سرخوشی (Ecstasy)


ہمیں علامہ اقبال سے اس وقت سے محبت ہے جب ہمیں نصابی کتابوں میں پہلی بار ان کی نظموں سے تعارف حاصل ہوا۔ دلچسپی بڑھی تو نصابی کتب کے سوا بھی انہیں پڑھنے لگے۔ معرفت کے باب وا ہوتے گئے۔ ان کی شاعری میں وہ سیرابی تھی کہ تشنگی کو اور سوا کرتی تھی۔ لذت تحریر سے مجبور ہو کر پورا کلام اقبال خریدنے کو جی چاہا اور ایک روز طارق روڈ چلے۔ لبرٹی چوک سے ذرا آگے، طارق سنٹر کے مقابل ایک کتاب گھر ہوتا تھا جہاں ہر طرح کی کتابیں مہیا تھیں۔

گھر سے تو صرف کلیات اقبال کا ارادہ لے کر چلے تھے مگر لذت شعر و ادب کا رسیا خوان نعمت پر ہو اور صرف ایک ڈش پر اکتفا کرے، کیسے ممکن تھا اس لئے فیض احمد فیض کی نسخہ ہائے وفا، مشتاق احمد یوسفی کی چراغ تلے اور احمد فراز کی جاناں جاناں بھی ٹوکری میں ڈالی اور کاؤنٹر پر چلے آئے۔ اور پھر، اس بے ادب اور دریدہ دہن سیلز مین نے علامہ اقبال کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے اور مانو ہمارے سر سے پاؤں تک کسی نے انگارے بھر دیے۔ ہمیں توقع نہیں تھی کہ علم و ادب کے مرکز پر کوئی جاہل اور بے ادب بھی ہو سکتا ہے۔ شاعر اور ادیب کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہوتے کہ ایک کی تعریف اور دوسرے پر تبرا کیا جائے۔ جلال سے تھراتے ہوئے ہم نے انگریزی میں کہا۔

?How dare you insult our national poet
You have not belittled him but downgraded yourself and your book house.

ہم نے انگریزی میں اس لئے کہا کہ علامہ اقبال غصے میں انگریزی بولتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو میں دشنام طرازی اور بدگوئی اچھی نہیں لگتی۔ (قول یوسفی اس کے برعکس ہے وہ کہتے ہیں گنتی، گالی اور گندا لطیفہ اپنی زبان میں ہی اچھے لگتے ہیں )۔

وقتاً فوقتاً کچھ سازشی عناصر دانستہ علامہ اقبال کی بلند قامت ہستی کو بونا کرنے کی ناکام سعی میں لگے رہتے ہیں۔ وہ ان کی بشری لغزشوں کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر ان کی اولین ناپختہ سوچ کا ذکر کر کے انہیں منافق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی یہ بد گوئی محبان اقبال کے دل سے ان کا مقام کم نہیں کر سکتی کیونکہ ہم کسی دیوتا سے نہیں بلکہ انسان سے الفت کے داعی ہیں اور محبت میں اگر خامی پہ نظر جمنے لگے تو وہ محبت ہی نہیں۔

کچھ علتیں تو تمام شاعروں میں مشترک ہوتی ہیں ، کیا فراز کیا جوش اور کیا فیض۔ رہی بات نظریات کی تو خیالات جامد نہیں ہوتے۔ ارتقا کے مراحل طے کرتے ہیں اور سیل زماں کے ساتھ مقام بدلتے ہیں۔ اقبال ایک خوش گو اور خوش فکر شاعر تھے۔ ہم ان کی شاعری میں رفعت تخیل، جدت ترکیب، رمزیت اور موسیقیت کے معتقد ہیں۔ انہیں حکیم الأمت اور مصور پاکستان مانتے ہیں اور کسی شاتم کے کلمات ہمیں اس سے مکرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔

قصہ مختصر ہم ساری کتابیں کاؤنٹر پر چھوڑ کر دکان سے باہر آ گئے۔ اس کے بعد جب کبھی طارق روڈ جانا ہوا، کپڑے جوتے جیولری، سب کچھ خریدا لیکن اس کتاب گھر کا رخ نہ کیا۔ پھر ایک روز اس دکان پر کتاب کی بجائے ستارہ اور فردوس کی لان کے سوٹ لٹکے دکھائی دیے۔ کتاب گھر ایک کپڑے کے بیوپاری نے خرید لیا تھا۔

واقعہ یہ ہے کہ اس دلدوز حادثے کے بعد ہم کسی بھی کتاب گھر نہ جا سکے۔ کتاب کا چسکا چٹکیاں لیتا تھا ، اس لئے ہم نے تمام احباب سے کہہ دیا کہ آئندہ ہمیں اگر کوئی تحفہ دینا ہو تو ہماری پسند کی کوئی کتاب دے دیجیے گا۔ دیوان غالب، امتل نے ہماری سالگرہ پر تحفے میں دیا۔ فراز کی جاناں جاناں چھوٹے بھائی نے امتحان پاس کرنے پر دی۔ کمرے کی بغل میں بنی 4 بائے 4  کی ننھی سی لائبریری کی واحد شیلف کتابوں سے بھرتی گئی۔

انہی دنوں ابن بطوطہ کی اماں رشتہ لے کر ہمارے ہاں آئیں۔ معاف کیجیے گا ان کا اصلی نام ابن بطوطہ نہیں، ہم نے انہیں یہ لقب دیا تھا کیونکہ وہ لگ بھگ ساری دنیا گھوم چکے تھے۔ ابن بطوطہ کا رشتہ آنے پر اماں ابا نہال اور پٹ سے ہامی بھر کے جھٹ سے منگنی کا اعلان کر دیا۔ ابن بطوطہ نے ان کو اس بات پر بھی رضامند کر لیا کہ ہم سے فون پر بات کر لیں۔ اس زمانے میں موبائل تو ہوتا نہیں تھا۔ دالان میں رکھے فون پر بات کرتے وقت بظاہر ہم اکیلے ہوتے تھے۔

مگر اچھی طرح جانتے تھے کہ کمرے کے کھلے دروازے کے ساتھ چوکی پر بیٹھی اماں کے کان ادھر ہی لگے ہیں۔ ابن بطوطہ نے پوچھا منگنی پر کیا تحفہ دیں۔ ہمیں کیا پسند ہے۔ ہم نے حسب معمول کتاب کی فرمائش کر ڈالی۔ وہ زور سے یوں ہنسے جوں کوئی لطیفہ سن لیا ہو پر ہماری طرف سے سکتے جیسی چپ سے گھبرا گئے۔ جلدی سے کہنے لگے ”آپ صرف اردو ادب پڑھتی ہیں، انگریزی نہیں؟“

”نہیں انگریزی بھی تھوڑا بہت پڑھ لیتے ہیں۔ سڈنی شیلڈن کی نئی کتاب آئی ہے“ ، Tell me your dreams ”، وہ دے دیجیے گا۔“

”اوہ آپ کلاسیک نہیں پڑھتیں؟ اگر آپ نے شیکسپیئر کو نہیں پڑھا تو سمجھو کچھ نہیں پڑھا“

ہم اپنی کم علمی پر شرمسار ہو گئے۔ سوچا چلو اب شیکسپیئر کو پڑھ لیتے ہیں لیکن کتاب کہاں سے آئے۔ ابن بطوطہ کی کزن ہم سے ملنے آئیں تو ان سے مدعا بیان کیا۔ پر وہ تو جیسے ہنستے ہنستے بے حال ہو گئیں۔ کہنے لگیں

”یہ اس دانشور نے تم سے کہا ہے۔ اس نے خود کبھی شیکسپیئر کو پڑھا ہے۔ شیکسپئر کو تو چھوڑو ، اس نے زندگی میں شاید ہی کوئی کتاب پڑھی ہو۔ وہ صرف فلموں کا شوقین ہے۔ اردو، ہندی، انگریزی۔ تم ایسا کرو اس سے کہنا میں نے Hamlet پڑھ لیا ہے اور میں آپ سے اس پر ڈسکس کرنا چاہتی ہوں“

ہم نے ہامی بھر لی مگر ایسا کیا نہیں۔

منگنی کے ہنگامے سے فارغ ہو کر تحفے کھولنے شروع کیے ۔ نیلے رنگ کے پیکٹ پر ان کا نام تھا ، اسے چپکے سے ایک طرف رکھ دیا۔ رات کو اپنے کمرے میں لے جا کر کھولا تو تہ بہ تہ اخبار کے کاغذوں کے اندر ایک قیمتی قلم اور سڈنی شیلڈن کی ”Tell me your dreams“ تھی۔ اخبار کی تہیں کھولیں تو اس میں گھروں اور کاروں کے اشتہارات تھے۔ ہماری بقراطی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہوں نے کتاب کے عنوان اور اشتہارات کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے ہم سے رائے مانگی ہے۔

دالان میں فون کی گھنٹی بجی ،اس وقت ان ہی کا فون ہو سکتا تھا۔ دوڑ کر اٹھایا اور ایک ہی سانس میں ان کی دریا دلی ہر تحسین کے ڈونگرے برسا دیے۔

”میں کچھ سمجھا نہیں“
”تجاہل عارفانہ نہ برتیں۔ آپ نے اخبار کے ٹکڑے یونہی تو نہیں لگائے تھے ناں۔“

بھئی میں نہیں جانتا تم کیا کہہ رہی ہو دراصل قلم کا ڈبہ رکھنے کے بعد اونچا نیچا ہو رہا تھا تو میں نے اخبار ٹھونس دیا شاید کلاسیفائیڈ پیج ہو گا ”

اور پھر ہم نے سوچ لیا آئندہ رائے کشید کرنے میں عجلت نہیں کریں گے۔

شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ دن رات بازار کے چکر لگتے تھے۔ مگر کتاب گھر کی طرف قدم بڑھتے بڑھتے رک جاتے، دل میں ایک آرزو اب بھی ترازو تھی۔ کلیات اقبال ہمارے توشہ خانے میں شامل نہیں تھی۔ آخر کار ہم نے ابن بطوطہ کو فون کر کے کہہ دیا کہ ہمیں رونمائی میں کلیات اقبال چاہیے۔

بری میں کیا زیور آیا ہے ، کتنے جوڑے چڑھائے ہیں ، ہمیں کسی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، ہمیں تو بس انتظار تھا شب زفاف کا۔

اوئی اللہ، کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھئے گا۔ ہمیں رونمائی میں کلیات اقبال ملنے کا اشتیاق تھا۔ بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی۔ ابن بطوطہ نے حسب وعدہ کتاب پیش کی۔ بہت عمدہ کاغذ پر بہت خوبصورت چھپائی اور حسین جلد، لطف دو آتشہ ہو گیا۔ بے حجابی سے خود ہی گھونگھٹ پیشانی تک اٹھا کر شکریہ کہہ بیٹھے۔ ابن بطوطہ ہنس دیے۔ کہنے لگے ”چلیں ہمارا یہ حق بھی آپ نے چھین لیا۔ ویسے اماں آپ کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں ، انہوں نے منہ دکھائی کے لئے جو سیٹ لیا تھا وہ رشنا کے لئے رکھ دیا ہے۔“

ہم کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ ایک جگہ رک کر ہم نے کہا ”کچھ سنائیں“
”جی ارشاد“
”کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

”اف!‘‘ انہوں نے جانے کیوں سر پکڑ لیا
”کوئی رومانوی شعر نہیں کہا انہوں نے“
”کیوں نہیں معراج سے پہلے عام عشق و محبت کی شاعری کی تھی جیسے

مجھے پھونکا ہے سوز قطرۂ اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

یا پھر

میرے باغ سخن کے لئے تو باد بہار
میرے بیتاب تخیل کو دیا تو نے قرار
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لئے بے تاب تھا

”یار یہ ذرا مشکل ہے۔ کوئی آسان رومانوی شعر ہو تو سناؤ“

جی اولین دور کی شاعری میں داغ کے انداز میں انہوں نے کہا تھا

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

کوئی داد نہ آئی بلکہ کہا گیا ”میرا مطلب ہے کوئی ایسا شعر نہیں جیسے
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں ”

انہوں نے سلسلہ فلم کا نغمہ باقاعدہ گنگنایا

”اس کے لئے تو پروین شاکر سے رجوع کرنا پڑے گا۔ ہمارا اشارہ ان کی نظم ایکسٹیسی کی طرف ہے مگر ہم وہ سنا نہیں سکتے“ ہم نے لاج سے کہا

”نو پرابلم۔ لیٹ می ایکسپلین یو“

اور ان کی آنکھوں میں خطرناک سی چمک دیکھ کر ہم نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments