میں پیاری بھی تو نہیں ہوں ناں


سکھر میں کوئنز روڈ پر واقع ہمارے صاف ستھرے چھوٹے سے گھر سے نکل کر گاڑی بہت سارا فاصلہ طے کر کے ایک ایسے گھر کے سامنے رک گئی، جس کا دروازہ گہرے نارنجی رنگ میں تازہ رنگا گیا تھا، اور سفید اکڑے ہوئے کپڑے پہنے ایک آدمی دروازے سے باہر کھڑا ہمارا منتظر تھا، ابو گاڑی روک کر اترے اور اس آدمی سے بغل گیر ہو گئے، میں اور میرا بھائی بھی ابو کے ساتھ اتر کر کھڑے ہو گئے، اور ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگے، فضاء میں روغن، مٹی اور گوبر کی بو تھی، آدمی نے امی کو اردو میں مخاطب کیا، بھابھی آئیے تشریف لائیے، ہم سب نارنجی دروازہ پار کر کے ٹھنڈی اور نیم تاریک اوطاق میں داخل ہو گئے، اوطاق کا ایک دروازہ گھر کے اندرونی حصے میں کھلتا تھا، امی نے وہ دروازہ پار کیا اور زور سے آواز دی، جنت۔

بڑے سے کھلے صحن میں ایک کونے میں بڑے سینگوں والی کالی بھینس کھڑی تھی، بھینس کو چارہ ڈالنے والی عورت کے منہ سے ہمیں دیکھ کر عجیب سی آواز نکلی ، وہ چارے کو چھوڑ کر امی کی طرف لپکی اور دونوں بغل گیر ہو گئیں، وہ سندھی میں بات کرتی تھی اور امی نے اردو اور سندھی کو مکس کر کے نہ جانے کون سی زبان بنا لی تھی، لیکن وہ عورت خوب ہنس رہی تھی، اندورنی کمرے سے ایک بوڑھی اور ایک جوان لڑکی بھی نکل آئیں، ساتھ ہی بھینس بھی ہماری طرف بڑھی، میں نے خوف زدہ ہو کر چیخ ماری، کسی بھینس کو اس طرح گھر میں دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا، لڑکی نے ہنستے ہوئے بھینس کو سینگوں سے پکڑا اور پیچھے دھکیل دیا۔

بھینس چپ چاپ کونے میں کھڑی ہو کر منہ چلانے لگی۔

سب سے مل کر کمرے میں پہنچے تو وہاں ایک بہت گوری اور زیورات سے لدی پھندی نازک اندام عورت بیٹھی تھی، وہ بھی اٹھ کر امی سے گلے ملی، امی نے پرس سے لفافہ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا، بوڑھی عورت امی کو منع کرنے لگی تو امی نے کہا، آپ کے بیٹے نے دیا ہے۔ بوڑھی عورت خاموش ہو گئی، پھر تینوں عورتیں جوش و خروش سے سندھی اردو مکس زبان میں باتیں کرنی شروع ہو گئیں، لڑکی بے تحاشا ہنستی تھی اور امی سے کہتی تھی آپ اردو میں بات کریں، میں سندھی میں ان لوگوں کو بتا دوں گی، لیکن چاچی جنت خفگی سے کہتی تھیں، مجھے اردو آتی ہے، اور میری امی بھی یہی کہتی تھیں کہ مجھے سندھی آتی ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ صرف ایک دوسرے سے محبت کی زبان میں باتیں کرتی تھیں، عورتوں والی باتیں کرتی تھیں، زبان ان کا مسئلہ نہ تھا، میں اور میرا بھائی گھر کی فضاء میں رچی بسی گوبر کی بو سے پریشان تھے اور سوچتے تھے یہ ہم کہاں آ گئے، یہاں تو بچے بھی نہیں ہیں، جن کے ساتھ ہم کھیل سکیں گے، ہم سارا دن بور ہوں گے ۔

یہ چاچی جنت سے ہمارا پہلا تعارف تھا، چاچی جنت جن کی رنگت ان کی بھینس کی طرح کالی تھی، اور شاید قسمت بھی،

جب تک ہم سکھر میں رہے، ہر ماہ میں دو یا تین چکر چاچا سومرو اور چاچی جنت کے گھر کے لگ جاتے، چاچا میرے والد کے کولیگ تھے، کراچی میں دونوں نے ایک غیر ملکی بنک میں کام کیا، پھر سرکاری بنک میں ملازمت ملی تو دونوں کا ٹرانسفر سکھر ہو گیا، جہاں ان کے خاندانوں میں بھی دوستی ہو گئی، لیکن اس دوستی کو برقرار رکھنے میں میری والدہ اور چاچی جنت کا کا کردار تھا اور یہ دوستی چاچی جنت کی موت کے بعد بھی قائم رہے گی۔  ہم ان کو دعاؤں میں یاد کرتے رہیں گے جب تک ہم بھی ابدی نیند نہ سو جائیں۔

تین مارچ دو ہزار اکیس کو ہمیں چاچی کے انتقال کی خبر ملی اور میں نے سوچا کہ شکر ہے ان کو مکتی ملی اس زندگی سے جس پر ان کا اختیار نہ تھا، نہ ہی دل پر ان کا زور تھا نہ ہی جسم پر ان کی مرضی چل سکی تھی، وہ چاچا کی پھوپھو کی بیٹی تھیں جن کو ان کے ابا نے ان کے ساتھ بہن کی محبت میں شادی کے بندھن میں باندھ دیا تھا۔

چاچا ماموں کی بیٹی کو پسند کرتے تھے ، اس لیے جنت کو کبھی دل سے قبول نہ کیا، پھر ان کو اولاد نہ ہونے کا بہانہ بھی مل گیا، باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی انہوں نے ماموں کی بیٹی سے شادی کر لی، وہ زیورات میں لدی پھندی گوری چٹی عورت چاچا کی دوسری بیوی تھیں، جب مجھے شعور آیا اور میری اماں نے مجھ سے عورتوں والی باتیں کرنا، شروع کیں اور مجھے چاچی جنت کی زمین پر جہنم بنی زندگی سمجھ آنا شروع ہوئی، ان کی حیثیت گھر کی خادمہ کی تھی، اگرچہ کہ سوتن بھی اولاد پیدا نہ کر سکی تھی، چاچا کے خاندان میں موروثی بیماری تھی جو کزن میرج کے باعث اولاد پیدا کرنے میں رکاوٹ تھی، لیکن اس بیماری کا قصور بھی عورتوں کے سر پر ڈال دیا گیا تھا کہ عورتیں بانجھ ہیں، اس لیے خاندان کے مردوں کی اکثریت نے دو دو شادیاں کی ہوئی تھیں۔

جنت تو بالکل ٹھیک ہیں، میاں بیوی دونوں کا چیک اپ ہونا چاہییے، ایک بار ڈاکٹر اوشا نے امی سے کہا۔
امی چپ ہو گئیں اور اس کے بعد کبھی یہ معاملہ ڈسکس نہیں کیا۔

بیس سال کے بعد ڈاکٹر اوشا کی بیٹی ڈاکٹر دیبا جو زندگی کے آخری ایام میں چاچی جنت کا علاج کر رہی تھیں اور مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ تم نے چاچی جنت کی زندگی پر کوئی افسانہ لکھا ہے؟

میں سوچنے لگی، افسانے میں کیا لکھوں۔

چاچی جنت اور ان کی بھینس ایک گھر میں رہتی تھیں، اور گھر والوں کی مرضی سے کھاتی پیتی تھیں، ان کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی، ہاں ان کے گھر کے مردوں کی مرضی سے ان کے گھر کوئی مہمان آتا تھا تو ان کی خدمت ان پر فرض ہوتی تھی۔

وہ کبھی ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جائی گئیں تھیں، چوری چھپے میری اماں نے ڈاکٹر اوشا سے ان کے ٹیسٹ کروائے تھے۔

دو برس پہلے جب جنت بہت بیمار ہو گئیں تھیں، بلڈ پریشر، بے تحاشا وزن، تنہائی اور ڈپریشن نے انہیں بستر پر لٹا دیا تو امی اور میں ان سے ملنے سکھر گئے۔

تب بھی علاج کے لئے اماں نے اصرار کیا، کسی کو ان کی پروا نہ تھی۔
چاچی کی سوتن نے اپنے بھائی کا بیٹا لے کر پال لیا تھا اور اپنی مامتا کی تسکین کر لی تھی۔

لیکن جنت ہمیشہ کی طرح اجڑی ہوئی تھیں کیونکہ وہ ان چاہی تھیں، چھونا تو درکنار کئی برس سے ان پر ان کے شوہر نے نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کی تھی، اماں کی وجہ سے چند لمحات کے لئے وہ جنت کے کمرے میں آئے، پھر میرے بھائی کو بھی کمرے سے یہ کہتے ہوئے لے گئے کہ یار کیا عورتوں میں گھس کر بیٹھ گئے ہو، آؤ اوطاق میں بیٹھو۔

ایک بار میں نے چاچی جنت سے پوچھا تھا آپ کو چاچا پر غصہ نہیں آتا، وہ آپ سے بات بھی نہیں کرتے، آپ ان کی خدمت کیے جاتی ہیں تو وہ بڑی معصومیت سے بولی تھیں۔

کوئی بات نہیں ”میں پیاری بھی تو نہیں ہوں ناں“

ان کی سوچ بھی پرائی تھی، جیسے ہمارے سماج کی اکثریت خواتین کی سوچ پرائی ہے کیونکہ ان کو سکھایا یہی جاتا ہے کہ ان کو کیسا دکھائی دینا ہے، کیسے کپڑے پہننے ہیں، کتنی پڑھائی کرنی ہے، پڑھائی کرنی بھی ہے یا نہیں، گھر والوں کی خدمت پھر سسرال والوں کی خدمت پھر اولاد کی خدمت کیسے کرنی ہے، جو دوسرے کہیں، ان باتوں پر عمل کرنا ہے، کوئی کہے تم پیاری نہیں ہو، بس دل میں بٹھا لینا ہے کہ ہاں میں پیاری نہیں ہوں، یہ سوچے بغیر کہ میں جیتے جاگتے احساسات کی حامل انسان ہوں۔ میں پیاری ہوں یا نہیں، زندگی جیسے خوبصورت تحفے پر میرا اختیار کیوں نہیں ہے۔

جس وقت تین مارچ کو ہمیں جنت چاچی کے انتقال کی خبر ملی، میں اس وقت سوشل میڈیا پر ایک سو کالڈ نیک پوسٹ پڑھ رہی تھی کہ عورتوں کے حقوق کیا ہیں اور اسلام نے خواتین کو سارے حقوق تفویض کر دیے ہیں۔ جی ہاں اسلام کے دیے ہوئے سارے حقوق اس سماج نے سلب کر رکھے ہیں۔ جنت چاچی کی طرح خواتین کی اکثریت بہن بھائیوں کی محبت میں بیاہ دی جاتی ہیں، شوہر کو پسند نہ آئیں تو سوتن برداشت کرتی ہیں یا پھر داشتائیں، اکیسیوں صدی میں بھی اولاد نہ ہونے پر بانجھ کا لیبل خواتین کے حصے میں آتا ہے۔

اور اگر بچے ہو جائیں تو پھر بچوں کی قطار لگانا لازمی ہے کیونکہ ذہین و فطین خاندان اور عظیم امہ کی تعداد بھی تو بڑھانی ہے، چاہے اس تعداد بڑھانے کے چکر میں صحت برباد ہو جائے۔ چاہے زیادہ بچے ہونے کے باوجود زندگی کے آخری ایام ایدھی ہوم میں گزریں، یا گھر کے ایک الگ تھلگ کمرے میں، لیکن عورت کی زندگی پر اس کا اختیار نہیں ہے، چاہے زندگی جہاں بھی گزرے، بس گزر جائے کیونکہ دوسرے درجے کے شہری کی زندگی کی اوقات ہی کیا ہے۔

جب ہم یوم خواتین مناتے ہیں، تو ایسی ہی خواتین کے لئے مناتے ہیں، کوئی تو اس دن کے نعرے کی گونج میں یہ سوچے گی کہ وہ بھی انسان ہے اور اس کا اپنی زندگی اور جسم پر اختیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments