عورت آزادی مارچ اور خواتین کے حقوق


اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے خواتین کو 14 سو سال پہلے حقوق دیے، عزت، تحفظ، مقام، رتبہ، اہمیت اور ساتھ ساتھ حق و ملکیت وراثت سے حصہ بھی دینے کا حکم دیا۔ دور جاہلیت میں بچی پیدا ہونے پر زندہ دفنایا جاتا تھا۔ مگر اسی عورت کو جو مرتبہ ملا تاریخ اس پر رشک کرتی ہے۔ ماں جس کا نام لیتے ہی دل کو سکون مل جاتا ہے۔ اللہ پاک نے ماں کے قدموں میں جنت رکھی ہے۔ بیٹی جو اللہ تعالٰی کی رحمت ہے، بیٹی والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں۔

بیوی گھر کی ملکہ بادشاہ ہوتی ہے۔ بہن کا رشتہ عظیم رشتہ ہوتا ہے جو بھائیوں کے لئے وفا کی علامت کہلاتی ہیں۔ عورت ہر روپ میں زندگی کا خوبصورت منظر ہوا کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی، جہالت اور فرسودہ نظام رسومات کی بناء پر کہیں کہیں خواتین پر تشدد و قتل کے واقعات ہو جاتے ہیں ظلم۔ ملکیت سے حصہ اور وراثت نہ دینے کی وجہ سے کاروکاری کے الزام میں خواتین کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو حقوق بھی دیا اور تحفظ بھی دیا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں خواتین کو وراثت کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔

جب تک عورت کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا، تب تک خواتین معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط نہیں بن سکتی ہیں نہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہر سال 8 مارچ کو یوم خواتین کے حقوق کے نام پر ملک کے بڑے شہروں اسلام آباد، لاہور کراچی اور دیگر شہروں میں پڑھی لکھی، برگر فیملیز کی خواتین جس طرح بے ہودہ نعروں پر مبنی بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں ، اس سے مشرقی عوام کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

بیرونی ممالک کی فنڈنگ اور ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے دیسی لبرل مرد اور خواتین اصل مسائل سے ہٹ جاتے ہیں۔ جن خواتین پر ظلم جبر ہوتا ہے، جو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور جنہیں وراثت کا حق نہیں ملتا، ان کا ایشو دب جاتا ہے۔ اور یہ سب ڈرامہ وہ خواتین کرتی ہیں، جن کو مردوں سے بھی زیادہ حقوق مل چکے ہوتے ہیں۔ گھومنے پھرنے کی آزادی، آنے جانے کی آزادی، یہاں تک اپنی مرضی سے غیر ضروری زندگی گزارنے کی آزادی بھی شامل ہوتی ہے۔ شہروں کی نسبت دیہاتوں کی خواتین مظلوم ہیں، جن پر سب سے زیادہ تشدد ہوتا ہے اور پھر بھی وہ خاموش رہتی ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ خود لڑتی ہیں۔

اگر جائزہ لیا جائے تو مغربی ممالک کے مقابلے میں مشرقی معاشرے میں آج بھی عورت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ مغربی عورت مشرقی عورت کے مقابلے میں بے بس لاچار نظر آتی ہے۔ ظاہری طور پر تو وہ خوشحال دکھتی ہے مگر وہ اندر سے چکنا چور ہوتی ہے۔ اتنی بے بس ہے کہ اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مشرقی عورت کے مقابلے میں مغربی عورت ٹھوکر کھا کھا کر اب سیدھے راستے پر چلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں اس کے الٹ مغرب سے متاثر ایک طبقہ بضد ہے۔ قصور ان کا نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ سمیت دیگر یورپی مغربی ممالک کا ہے جو این جی اوز اور بالخصوص پاکستان میں قائم سفارتخانوں میں ہمارے لوگوں کو بلا کر ان کو ڈالر، یورو اور پاؤنڈ دے کر ان کو مشن سونپ دیتے ہیں کہ آپ اس محاذ پر لڑیں اور حقوق نسواں کے نام پر کبھی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر تو کبھی میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے کی ڈیوٹی دے دیتے ہیں۔

پاکستان مہذب ملک ہے، ہمارے ملک یا اس سے بھی آگے پاک و ہند کی تہذیب و ثقافت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، یہاں عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عورت مرد ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ عورت مرد کے بغیر کچھ نہیں، جبکہ مرد بھی عورت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ سامراجی قوتیں کتنی چالاک ، مکار اور فریبی دھوکے باز ہیں کہ ہمارے خاندانی سسٹم کو توڑ کر ہماری نسلوں کو برباد کرنا چا رہی ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے، اس مرتبہ بھی اسلام آباد، لاہور، کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں یوم خواتین کا دن منایا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں، تقریبات منعقد ہوئی۔ لیکن کسی بھی تقریب میں خواتین کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دلائی خاص طور پر خواتین کو وراثت میں حصہ دینے، خواتین کو مفت دینی اور دنیوی تعلیم دینے کے ساتھ ان کی معاشی ترقی کے حوالے سے کوئی بھی پلان پیش نہیں کیا گیا۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق جو اسلام اور ہمارے ملک کے قانون آئین نے دیے ہیں، وہ ہم نہیں دے رہے۔ مگر اتنا بھی نہیں کہ ہم خواتین پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ ہم تو آج بھی اپنے گھروں میں اور باہر خواتین کو ماں، بہن، بیٹی جیسے القاب سے نوازتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی خاتون کی عزت، حرمت پر اس کا وارث شوہر، والد ، بھائی اور بیٹا جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

کیا ہمارے معاشرے سے زیادہ مغربی ممالک کی خواتین خوش ہیں؟ کیا یورپی خواتین کی وہاں وہ عزت وہ مقام ہے جو ہمارے معاشرے میں خواتین کو دیا جا رہا ہے۔ خدارا اس طرح کے پروپیگنڈے سے اجتناب کریں، یہ سلسلہ بہت خطرناک ہے ۔ اس کا مقصد خواتین کی آزادی نہیں بلکہ خواتین تک پہنچنے کی آزادی ہے۔ پاکستان کی نسبت مغربی ممالک میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سمیت دیگر مغربی ممالک میں عام خواتین کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی رکن عورت تک کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں کی خواتین مسائل کا شکار ضرور ہیں مگر یہ نہیں کہ وہ مرد سے نفرت کریں اور اس حد تک جائیں کہ وہ الگ ہی دنیا تلاش کرنے لگیں ، یہاں بھی معاشرتی مسائل کی وجہ سے خواتین پر تشدد ہوتا ہے۔ ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، غرض یہاں بھی خواتین کئی مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

پاک و ہند کی عورت عزت چاہتی ہے۔ اچھی تعلیم، تربیت اور بالغ ہونے پر گھر بسانا چاہتی ہے۔ یہاں کی خواتین بچے پیدا کر کے ان کی پرورش کرنا چاہتی ہیں، ساتھ ساتھ شوہر کی خدمت کو اپنے فرائض میں شامل کرتی ہیں۔ عورت کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے۔ عورت کے نام پر عریانی، فحاشی، آوارہ گردی نہیں ہونی چاہیے بلکہ عورت کو وہ تمام حقوق دیے جائیں جو اسلام دیتا ہے۔

سب سے بڑھ کر خواتین کو ان کے والد کی ملکیت سے وراثت دی جائے۔ جب وراثت مل جائے گی خاتون خود بخود طاقتور بن جائے گی اور اپنی مدد آپ کے تحت تمام مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ عورت مجبور تب ہوتی ہے جب اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جب معاشی طور پر مطمئن ہو گی تو وہ اپنی عزت کردار پر کبھی بھی سودا نہیں کرے گی۔ عورت کی ضرورت ہے کہ اس کے تمام حقوق ادا کیے جائیں۔ ساتھ ساتھ وارثت کا حق اسے سب سے پہلے دیا جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو امید ہے کہ آج کی خواتین کل کی طاقتور خواتین ثابت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments