باڈی شیمنگ: کاندھے جھکا کر چلتی ہوں تاکہ کسی کی نظر میرے سینے پر نہ جائے


 

صفا، ماریہ، یاسمین

بی بی سی نے (دائیں سے بائیں) صفا، ماریہ، یاسمین سے ماں بننے کے بعد ان کے وزن پر ہونے والی تنقید اور اس کے ان کی ذہنی صحت پر اثرات کے بارے میں بات کی

‘اب تم اپنے شوہر کی بیوی نہیں، اس کی اماں لگتی ہو’

‘تم ایسی لگ رہی ہو جیسے کسی اژدہے نے پورا انسان نگل لیا ہو’

‘اچھا کیا وزن کم کر لیا، ورنہ تم بہت خطرناک ہوگئی تھیں’

‘اب تم یہ کپڑے مت پہنا کرو، موٹی ہوگئی ہو، بُری لگتی ہو’

کیا عملی طور پر کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک انسان کو اپنے جسم کے اندر پالے اور اس کی پیدائش کے بعد فوری طور پر ایسا دکھنے لگے جیسے اس کے جسم کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں؟

اگر آپ کا جواب بھی ‘نہیں’ ہے، تو کیا کبھی آپ نے ان جملوں پر غور کیا ہے جو پاکستانی اور انڈین معاشرے میں نئی ماؤں سے بڑی بے تکلفی سے کہہ دیے جاتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے

بچے کو جنم دینے کی تکلیف جس پر کوئی بات ہی نہیں کرتا

پلس سائز فیشن: ’پاکستان میں میرا ناپ نہیں ملتا‘

‘ہائے، بال کٹوا دیے؟ اب تو کام نہیں ملے گا‘

لاہور میں مقیم ماہر نفسیات ڈاکٹر مریم سہیل کا خیال ہے کہ ‘بچے کی پیدائش کے بعد تقریباً آٹھ ماہ تک ماں کی جسمانی اور ذہنی حالت اتنی نازک ہوتی ہے کہ اگر اس وقت اس کے ارد گرد لوگوں کے رویوں میں ہمدردی نہ ہو تو ماں کی ذہنی پریشانیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے’۔

چند نئی ماؤں نے ہمیں ایسے جملوں اور تعنوں کے بارے میں بتایا جن سے ان کی شدید دل آزاری ہوئی اور وہ احساس کمتری کا شکار ہوگئیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=O3jD09iK4Rg

‘کاندھے جھکا کر چلنے لگی ہوں’

چند ماہ قبل بیٹی کو جنم دینے والی اداکارہ جُگن کاظم نے بتایا کہ ‘حمل کے دوران بڑھنے والے وزن کے سبب مجھے کٹا، گینڈا، موٹی جیسے الفاظ سے بھی پکارا گیا۔ یہ جملے کہنے والے کے لیے مذاق ہو سکتے ہیں لیکن سننے والے کے لیے صرف اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔’

جُگن تین بچوں کی ماں ہیں اور کہتی ہیں کہ ہر بار ماں بننے کے بعد انھیں وزن سے متعلق تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے بچے کی پیدائش کے وقت انکا وزن تقریباً 30 کلو بڑھ گیا تھا۔ انھیں پوسٹ پارٹم ڈیپریشن نے بری طرح متاثر کیا اور ایسے میں ان کے وزن کے بارے میں لوگوں کے جملے انھیں بہت پریشان کر دیتے تھے۔

انھوں نے کہا ‘میں باتھ روم میں جا کر رویا کرتی تھی اور یہ بھی کوشش کرتی تھی کہ کسی کو پتا نا چلے۔ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی تھی کہ کیا میں نے بچہ پیدا کر کے کوئی غلطی کر دی ہے؟’

گذشتہ برس اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی پیدائش کے بعد ایک بار پھر انھیں وہی تجربہ ہوا۔ جگن نے بتایا کہ ‘کسی شوٹنگ کے دوران ساتھ کام کرنے والے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم ایسی لگ رہی ہو جیسے کسی اژدہے نے پورا انسان نگل لیا ہو’۔

انھوں نے بتایا: ‘میں اپنے وزن کے بارے میں اتنی فکر مند نہیں تھی جتنا لوگوں نے مجھے بنا دیا۔ میں آج کل چلتی ہوں تو کاندھے جھکا کر چلتی ہوں تاکہ کسی کی نظر میرے سینے پر نہ جائے۔ ایسا کسی بھی لڑکی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔’

جُگن کاظم نے بتایا کہ اپنے وزن پر تنقید سے بیچین ہوکر بچی کی پیدائش کے تیسرے ہی ہفتے وہ ورزش کے لیے ٹریڈمِل پر چڑہ گئیں۔

انھوں نے کہا ‘اس حرکت کے سبب میرے پیٹ کے کچھ ٹانکوں سے خون رسنے لگا اور مجھے بعد میں اس قدم پر ندامت بھی محسوس ہوئی’۔

جگن اس بات پر زور دیتی ہیں کہ لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ کسی شخص کو کتنی تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد کو اس معاملے میں سمجھنا بھی ضروری ہے۔

جُگن نے کہا ‘میرے سینے کے سائز پر لوگ ایسے گھٹیا تبصرے کرتے ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔ لیکن لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ میں بچے کو دودھ پلانا بند بھی تو نہیں کر سکتی ہوں۔ اگر دائٹنگ کرتی ہوں تو بچے کے لیے صحیح نہیں ہے، تو ایسی صورت حال میں کیا کروں؟’

‘دودھ پلاؤں یا وزن کم کروں؟’

امریکہ میں مقیم پاکستانی خاتون صفا صدیقی نے بتایا کہ ان کے شوہر اور سسرال والوں نے بچے کی پیدائش کے بعد اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان کے ساتھ ایسی کوئی بات نا ہو جس سے انھیں تکلیف پہنچے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ نئی ماوٴں کے ساتھ ایسا رویہ معاشرے میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

صفا نے کہا: ‘نئی ماؤں کے ذہن میں مسلسل ایک جنگ چل رہی ہوتی ہے کہ بچے کو دودھ پلاؤں یا ڈائٹنگ کروں؟ ڈائٹنگ کروں تو دودھ کیسے پلاؤں؟ اور ایسے میں لوگوں کی موٹاپے سے متعلق جملے بازیاں ماں کو مزید اذیت میں ڈالتی ہیں’۔

https://www.youtube.com/watch?v=u2AjVWWEuhg

ہماری شکل و صورت اور جسامت پر ہونے والی تنقید ہمیں مختلف قسم کے وسوسوں میں ڈال سکتی ہے۔ احساس کمتری میں ایک عورت یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو سکتی ہے کہ اب وہ کسی کے لیے اہم نہیں، یا اس کی وہ اہمیت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔

صفا صدیقی بتاتی ہیں کہ ان سے بھی ان کی کسی نزدیکی خاتون نے اپنی اس الجھن کے بارے میں بات کی تھی اور بتایا تھا: ‘میں سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی میں اپنے شوہر کو اچھی لگوں گی؟ میں نے اس سے کہا کہ تمہارا شوہر آخر تمہیں توجہ کیوں نہیں دے گا؟ جسم اگر تھوڑا بہت تبدیل ہو بھی جائے تو کیا ہوا، تم تو آخر اب بھی تم ہی ہو۔’

صفا نے بتایا: ‘میں جب بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد پاکستان گئی تو مجھے کسی نے کہا کہ اچھا ہوا تم نے وزن کم کر لیا ورنہ تم بہت خطرناک ہو گئی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں اسے تعریف سمجھوں یا کچھ اور؟’

انھوں نے کہا ‘سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچے کو پیدا کرنا، ماں کے وزن میں تبدیلی، یہ تمام چیزیں زندگی کا حصہ ہیں۔ انھیں غیر معمولی باتوں کی طرح پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔’

صفا کا خیال ہے کہ خواتین سے بچے کی پیدائش کے بعد جو توقعات کی جاتی ہیں وہ جائز نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘خواتین سے یہ امید کرنا کہ بچہ پیدا ہو گیا تو بس اب وہ ڈائٹنگ اور ایکسرسائز شروع کر دیں اور وہی کپڑے دوبارہ پہننے لگیں جو اپنے والدین کے گھر سے لائی تھیں۔۔۔یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے ایک پورا انسان اپنے جسم میں بڑا کیا اور پیدا کیا ہے، آپ کو مجھے وقت دینا ہوگا۔’

صفا کا خیال ہے کہ ‘یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے اطراف جو خواتین ہیں وہ آپ کو یہ بتائیں کہ آپ کی سب سے زیادہ توجہ اپنی اور بچے کی صحت پر ہونی چاہیے، وہ یہ نہ بتائیں کہ آپ کتنی موٹی ہو گئی ہیں۔’

‘تمہارا شوہر تمہیں چھوڑ دے گا’

زچگی کی مشکل وقت میں جب ماں ہارمونز میں اتار چڑھاؤ، نیند کی کمی اور دن رات بچے کی ضروریات اور جسمانی تھکن کے مسائل سے گزر رہی ہوتی ہے، تو ایسے میں اسے ملنے والے موٹاپے کے طعنے یا تکلیف دہ جملے اس کے خود اپنے بارے میں احساسات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ متعدد خواتین ایسے میں خود پر توجہ دینا بھی چھوڑ دیتی ہیں، جیسا کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی خاتون یاسمین سجاد نے بھی کیا۔

یاسمین نے بتایا: ‘میرے موٹاپے پر لوگوں کی مسلسل تنقید کے سبب میں سوچنے لگی تھی کہ ماں بننے کے بعد شاید میں واقعی بدصورت ہو گئی ہوں اور اب مجھ پر کوئی بھی ہیئر سٹائل، فاونڈیشن یا کپڑے اچھے نہیں لگتے۔ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر میں نے باہر آنا جانا اور لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔’

39 سالہ یاسمین سجاد کے تین بچے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بچوں کی پیدائش کے بعد جب بھی وہ پاکستان گئیں تو انھیں وزن سے متعلق شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘مجھ سے یہ تک کہہ دیا گیا کہ تم اپنے شوہر کے ساتھ بالکل اچھی نہیں لگتی ہو۔ تم اس کی بیوی نہیں لگتی، اس کی اماں لگتی ہو۔ تمھیں وزن کم کرنا چاہیے ورنہ تمہارا شوہر تمہیں چھوڑ دے گا۔’

زچگی کا تجربہ بھی ہر ماں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ یاسمین نے بتایا کہ ان کی زچگی کوئی عام زچگی نہیں تھی۔ انھیں خون کی شدید کمی کا سامنا تھا جس کے سبب انھیں بار بار خون چڑھانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ ان کے جسم میں بہت زیادہ سوجن بھی رہنے لگی تھی۔ ایسے میں ان کا کھانے پینے پر دھیان دینا بہت ضروری تھا۔ انھوں نے بتایا ‘میں ڈائٹنگ کیسے کرتی؟ اگر میں کھانا پینا کم کرتی تھی تو میں بے ہوش ہو جاتی تھی۔’

انھوں نے کہا ‘مجھے دوسری خواتین کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ اس وقت تک ان کے جسم میں کتنی تبدیلیاں آ گئی ہوتی ہیں۔ تم کچھ زیادہ ہی پھول گئی ہو۔’

ان تمام باتوں نے یاسمین کے حوصلے کو ہی نہیں بلکہ ان کی سماجی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ انھوں نے شادیوں اور دیگر تقریبات میں شرکت کرنا چھوڑ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ کسی سماجی مقام پر بھی ان کا موازنہ کنواری لڑکیوں سے کرتے ہوئے انھیں موٹاپے سے متعلق جملوں کا سامنا رہتا تھا۔ نتیجتاً ان کی زندگی میں صرف ایک سہیلی ہی رہ گئی اور باقیوں سے انھوں نے رابطہ منقطع کر لیا۔

‘کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ماں کے جسم میں کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں’

حاملہ

راولپنڈی میں گھر سے کیٹرنگ کا کاروبار کرنے والی ماریہ ظفر نے چند ماہ قبل اپنے پہلے بچے کو جنم دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘جب لوگ کسی لڑکی سے یہ سب باتیں کرتے ہیں تو وہ اُسے بہت ظالم لگتے ہیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ انھوں نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیسے مینیج کر رہی ہو، تم پر کیا گزر رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ انھیں اسی بات کی فکر ہے کہ اب میں کیسی لگ رہی ہوں۔’

وہ کہتی ہیں، ‘لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر کچن میں ایک سینڈوچ بنانے جائیں تو اس میں کتنی ساری چیزیں شامل ہوتی ہیں، ظاہر ہے جب آپ کے جسم میں ایک زندگی کی تخلیق ہو رہی ہوتی ہے، ایک بچہ بنتا ہے تو اس کے ساتھ آپ کے جسم میں بہت ساری تبدیلیاں آتی ہیں۔ لیکن مسلسل طعنے ماں کا حوصلہ توڑ دیتے ہیں اور وہ خود احساس کمتری اور شرمندگی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔’

ماریہ کو اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ نئے بچے کی آمد پر لوگ ماں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اس پر کیا گزر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘جب کوئی لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو بڑی بوڑھیاں اور تمام لوگ اسے آکر بتاتے ہیں کہ بچے کے کپڑے کہاں سے لینے ہیں، بچے کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ کوئی ماں کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ کوئی ماں کو نہیں بتاتا کہ اس کےجسم میں کس قسم کی تبدیلیاں آنے والی ہیں، اس پر کیا اثرات ہوں گے، کوئی اسے پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کے بارے میں نہیں بتاتا۔’

پوسٹ پارٹم ڈیپریشن اور سماجی رویوں کا اثر

حمل کے دوران بچے کی نشونما کے لیے ماں کے وزن میں کئی کلو اضافہ ہوتا ہے۔ اور پیدائش کے بعد یہ وزن کم بھی ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا راتوں رات ہونا ممکن نہیں۔ اس میں چھ ماہ سے لے کر ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔

ماں بننے کے بعد وزن، بال اور جلد سے متعلق تنقید کا نئی ماؤں کی ذہنی صحت پر شدید اثر پڑتا ہے۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن

لاہور میں مقیم ماہر نفسیات ڈاکٹر مریم سہیل نے بتایا: ‘بچے کی پیدائش سے لے کر کم از کم آٹھ ماہ تک کا عرصہ کسی ماں کے لیے بہت نازک وقت ہوتا ہے کیوں کہ پیدائش کے مشکل مرحلے سے گزرنے کے بعد ماں کے جسم میں ہارمونز میں مسلسل تبدیلی آ رہی ہوتی ہے، جس کے سبب ماں کا ذہن غیر معمولی انداز میں کام کرنے لگتا ہے۔ اسے ‘پوسٹ پارٹم ڈیپریشن’ بھی کہا جاتا ہے۔

‘یہ کیفیت معمولی ڈیپریشن سے لے کر پاگلپن کے واقعات کی حد تک جا سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں طبی امداد کے علاوہ ان لوگوں کا ساتھ بہت ضروری ہوتا ہے جو آپ کو سمجھتے ہوں اور آپ کی ایسی کیفیت میں آپ کی نفسیاتی طور پر مدد کر سکیں۔’

پاکستان میں سالانہ اوسطاً پچاس لاکھ خواتین حاملہ ہوتی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم ممکنہ طور پر یہاں معاشرتی رویوں سے متاثر ہونے والی خواتین کی کتنی بڑی تعداد کی بات کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ممریم سہیل کہتی ہیں کہ ‘پاکستان میں بیشتر لوگوں کو نئی ماں کی نفسیاتی ضروریات کا علم نہیں ہوتا اور اگر ماں کا پہلے سے ہی پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا مسئلہ چل رہا ہو تو بھی اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس مشکل سے گزر رہی ہے۔ اگر ماں کو اپنے ارد گرد لوگوں سے ذہنی اور نفسیاتی مدد حاصل نہ ہو تو اس کے ذہنی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔’

جرنل آف پاکستانی میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع رپورٹ کے مطابق ایشیائی ممالک میں پوسٹ پارٹم ڈیریشن کی شرح سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔

ڈاکٹر مریم سہیل کہتی ہیں کہ ‘بھلے کوئی عورت ماضی میں بھی ماں بن چکی ہو لیکن یہ تجربہ ہر بار مشکل ہوتا ہے۔ اصل میں ماں کی ذہنی کیفیت ان دنوں میں اتنی نازک ہوتی ہے کہ ایسی باتیں ماں کی ذہنی پریشانی بڑھانے کے لیے کافی ہوتی ہیں، بھلے وہ عام خیال میں تلخ یا چوٹ پہنچانے والے جملے نہ بھی ہوں۔’

ان کا خیال ہے کہ ‘نئی ماؤں کا خیال رکھنے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے آس پاس لوگ اس کی مشکل کو سمجھیں اور ان کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ وہ اپنی مشکلات کے بارے میں بات کر سکیں۔ ان سے پوچھیں کہ ان کو کیا مدد چاہیے۔ اس دور میں ماں کے لیے قریبی تعلقات اور ہمدردی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اسے ماں باپ، بہن ،بھائی اور قریبی دوستوں اور عزیزوں کا ساتھ حاصل ہو جن کے ساتھ وہ اپنے دل کی بات کر سکیں۔’

یہ بھی دیکھیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp