شیطان از شفیق الرحمان


اگلے روز ہم سب ایک کلاسیکل رقص کے ماہر کا ناچ دیکھنے گئے۔ بڑا مشہور رقاص تھا۔ بے شمار لوگ آئے تھے۔ شروع میں کچھ گانا بجانا ہوا۔ پھر اس کا ناچ شروع ہوا۔ آرکسٹرا بجنے لگا۔ پہلے تو دیر تک وہ چپ کھڑا رہا۔ پھر اس نے یکلخت ہوا میں ایک چھلانگ لگائی اور عجیب سی حرکتیں شروع کردیں۔ ننھی حیران ہو گئی، ”بھیا یہ پتھر کا بت اب تو خوب ہل رہا ہے۔“ اب جو اس اللہ کے بندے نے ہاتھ پیر مارنے شروع کیے ہیں تو ننھی بالکل گھبرا گئی، ”بھیا یہ آدمی کیا کر رہا ہے؟“ حکومت آپا بولیں، ”ناچ رہا ہے۔“ ننھی نے پوچھا، ”اس طرح ناچا کرتے ہیں کیا؟“ حکومت آپا بولیں، ”چپ چاپ دیکھتی رہو، اسے کلاسیکل ناچ کہتے ہیں۔“ ننھی مچل گئی، ”نہیں تو! یہ آدمی تو کچھ اور تماشا کر رہا ہے۔“ شیطان بولے، ”ننھی! بات دراصل یہ ہے کہ اس نے علی الصبح فروٹ سالٹ پیا تھا اور اب اشتہاروں کے مطابق اسے فرحت بخش فروٹ سالٹ فیلنگ ہو رہی ہے۔“

شیطان نے سرخ چھینٹ کا انگرکھا پہن رکھا تھا۔ سب لوگ انہیں دیکھ رہے تھے۔ انٹرول ہوا تو میں اور شیطان باہر آ گئے۔ چھینٹ کا انگرکھا واقعی عجیب سی چیز تھی۔ جو دیکھتا تھا، ٹھہر جاتا تھا۔ چند حضرات نے تو سچ مچ ہنسنا شروع کر دیا۔ شیطان رک گئے۔ اور پیچھے مڑ کر بولے، ”حضرات آپ کی ہنسی سر آنکھوں پر۔ لیکن آپ براہ کرم جلدی سے ہنس لیجیے، کیونکہ مجھے ایک ضروری کام پر جانا ہے اور بغیر آپ کے شوق کی تکمیل کے میں یہاں سے نہیں جاسکتا۔“ وہ کچھ شرما سے گئے۔

”تو آپ ہنس چکے کیا؟“ شیطان نے پوچھا۔ وہ چپ رہے۔
”کیا بندہ جا سکتا ہے؟“ ان میں سے ایک نے سر ہلا دیا۔

ہم جب واپس آئے تو ابھی اچھا خاصا دن باقی تھا۔ باغ سے گزرتے ہوئے شیطان رک گئے، مالی کو بلایا اور مٹی کا ایک ڈھیر دکھا کر کہا، ”یہ ڈھیر یہاں نہیں ہونا چاہیے۔“

”جناب یہ بغیر کئی مزدوروں کے باہر نہیں پھینکا جا سکتا۔“
”واہ معمولی سا کام ہے۔ ایک بڑا سا گڑھا کھود لو اور اس میں یہ مٹی دبا دو۔“

بات مالی کی سمجھ میں آ گئی اور وہ کام میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر ہمارے پاس آیا اور بولا، ”جناب وہ مٹی تو بھر دی گئی ہے، لیکن جو نئے گڑھے کی مٹی ہے اس کا کیا کیا جائے؟“

”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ایک اور گڑھا کھود کر اس میں داب دو۔“ شیطان نے کہا۔ مالی پھر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد ہانپتا ہوا آیا اور پوچھا، ”وہ مٹی تو دبا دی گئی لیکن اب نئے گڑھے کی مٹی؟ وہ کہاں پھینکی جائے؟“

”ہمیں نہیں پتہ۔“ شیطان جھلا کر بولے، ”معمولی سی بات ہے، ایک اور گڑھا کھود لو۔“ اور مالی بیچارہ سر کھجاتا ہوا چلا گیا۔ اتنے میں جج صاحب تشریف لے آئے اور وہیں بیٹھ گئے۔ ہم کھیلوں کے متعلق باتیں کرنے لگے۔

”تمہیں کون سے کھیل پسند ہیں؟“ جج صاحب نے پوچھا۔
”کبڈی اور پولو۔“ شیطان نے جواب دیا۔
”کوئی خاص اچھے کھیل تو نہیں ہیں۔“ وہ بولے۔
”آپ کو کون سا کھیل مرغوب ہے؟“ شیطان نے پوچھا۔

”اسے کھیل تو نہیں کہا جاسکتا۔ مجھے گھڑ دوڑ بہت پسند ہے۔ جب میں یورپ میں تھا تو نہایت شوق سے گھڑ دوڑ دیکھا کرتا تھا۔“

”معاف کیجیے مجھے گھڑ دوڑ بالکل پسند نہیں۔“ شیطان بولے۔
”وہ کیوں؟“

”دیکھیے نا، یہ سب جانتے ہیں کہ کچھ گھوڑے کچھ گھوڑوں سے تیز دوڑتے ہیں۔ اور یہ بھی لازمی امر ہے کہ اگر بہت سے گھوڑے دوڑیں گے تو کچھ آگے نکل جائیں گے اور کچھ پیچھے رہ جائیں گے اور آخر میں یہ ایک گھوڑا سب سے آگے نکل جائے گا۔ بھلا یہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون سا گھوڑا آگے نکلتا ہے؟ یا تو یہ ہو کہ اپنا پالتو گھوڑا حصہ لے رہا ہو۔ یا کسی گھوڑے سے واقفیت ہو تو اسے دیکھنے آدمی چلا بھی جائے۔ ورنہ سب گھوڑے ایک جیسے ہیں۔“ جج صاحب سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر مسکرا کر بولے۔ لا حول و لا قوۃ۔ اور دفعتاً شیطان کمرے سے نکل گئے۔

مجھے اور شیطان کو ایک بہت بڑی دعوت پر بلایا گیا۔ بڑے مدبر قسم کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ جج صاحب اور بیگم صاحبہ وہاں نہیں تھے، چنانچہ ہمیں پوری آزادی مل گئی اور شیطان اتر آئے الٹی سیدھی حرکتوں پر۔ ایک خطرناک سے بزرگ ہماری طرف بہت بری طرح دیکھ رہے تھے۔ کچھ مولانا سے معلوم ہوتے تھے۔ نہ جانے کیوں اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں گھور رہے تھے۔ آخر جب ان سے رہا نہ گیا تو شیطان سے بولے، ”صاحب زادے! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم پورے آدھ گھنٹہ سے ان لڑکیوں کو گھور رہے ہو۔ یہ نہایت بری بات ہے۔“ شیطان نے جواب دیا، ”قبلہ گھورنا دو قسم کا ہوتا ہے۔ گھورنا بالتحقیق اور گھورنا بالتفریح۔ یہ خاکسار اس وقت اول الذکر کر رہا ہے، کیونکہ مجھے ابھی کسی نے بتایا ہے کہ ان خاتون کی ناک ترچھی ہے اور ایک آنکھ بڑی ہے ایک چھوٹی۔“

مولانا ابھی کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ شیطان نے جلدی سے ٹوکا، ”اور آپ ان کو کیوں نہیں منع کرتے ہو جو گھورنا بالتفریح کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ایسے یہاں بے شمار حضرات ہیں۔ مثال کے طور پر ان صاحب کو (اشارہ کر کے ) ہی لیجیے جو زیر مونچھ مسکرا رہے ہیں۔“

”زیر مونچھ مسکرا رہے ہیں؟“

”لوگ زیر لب مسکرایا کرتے ہیں، لیکن ان کی مونچھیں اس قدر گھنی اور خونخوار ہیں کہ ہم اس مسکراہٹ کو محض زیر مونچھ مسکراہٹ ہی کہہ سکتے ہی۔ غالباً ان صاحب کا نعرہ یہ ہوگا کہ۔ مونچھوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔“

بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور جا پہنچی کہاں۔ مولانا کھسیانے ہو کر کہنے لگے، ”خیر! کچھ بھی ہو، ہر حال میں انسان کو پرہیزگار ہونا چاہے۔“

”میں پرہیزگار ہوں۔“ شیطان بولے۔
”تم اور پرہیزگار؟ نعوذ باللہ!“

”جی نہیں، الحمد للہ مجھے فخر ہے کہ ماشاء اللہ میں پرہیزگار ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہوں گا۔ پرہیزگار وہ شخص ہے جو گڑ، کھٹائی، چکنی اور گرم چیزوں اور مرچ مسالے سے پرہیز کرے اور وہ میں کرتا ہوں۔“

اتنے میں چند مہمان آ گئے اور ہمارا تعارف ان سے کرایا گیا۔ وہ مولانا ادھر ادھر ہو گئے۔ جہاں چاروں طرف شوروغل مچا ہوا تھا، وہاں ایک صاحب کو دیکھا جو چپ چاپ بیٹھے تھے، جیسے مراقبے میں ہوں۔ شیطان نے ان سے باتیں شروع کردیں۔

”جناب اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟“
”فرمائیے!“
”آپ چپ کیوں ہیں؟“
”بس یونہی!“

”تو صاحب اگر آپ عقل مند ہیں تو بے وقوفی کر رہے ہیں اور اگر بیوقوف ہیں تو عقل مندی کر رہے ہیں۔“ اور وہ صاحب سوچنے بیٹھ گئے کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ ادھر ادھر ڈھونڈنے پر وہ مولانا ہمیں پھر مل گئے اور بدستور بڑے غیض و غضب سے ہمیں گھورنے لگے۔ شیطان چاہتے تھے کہ ان سے باتیں ہوں، لیکن کوئی بہانہ نہیں ملتا تھا۔ اتنے میں چند چھوٹے قد کی خواتین داخل ہوئیں، بالکل چھوٹی چھوٹی تھیں۔ شیطان جلدی سے بولے، ”دیکھیے قبلہ! یہ پینگوئن سیریز کی خواتین ہیں۔“ اور انہوں نے نہایت خطرناک انداز سے ہوں کی۔

اسی وقت ایک نہایت ہی دبلے صاحب ایک بہت زیادہ موٹے صاحب کے ساتھ داخل ہوئے۔ دونوں میں اس قدر فرق تھا کہ ایک دوسرے کو بری طرح نمایاں کر رہے تھے۔ شیطان بزرگ کے قریب سرک کر بولے، ”وہ دیکھیے جناب، ان میں سے ایک۔ استعمال سے پہلے۔ ہیں، اور دوسرے۔ استعمال کے بعد !“ بزرگ شاید سمجھ نہ سکے۔ شیطان نے وضاحت کی، ”آپ نے مقوی دواؤں کے اشتہار تو دیکھے ہوں گے۔ وہاں استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد کے فوٹو بھی ملاحظہ فرمائے ہوں گے۔ بالکل وہی چیز آپ دیکھ لیجیے۔“

دروازہ کھلا اور ایک نہایت ہی چھوٹے قد کے حضرت اور ایک بہت ہی دبلے لمبے حضرت داخل ہوئے۔ ان کے قد میں کوئی چار پانچ فٹ کا فرق ہوگا۔ مولانا جھلا کر بولے، ”ان پر تم نے کچھ نہیں کہا؟ کہہ دو ان کے متعلق بھی!“ شیطان بولے، ”اجی کیا خاک کہوں؟ سب دیکھ رہے ہیں کہ گلی ڈنڈا آ رہا ہے۔“

اتنے میں کھانا شروع ہو گیا۔ ہم دونوں جان بوجھ کر مولانا کے قریب بیٹھے۔ شاید انہیں مچھلی بہت مرغوب تھی، چنانچہ کئی مرتبہ مچھلی منگوائی۔ اب جو وہ مچھلی منگواتے ہیں تو ملازم ادھر ادھر کی چیزیں تو دے جاتا، لیکن مچھلی نہ لاتا۔ صاف ظاہر تھا کہ ختم ہو گئی ہے، لیکن ان کا اصرار یہی تھا کہ مچھلی لاؤ۔ بیچارہ ملازم صاف جو اب بھی نہیں دے سکتا تھا اور ہاں بھی کہہ جاتا۔ آخر ان سے نہ رہا گیا اور نعرہ لگایا، ”یہ کم بخت مچھلی کیوں نہیں لاتا؟ اور اب تو غائب ہی ہو گیا ہے، نہ جانے کہاں؟“

”مچھلیاں پکڑنے گیا ہے!“ شیطان بولے۔

باہر زور کی بارش شروع ہو چکی ہے، چنانچہ کھانے کے بعد یہ طے ہوا کہ بارش تھمنے کا انتظار کیا جائے اور اتنی دیر کافی کا دوسرا دور چلے۔ سب لوگ خاموش ہو گئے اور ایک بزرگ نے (جن کو ہر وقت ملول اور محزون باتیں کرنے پر فانی کہا جاتا تھا اور جو فوراً ہی صدر بنا دیے گئے تھے ) ایک صاحب سے کہا، ”جب تک بارش نہیں رکتی آپ بیتیاں بیان کی جائیں گی۔ پہلے آپ اپنی زندگی کا کوئی سچا غم ناک واقعہ سنائیے۔“ انہوں نے سنا دیا۔ ساتواں نمبر شیطان کا آیا۔ چونکہ پہلے نہایت ہی دردناک کہانیاں سنائی گئی تھیں اس لیے لوگ سہمے بیٹھے تھے۔ شیطان نے شروع کیا، ”خواتین و حضرات! یہ واقعہ میری حیات فانی میں سنگ میل کا کام دیتا ہے۔ اس نے میری فانی زندگی پر سب سے لا فانی اثر ڈالا!“ اور سب چپ ہو کر بڑی توجہ سے سننے لگے۔

”یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں گتگا کھیلا کرتا تھا۔ آپ لوگوں میں سے جن کو یہ پتہ ہے کہ گتکا ہوتا کیا ہے انہیں معلوم ہو کہ میں اب بھی اپنے کالج کا بہترین گتکے باز ہوں، لیکن ان دنوں خوب مہارت تھی۔ ایک دن ہم سب کالج کے برآمدے میں کھڑے تھے۔ موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم منتظر تھے کہ کب بارش ختم ہو اور باہر نکلیں۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک جگنو اڑا جا رہا ہے!“

”دن میں جگنو؟“ انہی مولانا نے پوچھا۔
”جی ہاں۔ یا پھر جگنو کی قسم کا کوئی اور پرندہ ہوگا۔“
”جگنو پرندہ ہے کیا؟“ مولانا نے پھر پوچھا۔

”اجی قبلہ! جو چیز اڑتی ہے وہ پروں سے اڑتی ہے، لہٰذا پرندہ ہے۔ ہاں تو سب لڑکوں کا جی للچایا کہ اسے پکڑیں، مگر بارش کی وجہ سے کسی کی ہمت نہ پڑی۔ آخر میں تیار ہوا۔ لڑکوں نے منع کیا کہ بھیگ جاؤ گے۔ میں نے ایک نہ سنی اور باہر نکل آیا۔ گتکے کا ماہر تھا۔ ایک بوند آئی۔ اسے گردن کی ایک جنبش سے بچا گیا۔ دوسری آئی اسے ایک طرف ہٹ کر بچایا۔ تیسری آئی۔ اسے کمر کی حرکت سے بچایا۔ غرض کہ اسی طرح بل کھاتا، طرح طرح کے پینترے بدلتا ہوا ایسی موسلادھار بارش میں جگنو کو صاف پکڑ لایا۔ اور جب واپس برآمدے میں پہنچا تو میرے لباس پر ایک بوند بھی نہیں تھی۔“

اب جو قہقہے لگے ہیں تو فضا کی سنجیدگی یکلخت ختم ہو گئی۔ صدر صاحب نے اٹھ کر فرمایا، ”روفی صاحب! ہم آپ سے ایک سنجیدہ واقعہ سننا چاہتے ہیں اور آپ کو دس منٹ دیتے ہیں۔ اتنے میں رنجوری صاحب اپنی رنجیدہ داستان سنائیں گے۔“ اتفاق سے یہ وہی صاحب تھے جو اتنی دیر سے گم سم بیٹھے تھے۔ بیچارے گھبرا گئے، سوچا کہ یہ کیا آفت آئی۔ بہتیرا پیچھا چھڑانا چاہا، لیکن وہاں کون سنتا تھا۔ آخر تنگ آ کر بولے، ”مجھے اپنا کوئی واقعہ تو یاد نہیں فقط ایک لطیفہ ذہن میں آ رہا ہے جو میں نے دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھا تھا۔ وہ یہ کہ ایک جگہ چار بیوقوف بیٹھے تھے۔ ایک نے پوچھا کہ اگر دریا میں آگ لگ جائے تو مچھلیاں کدھر جائیں گی؟ دوسرا بولا، درختوں پر چڑھ جائیں گی۔ تیسرے نے فوراً۔“

”اجی حضرت وہ تو تین تھے۔ یہ چوتھا بے وقوف آپ کہاں سے لے آئے؟“ ایک طرف سے آواز آئی۔
”چوتھے یہ خود تھے!“ شیطان بولے۔ اور لوگ چیخیں مار مار کر ہنسنے لگے۔

اب صدر صاحب نے شیطان سے درخواست کی کہ وہ ایک سنجیدہ واقعہ سنائیں۔ شیطان نے کہا، ”آج سے چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ یہی کمرہ تھا اور میں یہاں ذاکر صاحب (میزبان کے صاحب زادے ) کے ساتھ آیا تھا۔ کوئی رات کے دس بجے تھے۔ بالکل ایسی ہی بارش ہو رہی تھی۔ میں گھر نہ جا سکا اور اسی کمرے میں سونا پڑا۔ (اشارہ کر کے ) میرا بستر یہاں بچھا ہوا تھا۔ میں لیٹ گیا۔ سگریٹ ختم ہو چکا تھا، میں نے اسے بے خبری کے عالم میں ایک طرف پھینک دیا۔ پھر اچانک خیال آیا کہ نیچے قالین بچھا ہوا ہے جلتا سگریٹ پھینکا تھا۔ جھانک کر جو دیکھتا ہوں، تو پلنگ کے نیچے سے ایک سوکھا ہوا ہاتھ نکلا اور سگریٹ کو اٹھا کر پھر پلنگ کے نیچے غائب ہو گیا۔“ سب کے سب سہم گئے۔

”اور خواتین و حضرات! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہاتھ کسی زندہ شخص کا نہیں تھا۔ بالکل سوکھا ہوا اور مریل ہاتھ تھا۔ خیر! میں نے آیت الکرسی پڑھی۔ سوچا کہ شاید وہم ہوا ہوگا اور کچھ گنگنانے لگا۔ پھر خیال آیا کہ اب سو جانا چاہیے، چنانچہ میں نے یونہی کہہ دیا،“ ارے یہ بجلی جل رہی ہے اسے تو بجھانا بھول ہی گیا۔ یہ کہہ کر اٹھنے لگا تھا کہ ’ٹک‘ سے آواز آئی اور کسی نے بجلی بجھا دی۔ اب جو میں اس کمرے سے ہڑبڑا کر بھاگا ہوں تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا! ”

”پھر کیا ہوا؟“ ایک طرف سے آواز آئی۔

”پھر ہم نے اس مکان کا کونا کونا تلاش کیا۔ پلنگ کے نیچے بھی دیکھا، لیکن کچھ نہ ملا۔ سو یہ کمرہ آسیب زدہ ہے۔ اور۔ ارے! یہ مرغی کہاں سے آ گئی؟“ شیطان نے ایک تاریک گوشے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments