شیطان از شفیق الرحمان


اس میں ہارن کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی مشین کا آرکسٹرا آدھ میل سے سنائی دے جاتا ہے۔ لوگ ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں۔ چوک کا سپاہی کانوں میں انگلیاں دے کر آنکھیں میچ لیتا ہے اور جل تو جلال تو پڑھتا ہوا ایک طرف ہوجاتا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا لیتی ہیں۔ راہگیر سہم جاتے ہیں اور دیر تک سہمے رہتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں اس چیز کا وہ رعب ہے کہ بچوں کو اس سے ڈرایا جاتا ہے کہ شرارت کرو گے تو وہ موٹر آ جائے گی۔ ایک دن اس میں دودھ سے بھرا ہوا برتن رکھا تھا۔ جب تین چار میل جانے کے بعد اٹھایا گیا تو دودھ پر مکھن تیر رہا تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ پک نک پر جاتے وقت ہم جلدی میں آئس کریم نہ بنا سکے، البتہ آئس کریم کی مشین میں دودھ برف وغیرہ بھر کر مشین کار میں رکھ لی۔ جب وہاں پہنچے تو نہایت ہی اعلیٰ درجے کی آئس کریم تیار ہو چکی تھی۔ ”

اب جو معتبر ذرائع سے اطلاعات ملیں تو میں مست سے بے قابو ہو گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ رضیہ کو محض میرا خیال رہتا ہے۔ وہ کھنچی کھنچی ضرور لگتی ہے، لیکن اس کی وجہ حکومت آپا ہیں۔ میں سیدھا شیطان کے پاس گیا اور کہا کہ اب تو ہمیں یقین ہو جانا چاہیے۔ میری حالت ان دنوں عجیب سی تھی جو کچھ شیطان کہتے فوراً یقین کر بیٹھتا۔ پہلے تو انہوں نے حسب معمول رضیہ سے بیزار کرنے کی کوشش کی۔ اس کے خیال سے باز آ جانے کے لیے کہا۔ جب میں نہ مانا تو کہنے لگے کہ ”دنیا بہت وسیع ہے اور رضیہ کی نگاہ بھی کمزور ہے۔“ میں پھر بھی نہ مانا تو انہوں نے ایک عجیب اوٹ پٹانگ سی تجویز بتائی۔ کہ میں رضیہ کو باغ میں ملوں۔ واپسی میں اناروں کے جھنڈ کی طرف آؤں اور وہاں جو گڑھا ہے اس میں گر پڑوں اور بے ہوش ہو جاؤں۔ رضیہ ضرور سر دبائے گی۔ پھر غنودگی میں بڑبڑانے لگوں اور رضیہ سے اصل بات صاف صاف کہہ دوں۔ بس اس وقت جو جواب ملے گا وہ آخری ہوگا۔

میں ہچکچایا۔ شیطان کہنے لگے، ”یہ آخری آزمائش ہے۔ اس مرتبہ ضرور فیصلہ ہو جائے گا۔ اس لیے ہمت کر ہی ڈالو۔“ اور میں تیار ہو گیا۔ میں نے ننھی کو جاسوس بنایا کہ جونہی رضیہ باغ کی طرف جائے مجھے فوراً اشارہ کردے۔ اشارہ پاتے ہی میں بھاگا اور رضیہ کو باغ میں جا لیا۔ پہلے تو اپنے ڈرامے کے متعلق پوچھا۔ بولی، ”کچھ ایسا برا نہیں تھا۔“ پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ جب واپس آنے لگے تو میں اسے اناروں کے جھنڈ کی طرف لے گیا۔ اب وہ چھوٹا سا گڑھا آیا جہاں مجھے گرنا تھا۔ پگڈنڈی سے گڑھا دور تھا۔ اس لیے میں گھاس پر چلنے لگا اور یکلخت خواہ مخواہ ٹھوکر کھا کر گڑھے میں کچھ اس طرح گرا کہ سچ مچ چوٹ لگی۔ در اصل گرنے کی ریہرسل نہیں کی گئی تھی۔

رضیہ گھبرا گئی۔ اس نے مجھے ہوش میں لانے کی ترکیبیں کیں۔ بے چاری فوارے سے پانی بھی لائی۔ بھلا میں کہاں ہوش میں آنے لگا تھا۔ میں نے ہدایت نمبر تین کے مطابق سرگوشی میں کہا، ”رضیہ!“ اور آنکھ جھپکا کر اسے دیکھا بھی۔ پھر آہستہ سے کہا، ”رضیہ!“ اور وہ میرے پاس بیٹھ گئی۔ اب میرا سر دبایا جا رہا تھا۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا تھا، لیکن مارے ڈر کے برا حال تھا۔ پورے ایک منٹ کے وقفے کے بعد پھر کہا، ”رضیہ!“ اور رضیہ چپکے سے بولی، ”ہاں! ’

اور میں جیسے آسمانوں میں اڑنے لگا۔ اب اس نے میرا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔ فیصلہ کن جواب مل چکا تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ناچنے لگوں۔ رضیہ کی انگلیاں بالوں سے کھیلتی کھیلتی گردن تک پہنچیں اور جو بے تحاشا گدگدی ہوئی ہے تو سارے جتن کر ڈالے۔ ہونٹ چبائے، چٹکیاں لیں، بہتیرا ضبط کیا، لیکن وہ کم بخت، گدگدی قابو میں نہ آئی۔ اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اب جو رضیہ ناراض ہوئی ہے تو بس! چلتے ہوئے بولی، ”مجھے یقین تھا کہ ڈراما ہو رہا ہے۔ بھلا اس تماشے کی کیا ضرورت تھی۔“ اور میں نے سوچا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ گدگدی سب کو ہوتی ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ بس رنج تھا تو یہ کہ اب رضیہ کبھی مجھ سے بات نہ کرے گی۔ سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا۔

اگلی شام کو انتہائی اداسی میں شیطان کو سارا قصہ سنایا۔ وہ بولے، ”پہلے تو مجھے شبہ تھا، لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ رضیہ تمہیں پسند نہیں کرتی۔ اس میں رنجیدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اپنی اپنی پسند ہے۔ کوئی اچھا لگا کوئی نہ لگا! اور جب محبت کا جواب محبت میں نہ ملے تو وہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ایسے موقعوں پر آب و ہوا کی تبدیلی حیرت انگیز اثر رکھتی ہے۔ اب تمہیں یہاں رہ کر افسردگی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ بھئی تم یہاں سے روانہ ہوجاؤ اور سمجھ لو کہ رضیہ کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔“ میں اور بھی اداس ہو گیا۔ میں نے دھیمی آواز میں کہا، ”جہاں بھی جاؤں گا بہت ہی غمگین رہا کروں گا، کیونکہ مجھے رضیہ اچھی لگتی ہے۔ اسے ہرگز نہیں بھلا سکتا۔“ ہم اسی طرح کی باتیں کرتے رہے۔ آخر شیطان نے منوا کر چھوڑا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ میں چپکے سے چلا جاؤں، بغیر جج صاحب کو اطلاع دیے۔

”اور کالج کے سرٹیفکیٹ؟“ میں نے پوچھا۔

”وہ سب میں بھیج دوں گا۔“ شیطان نے وعدہ کیا۔ اور ذرا سی دیر میں میں سامان باندھ رہا تھا۔ شیطان میری مدد کر رہے تھے۔ اتنے میں حکومت آپا آ گئیں۔ پیچھے پیچھے ننھی تھی جسے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ میں نے جلدی سے صندوق بند کر دیے۔ میری اور شیطان کی یہی خواہش تھی کہ یہ کسی طرح یہاں سے چلی جائیں۔ شیطان بولے، ”ننھی! دیکھ تو سہی ساتھ کے کمرے میں جو کلاک ہے وہ چل رہا ہے یا نہیں؟“ ننھی نے واپس آ کر بتایا، ”کلاک چل تو نہیں رہا، کھڑا ہے۔ بس اپنی دم ہلا رہا ہے۔“ شیطان نے پھر پوچھا، ”تو گویا چل رہا ہے نا؟“

”چل کہاں رہا ہے؟ چل کس طرح سکتا ہے بیچارہ؟ میخوں سے تو گاڑ رکھا ہے۔ بس اپنی دم ہلا رہا ہے۔“ ننھی نے وضاحت کی۔ حکومت آپا ہنس دیں۔ شیطان چڑ گئے، ”یہ بڑی ہو کر ہو بہو حکومت بنے گی۔ شاباش ہے حکومت! کیا لا جواب ٹریننگ دی ہے اس بچی کو۔ ستیاناس کر دیا۔“ وہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ شیطان بولے، ”تمہیں چاہیے کہ اسے سارے سبق پڑھا کر ایک سرٹیفکیٹ دے دو۔ اس طرح۔ کہ میں نے پورے چار سال تک اس بچی کو اپنے ساتھ رکھا اور اسے اچھی طرح بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ اب میں بڑے فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ ایک گستاخ، چھچھوری، چٹوری اور ضدی لڑکی بن گئی ہے۔ لوگوں پر خواہ مخواہ فقرے کسنے میں تو اس نے مجھے بھی مات کر دیا ہے۔ ہر ایک سے چھیڑ، بزرگوں کا حکم نہ ماننا، اپنا وقت ضائع کرنا۔ ان میں یہ ایسی ماہر ہو گئی ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں بھی یہ جائے گی میرا نام روشن کرے گی۔ میری بدترین دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔“ اس پر حکومت آپا نے ایک تیز سا جواب دیا اور باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ننھی بولیں، ”بھیا! اب تو آپ حکومت آپا کو ڈانٹ لیتے ہیں۔ ذرا ان کی شادی ہو جانے دو، پھر دیکھیں گے انہیں کون دھمکاتا ہے۔“

”اچھا تو حکومت کی شادی بھی ہوگی؟ کون کہتا ہے؟“ شیطان نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب حکومت آپا ابل پڑیں، ”اور تمہاری بڑی ہوگی؟ دیکھ لینا جو کوئی لڑکی تمہارے نزدیک بھی کھڑی ہو جائے تو! خواہ مخواہ رضیہ کو بھی پریشان کر رکھا ہے اور (میری طرف اشارہ کر کے ) اس بے چارے کو بھی۔“

اس پر میرے کان کھڑے ہو گئے۔
”حکومت تم جاکر کوئی مفرح شربت پیو۔ تمہاری صحت!“
”مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ تم!“
”خاک تھا تمہیں پتہ۔“
”اچھا تو کہہ دوں سب کچھ، کہ تم نے بچارے کو!“
”تم اپنا وقت بھی ضائع کر رہی ہو اور دوسروں کا بھی۔“

اور شیطان اور حکومت آپا کی خوب لڑائی ہوئی۔ حکومت آپا نے سب کچھ بتا دیا۔ مجھے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ میں نے شیطان کو کالر سے پکڑ لیا اور پوچھا، ”کیا سچ مچ تم رضیہ کو میرے خلاف ورغلاتے رہے ہو؟“ وہ بولے، ”ہاں۔“

”ڈرامے میں تم نے ہی گڑبڑ کی تھی؟ اور خودکشی تم نے ہی خراب کرائی تھی؟“
”ہاں! ہاں!“
”اور وہ!“

”ہاں! ہاں! ہاں! میں نے سب کچھ کیا تھا اور ابھی بہت کچھ کروں گا۔ لیکن یہ سمجھ لو کہ رضیہ تمہیں بالکل پسند نہیں کرتی اور اس کی نظر بھی کمزور ہے۔“

میں نے شیطان کو اپنی طرف کھینچا اور اپنا مکا۔ اتنے میں جج صاحب آ گئے، وہ مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، ”میں نے سب کچھ سن لیا ہے، بیٹھ جاؤ۔ جب میں یورپ میں تھا تو وہاں ایک لڑکے سے میری کھٹ پٹ ہو گئی۔ ہمارے پروفیسر نے ہمیں جھگڑتے دیکھ لیا اور کہا کہ تم دونوں کے دلوں میں غبار ہے جسے نکال دینا نہایت مفید ہوگا۔ تم کسی نہ کسی دن آپس میں لڑو گے ضرور۔ چنانچہ وہ ہمیں کھیل کے میدان میں لے گئے اور وہاں گلوز پہنا کر مکہ بازی کرائی۔ ہم خوب لڑے یہاں تک کہ دونوں تھک کر گر پڑے۔ اور ہم جب واپس آئے تو بڑے اچھے دوست بن گئے تھے۔ اب تم دونوں ضرور آپس میں لڑو گے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ ہم سب باغ میں چلیں، تمہارا فیصلہ وہاں ہو جائے گا۔“ انہوں نے گلوز منگا لیے اور ہم سب کمرے سے باہر نکل آئے۔ نہایت ہی دلفریب چاندنی رات تھی۔ میں بے حد اداس تھا۔ ہر دفعہ قصور میرا ہی نکلتا ہے۔ جہاں جاتا ہوں کوئی نہ کوئی گل کھلاتا ہوں۔

مجھے چاہیے تھا کہ چپ چاپ یہاں سے چلا جاتا۔ جب رضیہ کو مجھ سے نفرت ہے تو پھر باقی کیا رہ گیا۔ اب یہ بات سب میں پھیل جائے گی، اور تو اور جج صاحب نے بھی سب کچھ سن لیا۔ توبہ! توبہ! ایک تماشا اور باقی رہ گیا تھا، سو وہ اب ہو رہا ہے۔ بس میں رات کی ٹرین سے گھر چلا جاؤں گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھاؤں گا۔ پلاٹ میں بجلی کے قمقمے جل رہے تھے۔ طے ہوا کہ وہاں مقابلہ ہو۔ ہمیں گلوز پہنائے گئے۔ جج صاحب نے گھڑی ہاتھ میں لی۔ ہمارے چاروں طرف سارا کنبہ کھڑا تھا۔ جج صاحب نے پوچھا، ”کتنے راؤنڈ؟“ میں نے کہا، ”جتنے آپ چاہیں!“ شیطان بولے، ”تین۔“ جج صاحب نے کہا، ”تین میں تو فیصلہ نہیں ہوگا، پانچ سہی۔“

پہلا راؤنڈ شروع ہوا۔ نہ جانے میرے ہاتھ پاؤں کیوں شل ہو رہے تھے؟ بغیر کسی مدافعت کے شیطان سے پٹ رہا تھا۔ سب بچے میری طرف تھے اور ہمت بندھا رہے تھے۔ رضیہ ایک طرف اکیلی کھڑی تھی۔ بالکل چپ چاپ۔ پہلا راؤنڈ شیطان کا رہا۔ دوسرے میں پھر انہوں نے پیٹنا شروع کیا اور میں بت بنا کھڑا تھا۔ یہاں تک کہ میرا ایک مکا بھی ان کو نہ لگ سکا۔ بچے چلا چلا کر میرا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے اور میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ شاید یہی کہ مقابلہ ختم ہوتے ہی فوراً یہاں سے چلا جاؤں گا۔ ایک ٹرین رات کے گیارہ بجے جاتی ہے۔ تیسرے راؤنڈ میں بھی یہی ہوا۔ شیطان اچھل اچھل کر حملہ کرتے اور میری جانب سے مدافعت نہ ہوتی۔ تیسرا راؤنڈ ختم ہوا۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ رضیہ نے میرے کان میں کچھ کہہ دیا۔ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا، ”سچ؟“

بولی، ”ہاں!“ اور میری آنکھوں کے سامنے تتلیاں ناچنے لگیں۔ میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ چوتھا راؤنڈ شروع ہوا۔ میرے گلوز نے حرکت کی۔ دھڑام۔ دھڑام۔ دھڑام۔ چند آوازیں آئیں اور شیطان بے ہوش پڑے تھے۔ وہ ناک آؤٹ ہو گئے تھے۔ جج صاحب نے میرا بازو ہوا میں بلند کر کے ہلا دیا اور رضیہ میرے گلوز اتارنے لگی۔ حکومت آپا بولیں، ”مجھے پہلے ہی پتہ تھا!“

میں اور رضیہ فوارے کے پاس سے گزر رہے تھے۔ راستے میں ہم نے وہ گڑھا بھی دیکھا جہاں میں گر کر بے ہوش ہو گیا تھا۔ ہم دونوں مسکرانے لگے۔ نہایت ہی دلفریب چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ ایسی چاندنی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ رضیہ نہایت ہی خوبصورت لڑکی ہے اور ایسی لڑکی بھی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اور جب ہم معطر پھولوں کے تختوں میں سے گزرے تو فضا میں ایک سناٹا تھا۔ خوشگوار سناٹا! تب مجھے پتہ چلا کہ شیطان تو میرے رقیب تھے اور حکومت آپا اپنا وقت بھی ضائع کر رہی تھیں اور دوسروں کا بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments