وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ


عورت کا ہر روپ خوبصورت اور اہم ہے۔ عورت اگر ماں ہے تو قوم کی معمار ہے کیونکہ پر اعتماد ،باوقار، با کردار ،عفت و عصمت کی حامل، اعلیٰ اخلاق کی مالک ماں جب بچوں کی پرورش کرتی ہے تو ایک مہذب معاشرہ تخلیق دیتی ہے ، ایسے سپوت پیدا کرتی ہے جنہیں تاریخ سنہری حروف میں امر کر دیتی ہے۔

ایک ماں اپنی تعلیم و تربیت سے بڑے بڑے مایہ ناز اسکالرز ،موٹیویٹرز، ادیب ، شاعر، ڈاکٹرز ، انجینئیرز، وکلاء ، سیاستدان پیدا کرتی ہے۔ غرض یہ کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو پودے کی آبیاری کرتی ہے پھر اس ننھے پودے پر مختلف قسم کے اور خوبصورت خوشبودار پھول کھلتے ہیں جو اپنی مہک سے اس باغیچے اور باغبان کا نام روشن کرتے ہیں۔

دین اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا جو کسی مذہب نے نہیں دیا۔ وراثت میں حق دیا۔ اسلام سے پہلے لڑکی کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ، اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ  اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے اور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے۔ حضرت خدیجہ ، حضرت اسماء ، حضرت عائشہ اور کئی نام ہیں جن کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے ، یہی نہیں بلکہ ماں وہ ہستی ہے جس کی دعا عرش تک کو ہلا دیتی ہے۔

عورت اگر بیٹی ہے تو اپنے باپ کی عزت و احترام کی پگڑی اپنے سر پر باندھ کر رکھتی ہے اور اس کا سر جھکنے نہیں دیتی۔ اس کے قہقہوں سے گھر گونجتا ہے اور اداس ہونے پر پورے گھر پر سناٹا چھا جاتا ہے۔ وہ باپ کی شہزادی ہوتی ہے۔ یہاں بھی تربیت کرنے والی ایک ماں (عورت) ہی ہے جو اسے زمانے کے اونچ نیچ ، رکھ رکھاؤ سکھاتی ہے۔ رشتوں کو پیار کی گوند میں گوندھنا سکھاتی ہے۔ اپنی اور باپ، بھائی ، شوہر کی عزت کی چادر کو نہ صرف اوڑھنا بلکہ اس کی حفاظت کرنا سکھاتی ہے۔

عورت اگر بہن کے روپ میں ہے تو اس سے زیادہ خوبصورت رشتہ اور کوئی نہیں ہے۔ بہن سے بڑھ کر بھائی کو چاہنے والا کائنات میں کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ بھائیوں کی محبت کا مرکز بنتی ہے ، ان سے لاڈ اٹھواتی ہے ، اپنی ننھی ننھی فرمائیشیں منواتی ہے۔ ان کی لمبی عمر کی دعائیں کرتی ہے۔ بھائیوں پر جان نچھاور کرنے والی حساس دل اور معصوم و نازک سی لڑکی ان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے۔

عورت اگر بیوی ہے تو گھر کو جنت بنا دیتی ہے۔ ماں باپ کے گھر سے شوہر کے گھر آتی ہے اور اس گھر کے مکینوں کو اپنی زندگی سمجھ کر اس نئے ماحول میں نئے لوگوں کے ساتھ رچ بس جاتی ہے۔ اب اس پر دوہری ذمہ داری آتی ہیں۔ ایک میکے کی اور دوسری سسرال کی۔ ماں ، باپ، بہن اور بھائیوں کے ساتھ بھی رشتہ بخوبی نبھاتی ہے اور اپنے نئے رشتوں کو بھی مالا میں موتیوں کی طرح پرو کر رکھتی ہے۔

تعلیم عورت کا بنیادی حق ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ اس سب سے بڑھ کر ضرورت ہے ، اچھی اور بہترین تربیت کی۔ لیکن آج کل کی کئی لڑکیاں پڑھ لکھ کر اپنی تہذیب ، وقار،  مقام اور اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیتی ہیں جو ان کے فطری حسن کے منافی ہے۔ ان کی یہی روش معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے۔

مردوں کی برابری کرتے کرتے وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ اللہ تعالی نے عورت کو نہ صرف خوبصورت بنایا ہے بلکہ اعلیٰ درجے کے مقام پر بھی فائز کیا ہے۔ جس میں سب سے اعلیٰ اور مقدم مقام ماں کا ہے جو ایک نئے وجود کو جنم دیتی ہے اور اس کو پروان چڑھاتی ہے پھر اس کی پرورش کرتی ہے۔

یہ کہنا بے جا نہیں کہ عورت کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے کیونکہ ایک عورت ہی گھر کو بگاڑتی اور سنوارتی ہے۔ کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ اب طلاق کی شرح کیوں بڑھتی جا رہی ہے جبکہ تعلیم کو عام کیا جا رہا ہے اور لڑکیوں کو ہر شعبے میں فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ جن میں سب سے اہم قوت برداشت کی کمی  بھی ہے۔

پہلے وقتوں میں زیادہ دور نہ جائیں صرف اپنی ماؤں کا تجزیہ کر لیں ، ان میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ جذباتی نہیں تھیں ہر بات سوچ سمجھ کر کرتی تھیں ، رشتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے ان کا تقدس پامال نہ ہونے دیتی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر کر دیتی تھیں۔ ساتھ نبھانے کا سوچتی تھیں اور کم آمدنی میں نہ صرف گزر بسر کر لیتی تھیں بلکہ بچت بھی کر لیتی تھیں۔ وہ خواتین رکھ رکھاؤ کا خیال کرتی تھیں اور خوش دل، مہمان نواز اور اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں انہی اوصاف کی بناء پر زندگی کے ہر معاملے میں برکت اور کشادگی تھی۔ کیا یہ اوصاف ہماری آج کی نسل میں پائے جاتے ہیں؟

آج کی نسل میں قوت برداشت ہے ہی نہیں اور سب سے بڑھ کر ”میں“ کا عنصر آ گیا ہے جو ہزار برائیوں کی جڑ ہے۔ روزمرہ کا جائزہ لیں۔ اسٹیٹس ، پارٹیاں، بڑی گاڑیاں ، آئی فون،  برینڈڈ کپڑے ، جوتی، بیگ کی خواہشات کی دوڑ میں زندگی کا سکون ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ انھی بے جا کی خواہشات اور فیشن کے نت نئے ٹرینڈز نے گھروں میں ناچاقیوں کو جنم دیا ہے۔ رشوت خوری لوٹ مار بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ حلال رزق میں یہ سب ممکن نہیں۔ جب حرام کمائی کا لقمہ اولاد کے منہ میں جائے گا تب اولاد آپ کے ساتھ کیا سلوک کرے گی یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے۔

لہٰذا اپنی اولاد کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دیں۔ ان کو اچھے برے ، چھوٹے بڑے کی تمیز ہونی چاہیے۔ رشتوں کو توڑنا نہیں بلکہ جوڑنا سکھائیں،  ساس سسر سے الگ ہونا نہیں بلکہ ان کو ماں باپ کا درجہ دے کر پیار محبت سے رہنا سکھائیں۔ اسٹیٹس اور برینڈ کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے ان کو یہ احساس دیں کہ وہ فیشن کو اپنانے کی بجائے وہ پہنیں جو ان پر اچھا لگے اور ان کا وقار مجروح نہ ہو۔ مردوں کی برابری ضرور کریں لیکن اپنے وقار اور عزت کو داؤ پر نہ لگائیں۔

اتنی بڑی قیمت ادا نہ کریں۔ اللہ نے مرد کو ہماری حفاطت کے لئے بنایا ہے اور بہت خوبصورت رشتوں سے نوازا ہے ، ان سے قدم ملا کر ضرور چلیں لیکن آگے بڑھنے کی دوڑ میں اپنی اور ان پیارے رشتوں کی عزت کی چادر کو اپنے قدموں تلے نہ روندیں۔ وقت کے ساتھ ضرور چلیں نئی ٹیکنالوجی کو ضرور اپنائیں لیکن اپنی تہذیب کو نہ بھولیں ، اپنی تربیت اور اپنی ماں پر انگلی نہ اٹھنے دیں۔ وہ عورت جس سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اس کے رنگ پھیکے نہ پڑنے دیں، اس پر انگلی نہ اٹھنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments