جنسی استحصال: جو وہ کرتا ہے، وہی تو کہتا ہے



تقدس اپنے معنوں میں بھی بہت محترم سا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے اعتراض صرف یہ ہے کہ تقدس اس قدر بھی بڑھنا نہیں چاہیے کہ صحیح اور غلط کی تکرار نہ ہونے کے برابر ٹھہرے۔ جب رشتوں کا تقدس انسانوں کو تکلیف دینا ہو جائے، تب تقدس سے بڑھ کر کوئی توہین نہیں۔ جہاں یہ سکوں دیتا ہے وہاں یہ اذیت بھی بہم پہنچاتا ہے۔ رشتوں کو تقدس کی جو چادر اوڑھا دی گئی ہے اس کے اندر بہت سی بے توقیری جھلکتی ہے جو صدا پنہاں ہی رہتی ہے۔ جہاں کوئی ستم کی ماری چادر ہٹانے کی جرات کرے، اس کو ناگن گردانتے کر سر وہیں کچل دیا جاتا ہے۔

جب ایسے معاملات روا رکھے جائیں، تب ہی تکرار کی ابتدا ہوتی ہے وہیں پر سوچ اور نئے علوم متعارف کرائے جاتے ہیں۔ تقدس کی دیو مالائی حرمت کہیں اسی بات کا شاخسانہ تو نہیں کہ ستم گر اپنے مطلب اخذ کرتے رہیں اور کوئی سوال اٹھانے والا نہ ہو؟ مظالم کی بہت سی اقسام ہیں، ہر ظلم اپنے اندر اور باہر شدت رکھتا ہے۔ تاریخ علوم، مذاہب، فلسفے اور سماج مظالم کی بیخ کنی پر اپنی بنیادیں استوار کرتے آئے ہیں۔ مگر کچھ مظالم چھپانے میں ہی تاریخی حقائق نے عافیت جانی ہے، جس میں جنسی تشدد سرفہرست ہے۔ بہت سوں کے قریب کوئی بھی عمل جو دکھتا نہیں، وہ ظلم کیسے ہو سکتا تھا۔

اس کی وجہ بھی یہی سمجھی گئی ہے کہ جنہوں نے انسانی تہذیب کے تاریخی نظام مرتب کیے ، ان کی عافیت ان مظالم کو چھپانے میں تھی۔ جنسی تشدد بالخصوص ایسا منافع تھا جو حاکمیت کے کاروبار میں بنایا گیا۔ منافع تو کوئی بھی جانے نہیں دیتا، جبکہ منافع کی یہ قسم کاروبار میں بڑھاو اور مندی دونوں میں ہمہ وقت ملتا رہا۔

ہم نے ابتدا سے رحم اور معاف کرنے کے سبق پڑھے ہیں۔ اس جیسے دیگر اسباق پڑھے اور سوچوں میں ثبت کیے ۔ بہت سی ظلم و ستم کی اقسام پڑھی۔ جھوٹ، غیبت، اسراف، بخل، سود، بددیانتی، قتل جیسے گناہوں کی سرزنش دیکھی اور سمجھی۔ ہم نے کبھی جنسی تشدد کا پڑھا نہ ہی بتلایا گیا۔ اس میں جدید دور کا کوئی ہاتھ نہیں ہے کہ اب اس بارے گفتگو ہو سکتی ہے۔ تکلیف اور ظلم پرانے وقت میں بھی ایک ہی درجے کی تکلیف اور ظلم کی سنگینی رکھتے تھے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خاص تکالیف جو پڑھائی اور سمجھائی گئی ہوں، درد دے سکتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری ماؤں کو بھی اس چیز کا ادراک نہیں؟ کیونکہ ان کو اس بارے سمجھایا گیا نہ بتلایا گیا۔

یہ بات تو سب کے علم میں ہوگی کہ ہم غصے میں وہی کچھ کہتے ہیں جو ہمارے دل میں ہوتا ہے۔ اس بات کا ادراک ہونا بھی لازم ہے کہ ہم گالی بھی وہی دیتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ کیا آج تک مریخ پر بازار حسن کی مذمت کی گئی ہے؟ کیونکہ مریخ پر کوئی بازار حسن نہیں ہے۔

برکت مارکیٹ لاہور کے نیشنل بینک کی طویل قطار میں دوسرے نمبر پر کھڑے ایک معزز رکن معاشرت نے کھینچ کے آگے والے کو بھانجی کی گالی دی۔ بے فکری اور طمانیت سے گالی دینے کے بعد صاحب کم ظرف اور خاصے بے شرم حضرت اس بابت سراپا احتجاج تھے کہ ان سے آگے کھڑا شخص دیر کر رہا تھا۔ خیر، بھانجی سے زیادتی کرنے کی گالی دے کر صاحب کی باری آئی اور وہ اپنی باعزت روزگار زندگی میں نکل لئے۔

کیا آپ کو معلوم ہے، لوگ بھانجی اور بہن کی گالی کیوں دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ عمل معاشرے میں موجود ہیں جب ہی گالیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

صدیوں سے ان قریبی رشتوں یا یوں کہیے کہ آسان اہداف سے جنسی ہوس کی تکمیل آسان رہی ہے جو آج بھی اتنا ہی آساں ہے۔ جیسے ہم عورتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بیچ کون سی عورت زندگی کے کس دوراہے پر جنسی تشدد اور استحصال کا نشانہ بنی ہے یا کون اپنے گھر میں شادی کے بعد ناخوش ہے، ویسے ہی مجھے یقیں ہے مردوں کو اپنے قریبی مرد ساتھیوں کے ہاتھ اور پیر سے کمائے گئے جرائم کا ادراک ہوتا ہے۔ کسی کو نہ بھی ہو تو سب جانتے ضرور ہیں کہ کیسے لوگ اپنے گھر اور خاندان کی بچیوں، بچوں اور خواتین پر ہاتھ صاف کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ ہزلیات کی ابتدا بھی ایسے ہی جڑ پکڑتی ہے۔ متواتر ایسے امور کا ہونا، روزمرہ زباں کی ہزلیات میں جگہ بناتا ہے۔ اگر لوگ بہن اور بھانجی کے ساتھ زیادتی نہ کرتے ہوں تو کیسے یہ عمل گالی میں آ گئے؟

کوئی عورت یا مرد اپنے باپ کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے، جب ہی اس پر گوئی گالی موجود نہیں۔ سالوں پہلے تک علما سے منسلک مردوں کے حوالے سے جنسی نوعیت کے لطائف موجود تھے، ان لطائف کی حقیقت اب بے گورو کفن سامنے آ چکی ہے۔ کم عمر بچوں کے ریپ پر مبنی لطائف ہم عورتوں نے نہیں، بلکہ سچ کو قریب سے جاننے والوں کے مرتب کردہ ہیں۔ اب یہ بھید قبر پھاڑ کر باہر بکھرا پڑا ہے کہ بچوں کے ساتھ مدرسوں، چوراہوں اور ٹرک اڈوں اور گھروں میں ریپ ہوتا ہے۔

خدا کا شکر کریں کہ عورتیں ابھی صرف احتجاج اور مارچ کر رہی ہیں، کم از کم بے اعتنائی سے لطائف نہیں تخلیق کر رہی۔

تعلیم کے منطقی سال کی تحقیق کے نتائج (جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکثریت ریپ قریبی رشتے دار کرتے ہیں ) سامنے لا کر بات کرنا شروع کی تو دنیا جہاں کے عورت دشمن لوگوں کی لعنت طعن اور دشنام سہنے کو ملے۔ یہ بات بہن اور بھانجی کی فراوانی سے گالیاں دینے والے سمجھنے کو تیار نہیں کہ خون ان کے لبوں اور ہاتھوں پر جما ہے۔ کہنے والوں کی عقل یہاں تلک تھم جاتی ہے کہ اس قدر ”حرمت“ والے محرم اور مقدس رشتوں کی ساکھ کو خاص سازشی مقصد سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ جبکہ اس ملک کی ایف آئی آرز انہی نام کے مقدس رشتوں کی زیادتی اور جبر جنسی کی گھناونی وارداتوں سے بھری پڑی دیمک کی خوراک بن رہی ہیں۔

دفتر میں کام کرنے والی عورت باس پر ”شہرت“ کے لئے جھوٹا الزام لگا سکتی ہے، کیا سات سال کی بیٹیاں اور کم سن بھانجیاں، بھتیجیاں اور سگی بہنیں بھی پھٹے لباس اور لہو بہاتی رانوں کے ساتھ شہرت کے لئے الزام لگاتی ہیں؟ جہاں تک نکتہ شہرت اور عزت کا رہا وہ بھی الزام لگانے والی کو نہیں، مورد الزام کو ہی ملتی ہے جو منہ بولتا ثبوت ہے کہ جنسی استحصال کا منافع کس کو ملتا ہے۔

جب ایسے پرتشدد اعمال موجود ہوں تو یہ بحث کیوں کرتے ہیں کہ آپ کے معاشرے میں یہ سب نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے اور دیدہ دلیری کے ساتھ ہوتا ہے، اتنی اعتماد سے ہوتا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے مجرم ان کے گھروں میں ان کے سامنے آتے جاتے ہیں اور آج تک عزت کے مستحق بھی ہیں۔ شکر کریں ابھی تک ہم عورتیں مارچ کرتی ہیں، اپنی بقا کے لئے قانون ہاتھ میں نہیں لیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments