پاکستانی معاشرہ اور سوشل میڈیا


ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ہونی بھی چاہیے کیوں کہ یہ 21 ویں صدی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے ۔ ہمارے رہنے، کھانے پینے کے طور طریقے سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے اور ان سب میں ایک بہت اہم بات یہ کہ ہم ایک عجیب دور میں ہیں۔ ایک ایسا دور جہاں ہمارے دو مختلف رویے ہوتے ہیں، ایک جو ہم سوشل میڈیا پر ظاہر کرتے ہیں اور دوسرا حقیقت میں جو ہم ہوتے ہیں۔

چند روز قبل میں نے ایک سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک جوڑے نے نجی یونیورسٹی میں نے کھلم عام اظہار محبت کیا اور ویڈیو وائرل ہو گئی اور ایک نئی بحث کا طوفان برپا ہو گیا۔ زیادہ تر لوگ اس حرکت پر تعلیمی نظام اور یونیورسٹی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور کچھ لوگ اسے جوڑے کا ذاتی مسئلہ کہہ رہے تھے۔

سوشل میڈیا کی اس بحث سے یونیورسٹی انتظامیہ حرکت میں آتی ہے اور چند ہی گھنٹوں اس جوڑے میں یونیورسٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکشن سامنے آ جاتا ہے اور ساتھ ہی جوڑے کی تصویر کے ساتھ داخلہ ممنوع والا نوٹس بھی آ جاتا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے۔

ہم ایک آزاد اسلامی ریاست میں رہتے ہیں۔ جو کچھ ہوا نجی یونیورسٹی میں بظاہر تو وہ ہماری تہذیب و تمدن کے خلاف تھا ،یہاں اس قسم کی حرکت ہرگز قابل قبول نہیں ، یہ کوئی مغربی معاشرہ نہیں ہے۔

یہ تو تھا سوشل میڈیا پر رویہ جو بہت ہی عمدہ ہے۔ آئیں اب چلتے ہیں حقیقت کی طرف۔ کہا جاتا ہے کہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ مگر یہاں تو صرف تنقید برائے کردارکشی ہو رہی ہے۔ جوڑے کی محبت کے اظہار کی ویڈیو وائرل ہوئی اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر جس طرح کردار کشی کی گئی کیا یہ سب مناسب رویہ تھا؟ تعلیمی نظام کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، انتظامیہ نے تو چند گھنٹوں میں جوڑے کو یونیورسٹی سے فارغ کر کے اپنے دامن کو صاف کر لیا مگر جو ہمارے تعلیمی اداروں میں پروفیسر حضرات اپنی بیٹیوں جیسی طالبات کو ہراساں کرتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ایسے ہی چند گھنٹوں میں ایکشن لیتی ہے جیسے اس جوڑے کے خلاف لیا گیا؟ اس جوڑے کے خلاف تو انتظامیہ نے ایک مثال بنا دی کیا ایسے پروفیسر حضرات کو باہر نکالنے کی کوئی مثال موجود ہے؟

پنجاب کمیشن برائے خواتین (پی سی ایس ڈبلیو) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2018 میں، 3860 خواتین نے اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد ہیلپ لائن کو کال کی۔ اسی طرح 5320 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

پی سی ایس ڈبلیو کے سینیئر قانونی مشیر عمران جاوید قریشی کا کہنا ہے کہ فون کرنے والوں میں اکثریت ایسی خواتین کی ہے جن کی شادی گزشتہ پانچ سالوں میں ہوئی تھی۔ ان کا بنیادی مسئلہ ان کے اور ان کے شوہروں کے مابین تفہیم کا فقدان ہے۔ زیادہ تر کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نشے کا عادی ہے یا وہ ان کے اخراجات برداشت نہیں کرتا ہے۔ زیادہ تر صلح چاہتے ہیں نہ کہ طلاق۔ وہ عدالت میں جانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مقدمات کئی سال تک زیر التوا رہیں گے۔

ایسی طرح فیڈرل اومبڈسمین فار پروٹیکشن آف ویمن (FOSPAH) نے سال 2018۔ 2019 میں ملازمت کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے 432  واقعات رپورٹ کیے ہیں۔

ایک طرف تو ہم سوشل میڈیا پر کردارکشی اور نظام کے خلاف بہت کچھ کہہ جاتے ہیں مگر حقیقت میں ہمارا رویہ کچھ اور ہے۔ چند برے مرد اور چند بری عورتوں کی وجہ سے سب کو برا کہنا یا تنقید کا نشانہ بنانا مناسب معاشرے کی پہچان نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے اگر ایک مرد دوسرے مرد کو کسی خاتون کو ہراساں کرتا دیکھے تو وہ اس مرد کو منع کرے ، اسے سمجھانے کی کوشش کرے۔ ہمیں تنقید برائے اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ اگر پھر بھی وہ باز نہیں آتا تو قانونی راستہ استعمال کریں تاکہ ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔

آخر میں کہنا چاہوں گا کہ اخلاقیات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہمیں کسی پر ناروا تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ کسی کے لئے محبت جیسے احساسات کا اظہار کرنا زندگی کا سب سے بڑا اقدام ہے۔ میں ان دونوں طلبہ کا احترام کرتا ہوں اور ان کے جذبات کا بھی احترام کرتا ہوں لیکن سوشل میڈیا کے لوگوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی نامناسب تھا، انہوں نے کردارکشی پر مبنی تبصرے کر کے اپنے دہرے رویوں کو آشکار کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments