتحال میں ابارشن کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن دو مسلمان گائناکالوجسٹ اور ایک مسلمان پیڈیاٹریشن کے دستخط لازم ہیں اس طرح عملی مداخلت کر کے عورت کا مسئلہ حل کیا گیا اور اس اجازت کے ناجائز استعمال کا بھی سدباب کر دیا گیا۔

لللہ۔ عورت کو اس کا حق دلانا ہے تو مکالمے کی نہیں معالجے کی ضرورت ہے۔ وضع قانون کی ہی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ظالم کا ہاتھ روکنے یا قلم کرنے کی ضرورت ہے۔ کثیر جہتی حکمت عملی اپنانی ہوگی مظلوم کی دہلیز تک پہنچنا ہوگا۔ یہ ایک جہاد ہے، جنگ ہے اسے سارے آلات حرب کے ساتھ لڑنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments