اب چیئرمین سینٹ کے لئے دوڑ


نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات پرنٹ صحافت کے زوال کے دنوں میں بھی کثیر تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ریاستی اور کاروباری حوالوں سے مقتدر اور مؤثر حلقوں میں انہیں غور سے پڑھا جاتا ہے۔ایسے اخبارات کے لئے مضامین یا کالم لکھنے والے جب کسی دوسرے اخبار میں چھپے مضمون یا کالم کا حوالہ دیتے ہیں تو اس اخبار اور زیر بحث مضمون یا کالم کے مصنف کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔

ہماری صحافت میں اس روایت کو اپنانے سے مگر گریز کی روایت ہے۔’’بڑے‘‘ اخبارات کے لئے لکھنے والے جید کالم نگاروں کو یہ گماں لاحق رہتا ہے کہ وہ کسی ’’چھوٹے‘‘ اخبار کے لئے لکھنے والے کا نام لکھ دیں گے تو وہ ’’مشہور‘‘ ہوجائے گا۔ہمارا ’’پلیٹ فارم‘‘ غیر معروف لوگوں کی ’’مشہوری‘‘ کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے لئے تاریخی معلومات سے بھرپور کالم لکھنے والے صاحب اسلوب جناب بلال غوری صاحب نے پیر کے روز چھپے کالم میں مجھ مسکین کے لئے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔

میرا نام لئے بغیر ایک ’’سینئر اور قابل احترام‘‘ صحافی کے لکھے اس کالم کا ذکر کیا جو خاکسار نے یوسف رضا گیلانی کے سینٹ کارکن منتخب ہوجانے کے بعد لکھا تھا۔مذکورہ کالم میں ’’فخر امام-ٹو‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی تھی۔ موصوف کی دانست میں یہ اصطلاح دور کی کوڑی لانے کے مترادف تھی۔کیوں اور کیسے؟ اس سوال کا جواب میں غوری صاحب کا کالم دوبار پڑھنے کے باوجود سمجھ نہیں پایا۔ غالباََ بڑھاپے نے ذہن کو مزید دھند زدہ بنادیا ہے۔

’’فخر امام-ٹو‘‘ کی اصطلاح میں نے ایک خاص تناظر میں استعمال کی تھی۔ جولائی 1977سے 1985کے غیر جماعتی انتخابات تک پہنچتے ہوئے جنرل ضیاء وطن عزیز میں ’’کن فیکون‘‘ جیسے اختیارات کے حامل تصور ہوتے تھے۔ انہوں نے طے کررکھا تھا کہ ان کی خواہش کے مطابق بحال ہوئی قومی اسمبلی کے سپیکر خواجہ صفدر ہوں گے۔ سیالکوٹ سے اُبھرے مذکورہ سیاست دان کو انہوں نے کئی برسوں تک اپنی نامزد کردہ ’’مجلس شوریٰ‘‘ کا چیئرمین بنارکھا تھا۔

وہ ان کے کردار سے مطمئن تھے اور اس امر کے خواہاں کہ نو منتخب اسمبلی کو بھی وہ ان کی خواہشات کے مطابق چلائیں۔ 1985کے انتخابات کے دوران دن رات کی مشقت سے منتخب ہونے والے کئی اراکین اسمبلی کی مگر خواہش تھی کہ عوام کو یہ باور کرائیں کہ وہ ’’خودمختار‘‘ ہیں۔جنرل ضیاء کے حکم کے غلام نہیں۔

اس سوچ کی بدولت خواجہ صفدر مرحوم کو شکست سے دو چار کرنے کی خواہش اُبھری۔ خواجہ صفدر مرحوم کے 1960کی دہائی سے مقامی سیاست کے تناظر میں نمایاں ترین حریف تصور ہوتے چودھری انور عزیز نے اس خواہش کو عملی صورت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔سیاسی مبصرین کی اکثریت کا اصرار تھا کہ جنرل ضیاء کے نامزد کردہ سپیکر کو شکست دینا ناممکن ہے۔فخر امام نے خواجہ صاحب کو شکست دیتے ہوئے ان سب کو حیران کردیا۔3مارچ 2021کے دن یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست میری دانست میں ویسا ہی ایک واقعہ تھی۔اسی باعث میں نے اسے ’’فخر امام-ٹو‘‘‘ پکارنے کی جسارت کی۔

مذکورہ اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی مجھے یہ گماں نہیں تھا کہ خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخر امام کا انتخاب انقلاب فرانس جیسا تاریخ ساز واقعہ تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی بھی اس تناظر میں محض حیران کن ہے۔یہ دو واقعات اگرچہ یہ پیغا م دیتے ہیں کہ نام نہاد ’’غیرمرئی قوتیں‘‘ سیاسی منظر نامے کو ڈرامے کے لئے لکھے سکرپٹ کی طرح Set یا مرتب نہیں کرسکتیں۔ خفیہ انتخاب کے دوران حیرتوں کے امکانات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔وہ نمایاں ہوجائیں تو ان کے اسباب تلاش کرنا ہوتے ہیں۔میں نے بھی طالب علم کی لگن کے ساتھ انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ آج بھی بضد ہوں کہ گیلانی صاحب کا انتخاب ’’کرپشن سے کمائی‘‘ دولت کے بے دریغ استعمال کی بدولت نہیں ہوا۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی نشستوں پر بیٹھے بے تحاشہ اراکین ان دنوں بہت پریشان ہیں۔مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافے کی وجہ سے وہ ’’اپنے حلقوں‘‘ میں جاتے ہوئے کتراتے ہیں۔اکثر اضلاع میں مقامی انتظامیہ ان کے فون سننے کو بھی تیار نہیں ہوتی۔ترقیاتی کاموں میں تیزی لانے کے لئے قومی خزانہ کے کلید بردار-ڈاکٹر حفیظ شیخ- ان سے ہاتھ ملانابھی گوارہ نہیں کرتے۔ ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ’’ٹیکنوکریٹ‘‘‘ ہیں۔نہایت رعونت سے مصر رہتے ہیں کہ ’’قیمے والے نان‘‘ کھلاکر قومی اسمبلی میں در آئے سیاست دانوں کو علم معاشیات کی مبادیات تک کا علم نہیں۔وہ معیشت کے Macroاور Microپہلوئوں کی بابت سرسری علم بھی نہیں رکھتے۔ایسے لوگوں سے گپ شپ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔

ایک زیرک اور کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ کے رویے کے خلاف اُبلتے غصے کو ذہانت سے استعمال کیا اورسینٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔عمران خان صاحب اور ان کے جذباتی حامی مگر اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ سیاست ایک گندا دھندہ ہے۔ یہاں ضمیر بکتے ہیں۔

پاکستان کو 1992میں کرکٹ کا ورلڈ کپ دلوانے والا کپتان ایک نیک طینت شخص ہے۔اپنی شہرت کو اس نے لاہور میں کینسر کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال تعمیر کرنے کے لئے استعمال کیا۔ کئی دہائیوں سے ’’گندی سیاست‘‘ کی اسیر ہوئی قوم نے بالآخر ان سے فریاد کی کہ وہ اپنی معجزہ ساز شخصیت پاکستان کو صاف ستھری سیاست سے متعارف کروانے کے لئے بھی استعمال کریں۔

پرویز خٹک اور جہانگیر ترین جیسے تجربہ کار مگر نیک نام سیاست دانوں کی بھرپور معاونت سے انہوں نے انتخابی سیاست کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی راہ دریافت کرلی۔ اگست 2018سے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے تاہم قومی دولت کو لوٹنے والے انہیں اس منصب پر ٹکنے نہیں دے رہے۔ پی ڈی ایم نامی اتحاد میں جمع ہوگئے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مبنی یہ اتحاد جب عوامی پذیرائی کے حصول میں ناکام رہا تو افتخار چودھری کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں ’’توہین عدالت‘‘ کے الزام میں فارغ ہوئے ایک سابق وزیر اعظم کو ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے ذہین وفطین ماہر معیشت کے مقابلے میں کھڑا کردیا۔ تحریک انصاف کی صفوں میں سے ’’بکائو‘‘ لوگوں کو ’’خرید‘‘ کر گیلانی کو منتخب کروالیا گیا۔

ارادے اب یہ باندھے جارہے ہیں کہ موصوف کو سینٹ کا چیئرمین بھی منتخب کروالیا جائے۔ایوان بالا کو جبکہ گزشتہ تین برسوں سے بلوچستان سے اُبھرے صادق سنجرانی احسن انداز میں چلارہے تھے۔ سنجرانی صاحب کو وفاق کی سطح پر جو شہرت اور نیک نامی نصیب ہوئی ہے اس نے بلوچستان کے ’’احساس محرومی‘‘ کے ازالے کا بندوبست بھی کردیا۔اس صوبے میں متحرک ’’علیحدگی پسند‘‘ اب منہ چھپاتے پھررہے ہیں۔بلوچ نوجوانوں کو پیغام ملا ہے کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ پاکستان سے محبت کریں۔وہ صاف ستھری سیاست میں دل وجان سے حصہ لیں تو ایک دن سنجرانی صاحب جیسا مقام و مرتبہ بھی حاصل کرلیں گے۔

عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو دُکھ یہ لاحق ہے کہ ’’سازشی اور بدعنوان ‘‘ سیاستدان یوسف رضا گیلانی جیسے ’’کرپٹ ترین شخص‘‘کو سنجرانی صاحب جیسے محب وطن کے مقابلے میں سینٹ کا چیئرمین بنواتے ہوئے ’’غداری‘‘ کے مرتکب ہورہے ہیں۔

مزید بدقسمتی یہ ہوگئی کہ سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر حال ہی میں ہوئے انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی ایوان بالا میں اکثریت کمزور ہوجانے کے باوجود برقرار رہی۔بندوں کو تولنے کے بجائے محض گنا جائے تو گیلانی صاحب بآسانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوسکتے ہیں۔

ایک ’’نظریاتی مملکت‘‘ میں لیکن مغرب کی متعارف کردہ جمہوری روایات سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔اسی باعث اب کاوش یہ ہورہی ہے کہ ایک ویڈیو کو بنیاد بناتے ہوئے گیلانی صاحب کو سینٹ کے رکن کا حلف اٹھانے سے روکا جائے۔

آئین اور قانون میں موجود دشواریاں اگر اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو کم از کم ان کا حلف اٹھانے کا دن مؤخر کرنے کے راستے تو نکالے جاسکتے ہیں۔یوں ہوجائے تو12مارچ کے دن وہ سینٹ چیئرمین کے عہدے کا انتخاب نہیں لڑپائیں گے۔پی ڈی ایم ان کا متبادل تلاش کرنے میں تقسیم ہوسکتی ہے۔متبادل مل بھی گیا تو اس کے لئے انتخابی مہم چلانے کے مناسب وقت میسر نہیں ہوگا۔سنجرانی صاحب کے لئے گلیاں سنجیاں ہوجائیں گی۔

مشکلات کا جی داری سے تن تنہا مقابلہ کرنے والے ’’کپتان‘‘ کو ان کے حامی اپنی سیاسی زندگی کے ایک اور امتحان کا سامنا کرتے نظر آرہے ہیں۔ مجھ جیسے قلم فروش ’’لفافے‘‘ مگر اس امتحان کے ’’اخلاقی پہلو‘‘ کو ابھی تک نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔

ربّ کا صد شکر کہ سوشل میڈیا ایجاد ہوچکا ہے۔وطن عزیز میں صاف ستھری سیاست کے خواہاں حق گو افراد اس پر عمران خان صاحب کی حمایت میں ایک ٹرینڈ چلائیں گے اور بالآخر صادق سنجرانی کامیاب وکامران ہوجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments