محبت کیجئے مگر سرعام نہیں


الحمدللہ جوان بچیوں کی ماں ہوں۔ اسکول کالج اور ہر ممکنہ تعلیمی سرگرمیوں سے بھی گزری ہوں اور اب اس دور میں اپنی بچیوں کو بھی اجازت دے رکھی ہے کہ جہاں جہاں انہیں اپنی صلاحیتیں منوانی ہیں وہاں بلاجھجک آگے بڑھیں۔

بلاشبہ میرے اور آج کی بچیوں کے تعلیمی اداروں میں کافی فرق آ گیا ہے۔ میں ایک اردو گرلز میڈیم سے پڑھی لڑکی تھی لیکن میری بیٹیاں مخلوط تعلیمی اداروں سے تعلیم کے مراحل پورے کرتے ہوئے یونیورسٹیز تک آئی ہیں۔

پچھلے دنوں لاہور یونیورسٹی میں دو محبت کرنے والے بچوں نے کھلے عام ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کیا پھر گلے ملے۔ ان کی اس حرکت پہ انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

مجھے یونیورسٹی کے اس اقدام پر بہت خوشی ہے۔ اس طرح کی آزادی تعلیمی اداروں میں اگر دے دی جائے تو آہستہ آہستہ سے محبت فحاشی کی طرف بڑھے گی۔

ہر چیز ہر جگہ ہر شخص ایک دائرے میں ہی قابل قبول ہے۔ ہم اپنے بچوں کو گھر سے باہر تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں۔ اخلاقی اقدار سیکھنے کے لئے بھیجتے ہیں۔ اس طرح کی آزادی اگر ان اداروں میں دے دی گئی تو گھروں میں رہنے والی ماؤں کی نیندیں حرام ہوجائیں گی کیونکہ یہ دوسرے بچے بچیوں کو شہ دینے کے مترادف ہے ہر گھر اتنا آزاد خیال نہی ہوتا کہ آزادانہ اپنے جذبات کا اظہار کرتا پھرے۔

اپنی اور اپنی بچیوں کے دور میں واضح فرق نظر آتا ہے وہیں مجھے خوشی ہوتی ہے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود میری بچیاں اپنے دائرے کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں۔

آج کل بچے یونیورسٹیز کے باہر بھی مختلف سرگرمیاں کرتے نظر آتے ہیں کبھی سینما کا پروگرام بن رہا ہے تو کبھی سالگرہ منائی جا رہی ہے کبھی پکنک تو جب سب کچھ یونیورسٹی سے باہر ہو سکتا ہے تو یہ اظہار محبت یونیورسٹی کے اندر کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ ان جامعات میں کچھ اصول لاگو ہوتے ہیں اور ان کی پاسداری کرنا ہر طالب علم پہ لاگو ہوتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جامعات میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جو کہ نہیں ہونا چاہیے یہاں بچے بچیاں سگریٹ چرس شیشہ تک پیتے ہیں۔ حدود سے تجاوز بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ سب چھپ کر کرنے کی کوشش ہوتی ہے پکڑے جانے پر یونیوررسٹی اسکول کالج ایسے بچوں کو نکال دیتا ہے۔

ان جامعات کے اصول کی پاسداری ہر ایک کو کرنا چاہیے اس طرح کی آزادی کو سختی سے ناپسند کرنا چاہیے تاکہ اسے یہیں روک دیا جائے۔

کئی لوگ اس اظہار محبت کی حمایت میں ان مدرسوں کی ویڈیوز دکھارہے ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو استاد مار رہے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہ آنی والی بات ہے کہ ان مدرسوں کے معصوم بچوں کے مسائل کو بالغ بچوں سے کیونکر جوڑا جا رہا ہے۔

کہیں یہ مثالیں دی جا رہی ہیں کہ میڈیا ہرسن تو گلے بھی لگتے ہیں اور کبھی چوم بھی لیتے ہیں یعنی اگر آپ اپنے آپ کو ماڈرن ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو سرعام گلے لگیں، چومنے سے بھی نا کترائیں۔ مطلب اپنے اسلامی اقدار اور قرآنی تعلیمات کو طاق پہ رکھ کر ایک ایسی آزادی مانگنے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں جہاں صرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔

محبت ایک فطری عمل ہے اسے کرنے پہ کوئی روک نہیں لیکن یوں اس طرح تعلیمی اداروں کی حدود میں اظہار ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments