“امت مرحوم”، سیاسی طاقت اور وحدت امہ کا موہوم خاکہ


سیمیول ہنگٹنگٹن کی ’تہذیبوں کا تصادم‘ تو پرانا مقالہ ہو گیا لیکن اس میں بیان ہماری روداد بلکہ افتاد اسی طرح تازہ ہے۔

اکیسویں صدی میں جہاں قومی ریاستوں کا تصور اپنے عروج پر ہے وہاں ہم ’امت‘ کا موہوم سا خاکہ لیے پھر رہے ہیں جس کے بارے استاذ نے فرمایا ایسا اسم جس کا مسمی ہی نہ ہو۔

’وحدت امت‘ کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ ’مرکزی طاقت‘ اور ’امت‘ دونوں کا تاریخی رومانس سمجھنے لائق ہے۔

ساتویں صدی میں امویوں کی فتوحات نے دمشق میں خلافت قائم کی، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور سندھ تک تاخت کیا۔ آٹھویں صدی میں اس ’مرکزی طاقت‘ کا مرکز عباسیوں نے بغداد کو بنایا۔ اسی سے دوسرے درجے میں دسویں صدی میں فاطمیوں نے قاہرہ اور امویوں نے قرطبہ کو مرکز بنایا۔

چار سو سال بعد ترکوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں سے مشرق وسطیٰ کو فتح کیا اور پندرھویں صدی کے وسط میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے مرکز استنبول کو بنا لیا اور 1517 سے اس مرکز کا نام خلیفہ سے سلطان رکھ دیا، اسی دور میں ترکوں کے ایک اور خاندان نے ہمیں فتح کرنے کا ارادہ کیا اور مغلوں نے ایک نیا مرکز آگرہ میں قائم کیا۔

مغربی طاقت کے دنیا میں عروج اور ان کے ہاتھوں دونوں پہلے مغل پھر ترک کے زوال کے ساتھ ہی ’امت‘ اپنے ’مرکز‘ سے محروم ہو گئی۔

بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ، قسطنطنیہ یا آگرہ۔ عباسی، اموی، فاظمی، عثمانی یا مغل تو اب تاریخ ہوئے لیکن ہم اپنے ’ناسٹلجیا‘ میں ہی جی رہے ہیں۔

’مرکزی ریاست‘ یا ’قائدانہ کردار‘ کے لیے ’امت‘ کا سفر ابھی بھی جاری ہے، ہنگٹنگٹن کے مطابق یہ ’امت کا بیانیہ‘ دو تضادات کا شکار ہے۔

پہلا تضاد [پیراڈاکس] یہ ہے کہ ’امت‘ کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی ریاست کے بیانیے کا انکار کر دے اور ریاستوں کی حدود بے معنی ہو جائیں [جس طرح مارکسزم میں عالمی پرولتاریہ کا تصور ہے] اور ایک مرکزی طاقت قائم ہو [جس طرح سوویت روس میں یہ مرکزیت ماسکو کو حاصل تھی]۔ کیا یہ ممکن ہے؟

مرکزی ریاست کے سفر کی کہانی جو ہم نے اوپر دیکھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں اس فکر پر طاقت کی اجارہ داری تھی، جب عربوں کے پاس قوت تھی تو بغداد اور دمشق مرکز بنے، جب شیعوں کو زور ملا تو انہوں نے مرکز قاہرہ کو بنا لیا، جب ترک منظم ہوئے تو استنبول مرکز قرار پایا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا میں استعمار کی گرفت کمزور پڑی تو ’مرکز‘ بے معنی ہو گیا، ایرانی، عربی اور ترکی شناختیں قوت سے ظاہر ہوئیں اور ’قومی ریاستوں‘ کا دور شروع ہوا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ پہلے بھی ’مرکز‘ طاقت کے ذریعے قائم تھا اور اب جب بھی اسے قائم کیا جائے گا تو جبر کا سہارا ہی لینا پڑے گا۔

دوسرا پیراڈاکس یہ کہ اسلام متحارب قوتوں میں تقسیم ہے اور ہر طاقت اپنے آپ کو مرکز بنانا چاہتی ہے اور یہ طاقتیں نسلی اور فرقہ وارانہ امتیازات رکھتی ہیں۔ اس مقابلے کی نفسیات بھی بڑی رنگیین ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کا مرکز قاہرہ تھا، جمال ناصر اس میں بنیادی کردار رکھتے تھے، سعودی عرب کے شاہ سعود انہیں مروانے کی ناکام کوشش میں بادشاہت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے پیش رو شاہ فیصل نے ’امت‘ کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

عرب لیگ میں جمال عبدالناصر کے اثر کو زائل کرنے کے لیے سعودی عرب نے 1972 میں او آئی سی قائم کی جس کا مرکز جدہ تھا۔ بڑی دیر تک قیادت ان کے پاس رہی۔ 1974 میں اس کا ایک اجلاس پاکستان میں بھی ہوا۔

تاریخ نے پلٹا کھایا امریکہ بہادرنے عراق کو ’برائی کا محور‘ قرار دیا اور گلف وار شروع ہو گئی، سعودی عرب کی امداد کے لیے امریکہ نے عراق پر چڑھائی کر دی، سعودی عرب نے عرب دنیا میں اپنا وقار کھو دیا۔

اس خلاء کو پر کرنے کے لیے گلف وار کے بعد سوڈان کے حسن ترابی نے ’پاپولرعرب اسلامک کانفرنس‘ بنائی جس کا مرکز خرطوم ہے۔

جمال عبدالناصر سے شاہ فیصل اور وہاں سے حسن ترابی۔ عرب لیگ ، او آئی سی ، پی اے آئی سی دائرے کا سفر جاری ہے۔ مرکز قاہرہ سے جدہ سے خرطوم سے ہوتے ہوئے اب ایشیائے کوچک میں ’امید‘ کے دیے روشن کر رہا ہے۔ ارطغرل کی سرزمیں اور نیا مسیحا اردگان ۔ یعنی پرانی شراب نئی بوتل میں۔

دونوں تضادات تاریخ کے بھیانک حقائق کے ساتھ موجود ہیں لیکن ہم ہیں کے دائرے کے سفر پر مصر ہیں۔ فکر تب ہی اقوام کی زندگیوں میں مثبت اثر رکھتی ہے جب وہ پیراڈاکس سے پاک ہو۔ قرآن نے اپنے ’فکر‘ کے الہامی ہونے کے لیے بھی اسی دلیل کی طرف متوجہ کیا ہے : ”اگر یہ [قرآن یعنی یہ فکر] غیرللہ کی طرف سے ہوتا تو تم اس میں بہت سے تضادات پاتے“ النساء

قول وعمل میں اختلاف سے شخصیت پراگندہ ہوتی ہے، فکر یا بیانیے میں تضادات سے قوم کا اخلاقی دیوالیہ نکل جاتا ہے اور وہ اپنی منزل تو کھوٹی کرتی ہی ہے ، دوسری تہذیبوں کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔

شاید اسی لیے ہنگٹنگٹن نے ہمارا فسانہ ایک جملے میں بیان کیا۔

Consciousness without cohesion is a source of weakness to Islam and source of threat to other civilizations.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments