سینٹ کے حالیہ انتخابات، جذباتیت اور کرنے کے کام


1۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی حالیہ سینٹ الیکشن میں اسلام آباد کی جرنل سیٹ سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (متحدہ اپوزیشن اتحاد) کے متفقہ امیدوار تھے۔ اور انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار حفظ شیخ کو 164 کے مقابلے میں 169 ووٹوں سے شکست دی ہے۔ گیلانی صاحب کے تجویز کنندہ سابق دو وزرائے اعظم تھے جس میں سے ایک مسلم لیگ نون کے شاہد خاقان عباسی صاحب بھی تھے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے چند سال قبل گیلانی صاحب کی نا اہلی کی تائید کی تھی۔

گویا کل جس کی نا اہلی کی تائید کی تھی آج اسی وزیراعظم کے تجویز کنندہ کے طور پر اپنے سابق وزیراعظم کو لے کر آنا عاقبت نااندیشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مسلم لیگ نون کو گیلانی صاحب کے تجویز کنندہ کے طور پر آنے سے پہلے عوام کے سامنے اپنے اس غلط عمل کا اعتراف کرنا چاہیے تھا اور ان سے معافی مانگنی چاہیے تھی۔ مگر ہمیشہ کی طرح نون لیگ نے اعتراف جرم والی اخلاقی جرات کی قدر کو متروک ہی رکھا۔ تاہم ارتقا میں اتنی تیزی ضرور آئی ہے کہ چند سالوں بعد ہی درست جگہ پر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ سابق تین وزرائے اعظم کی مشترکہ تصویر جس میں گیلانی صاحب کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے تھے بالغ نظری، وسیع القلبی اور سنجیدگی کی سیاست کی عکاس تھی۔ جو ہر جمہوری ذہن کے لیے ایک دلچسپ، پرکشش اور قابل قدر تصویر ہے۔

2۔ بظاہر گیلانی صاحب کو اکثریت حاصل نہ تھی۔ مگر ایک زرداری سب پر بھاری نے الٹی چھڑی گھما کر گیلانی صاحب کی شکست کو فتح میں بدلا ہے۔ گیلانی صاحب کے بیٹے کی ویڈیو اور زرداری صاحب کی جوڑ توڑ کی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے لکشمی نے اپنا کام دکھایا ہے۔ گویا ایک عام غریب ان پڑھ ووٹر کے آزاد ہونے کی بات درکنار یہاں پڑھے لکھے اور متمول شخصیات بھی اس قباحت سے پاک نہیں۔ گویا سیاست میں اخلاقی قدروں کی بساط بچھنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ دلی ہنوز دور است۔

3۔ وزیراعظم عمران خان صاحب اس نتیجے کے بعد کافی جذباتی دکھائی دیے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زرداری صاحب کی پھیری ہوئی اس الٹی چھڑی نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔ اور انہوں نے ایک اور جذباتی خطاب بھی داغ دیا ہے اور تکرار محض کے طور پھر اپوزیشن کو کہا ہے ”میں نہیں چھوڑوں گا“ ۔

یوں لگتا ہے جیسے خان صاحب کو بس وہی کرپشن جذباتی کرتی ہے جو اپوزیشن کرتی ہے وگرنہ اپنے مالی اور خانسامے کے نام پر اربوں روپے بے نامی رکھنے والے جہانگیر ترین کی وضاحتیں کیوں دیتے۔

تین سال قبل جس شخص کی سینٹ کے الیکشنز میں پیسوں والی ویڈیو دیکھ چکے تھے اسے خیبر پختونخوا کا وزیر قانون کیوں بناتے۔ قدوس بزنجو کو جب نا دیدہ ہاتھوں نے رات و رات مسلم لیگ نون کی حکومت گرا کر وزیراعلیٰ بلوچستان بنایا تھا تب خاموش کیوں رہے تھے۔ سنجرانی صاحب کے اقلیت میں ہونے کے باوجود چئرمین سینٹ بننے پر جذباتی کیوں نہ ہوئے تھے۔ اور جب سنجرانی صاحب کو عددی اکثریت حاصل نہ تھی۔ تب بھی وہ اعتماد کا ووٹ لے کر چیئرمین شپ پر براجمان رہے اس بات نے انہیں کیوں نہیں رولایا۔ گویا خان صاحب ایک خاص حلقہ احباب کے جذبات ابھارنے میں کامیاب رہتے ہیں سو وہ کرتے ہیں۔ اور یہ حلقہ احباب نظریے سے زیادہ ذاتی پسند نا پسند کا ایک فین کلب ہے جو ٹارگٹ ہو تا ہے خان صاحب خوب خوب ٹارگٹ کرتے بھی ہیں۔

4۔ ان سب باتوں کے علاوہ جواس اپ سیٹ نے ایک اور سبق دیا ہے وہ ہے اپوزیشن کی طاقت کا۔ اگر اپوزیشن یا زرداری صاحب اس طرح کے اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ اس چیز کا مظہر ہے کہ اپوزیشن ایک حقیقت ہے۔ اس کے پاس بھی طاقت ہے۔ ایک پارٹی حکومت محض خواب ہے۔ لہذا اپوزیشن کی طاقت کو یکسر نظر انداز کر کے آپ بلا تعطل حکومت چلا نہیں سکتے۔ آپ طویل المدت منصوبہ بندی اپوزیشن کے بغیر کر نہیں سکتے۔ حتی کہ آپ اپنا خواب بھی اپوزیشن کو آئینی طور پر انگیج کیے بغیر نہیں حاصل کر سکتے۔

لہذا جذباتی تقریریں اور فین کلب کو احمق بنانا اپنی جگہ مگر ہمارے ملک کے درج ذیل بنیادی سوالوں پر آپ کی حکومت کے دوران اور اس کے بعد بھی ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھیں اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کریں اور اصل مسلے کی طرف آئیں آپ کو جذباتی تقریریں کرنے کا وقت اپوزیشن میں مل جائگا:

سوالات یا نکات:
1۔ نیب متنازعہ ہو چکا اس کا متبادل اور متفقہ حل
2۔ سیاست صرف سیاستدانوں کے لیے
3۔ طویل المدت بلدیاتی نظام جس سے عوام دس بیس سال میں مانوس ہو کر نتائج پیدا کرے۔

4۔ امریکہ، چائنہ، ایران، افغانستان اور بھارت کے بارے میں مستقل محکم اور دیرپا پالیسی جس کی اپوزیشن بھی اپنے اگلے حکومتوں کے ادوار میں پیروی کرے

5۔ میثاق معیشت جس میں قومی اتفاق رائے سے کم از کم اگلی تین دہائیوں کی پالیسی بنے جس کی سب پیروی کریں جس میں معیشت کا حجم اور ٹیکس کلیکشن کے بڑھنے کے واضح سنگ میل طے کیے جائیں۔

6۔ آبادی، گلوبل وارمنگ، توانائی اور پانی کے حوالے سے متفقہ پالیسی

یہ سب ہی نیا پاکستان بنائے گا جس کو ایک دور حکومت میں نہیں بنایا جا سکتا تاہم ایک دور حکومت میں قومی اتفاق رائے پیدا کر کے اس کی طرف تیزی سے بڑھا جاسکتا ہے۔ ورنہ سیاسی ارتقا (Evolution) کی رفتار زمینی کٹاؤ (Erosion) جتنی ہو گی جو صدیوں میں بھی شاید ہی کوئی نتائج دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments