یہ یونیورسٹی ہے اسے کلب نہ بنائیں


حال ہی میں ایک نجی تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف لاہور کے دو طلبہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں بظاہر وہ یونیورسٹی کے اندر ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی آف لاہور نے فوری ایکشن لیا اور دونوں طلبہ کو یورنیورسٹی سے برخاست کر دیا۔

یونیورسٹی نے اپنے نوٹیفیکیشن میں کہا ہے کہ مذکورہ طلبا کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا مگر وہ پیش نہ ہوئے۔ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے یونیورسٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے ، جس کی بناء پر ان دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوتے ہی عوام نے بھی اپنے خیالات کے مطابق مختلف رائے دی ، کسی نے تو محبت کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا تو کسی نے ان کی خلاف رائے دی۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے مطالبہ کیا ہے کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے‘ ، فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ‘ مرضی سے شادی ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے، اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے ، مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، لڑکیوں کو پراپرٹی سمجھنا اسلام کے خلاف ہے۔ ’

اس ٹویٹ کے بعد اگر اسلام کی بات کی جائے تو ہاں اسلام لڑکی کو اجازت دیتا ہے لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اس حق کے ساتھ سرعام بے حیائی پھیلائی جائے ۔ اسلام نے جو حق دیا ہے ، اسی حق کو اپنائیں ، اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔

اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد نہ جانے کتنے والدین خوفزدہ ہو گئے ہیں ، اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد سب سے زیادہ اثر ہمارے والدین پر پڑا ہے جو دن رات محنت کر کے کماتے ہیں اور ہماری فیس ادا کرتے ہیں ۔ ایک غریب باپ دن رات اس لیے اپنا خون پسینہ ایک نہیں کرتا کہ ایک ادارہ جہاں اس کی اولاد پڑھتی ہو ، وہ اس کے بدلے اس کی بیٹی کو تحفظ بھی فراہم نہ کرے۔

ہر ادارے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ، جن پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔  اگر آج تعلیمی اداروں میں پرپوز کرنے کی اجازت دے دی گئی تو کل کو تعلیملی اداروں میں نکاح پڑھانے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔

ہماری حکومت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر خاص دھیان دے ، ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہی کیوں ہوتی ہیں جن سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے ۔ سوشل میڈیا پر ہرگز ایسا مواد اپ لوڈ نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے کسی کی تذلیل ہو۔

میرے خیال سے یونیورسٹی انتظامیہ نے بالکل ٹھیک ردعمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو تمام تعلیمی اداروں میں یہ روش چل پڑتی ۔ یونیورسٹی کوئی کلب نہیں ہے کہ یہاں اس سب کی اجازت دی جائے۔

اس سارے معاملے کا حل یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے قوانین لاگو ہونے چاہئیں کہ یہاں کوئی ہراسمنٹ کا شکار ہو سکے اور نہ ہی ایسی ویڈیوز بنائے اور نہ ایسے کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسی صورت میں تعلیمی اداروں کا ماحول مزید خراب ہونے سے بچ سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments