ثنا داؤد: ایک سچے عشق کی لازوال کہانی


دنگ رہ جانے کے لئے ضروری نہیں کہ بندہ کوئی عجوبہ ہی دیکھ لے۔ متاثر ہونے کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ تأثر چھوڑنے والا انسان عہدے یا نام سے بڑا ہو بلکہ ایک عام بندہ بھی کوئی ایسا بڑا بلکہ بہت بڑا کام کر سکتا ہے کہ وہ اپنے کام اور طرزعمل سے منفرد بن جاتا ہے اور اس کا یہ کام اور طرز عمل دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے اور وہ شخص اس کے لئے موٹیویشن کا باعث بن جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی اور میرے نظروں سے گزری ، میں نے وہ ویڈیو ایسے گزرنے نہیں دی ۔ اتنی کشش یا زور اس ویڈیو میں تھا کہ وہ مجھے پوری دیکھنی پڑی۔

ثنا اس ویڈیو میں رپورٹر سے بات بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ اس کی وہ ویڈیو بھی چل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک عجوبہ ایک بہت بڑا انسان، ایک بہت بڑا وسیلہ، ایک بہت بڑی انسپائریشن اور ایک بہت بڑی موٹیویٹر اور اس دور کی سچا پیار کرنی والے افسانوی کردار کی صورت میں سامنے آئی ، جس کے سامنے کلاسک دور کی تمام محبوبائیں بہت پستہ قامت رہ گئی ہیں۔

جس ویڈیو کا میں نے ذکر کیا ، اس ویڈیو میں ثنا نام کی کوئی بیس سال کے لگ بھگ عمر کی لڑکی پنجابی لہجے میں رپورٹر کو انٹرویو کی صورت میں اپنی روداد سنا رہی تھی کہ وہ داؤد نام کے ایک لڑکے سے پیار کرتی تھی، دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے، دونوں کبھی کبھار داؤد کے موٹر سائیکل پر گھومنے پھرنے بھی جاتے تھے۔

لیکن ایک حادثے میں داؤد شدید زخمی ہو جاتا ہے اور پھر ڈاکٹر ان کے دونوں بازوں کندھوں تک اور ایک پاؤں کولہے تک کاٹ دیتے ہیں اور بقیہ جسم ان کا سن ہو جاتا ہے۔ اور اس حادثے کے بعد ثنا کے والدین ثنا کا رشتہ کسی اور لڑکے سے طے کرتے ہیں لیکن ثنا گھر چھوڑ جاتی ہے اور بضد ہوتی ہے کہ مجھے داؤد کو اس حال میں نہیں چھوڑنا اور بالآخر اس کی شادی داؤد سے ہو جاتی ہے، لیکن ثنا کے والدین اس پر راضی نہیں ہوتے حتیٰ کہ ثنا کا والد داؤد سے بات کرنے کا روادار نہیں بھی نہیں ہوتا۔

جب ثنا یہ سب کچھ بول رہی ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ وہ کلپ بھی چلتے ہیں جس میں ثنا، داؤد کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہے۔ داؤد کے شرٹ اور ٹی شرٹ تبدیل کرواتی ہے۔ داؤد کے دانت ٹوتھ برش سے صاف کراتی ہے۔ داؤد کے منہ کو دھوتی ہے اور اس کی داڑھی کو کنگھی کرتی ہے اور داؤد کے مونچھوں کو صاف کرنے کے بعد تاؤ دے کر برابر کرتی ہے۔ ثنا کسی بھی لمحے اس کو اداس نہیں رہنے دیتی۔ لیکن بار بار یہ بولتی ہے کہ بس میں داؤد کو پھر سے اسی طرح دیکھنا چاہتی ہوں کہ میرے ساتھ بس اپنے پاؤں سے گھومے پھرے اور اپنے ہاتھوں سے کھائے اور پیے۔

وہ تمام انٹرویو میں ہمت، عزم اور حوصلے کی پیکر ہوتی ہے لیکن اس وقت آب دیدہ ہو جاتی ہے جب وہ بولتی ہے کہ ابو کا اب بھی مجھے فون آتا ہے لیکن جب میں ان سے بولتی ہوں کہ داؤد سے بات کریں تو وہ فون کاٹ دیتے ہیں اور وہ مزید بات والد سے گلے شکوے کی انداز میں کرتی ہے کہ مجھے اس اچھے کام پر گھر والوں نے سراہنا چاہیے تھا کہ یہ میرا فیصلہ ہے ، جب میں اس حال اور اس کام پر خوش ہوں تو ان کو بھی خوش ہونا چاہیے تھا۔

دوسری جانب جب داؤد کی کلپ دکھائی دی جاتی ہے تو وہ ہر لحاظ سے ثنا پر انحصار کر رہا ہوتا ہے۔ وہ ثنا کی اس قربانی کا بار بار ذکر کرتا ہے۔ اور وہ ثنا کے اس فیصلے، ہمت جرأت اور عزم کا احسان مند ہوتا ہے۔ وہ مخیر حضرات سے یہ بھی التجا کرتا ہے کہ وہ ان کے مصنوعی ہاتھوں اور پیروں کا بندوبست اور ساتھ ساتھ اگر ہو سکے تو کسی کاروبار کا بندوبست بھی کریں تاکہ وہ ثنا کو گھر بٹھا سکے اور وہ خود عام مردوں کی طرح بیوی کو کھلائے اور پلائے کیونکہ اس کو یہ بھی نہیں پسند کہ ثنا دیگر رشتہ داروں کے سہارے بازار سے سودا سلف لائے۔

ہمت، حوصلے اور عزم کا پیکر داؤد یہ بھی بولتا ہے کہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا بھی ہو گا۔ لیکن آخر میں وہ اس بات پر آب دیدہ ہو جاتا ہے کہ باقی سب تو چلو ثنا کرتی ہے لیکن جب رفع حاجت کی بات آتی ہے تو پھر دوسروں پر انحصار کرتے وقت سوچتا ہوں کہ یہ دن بھی میں نے دیکھنے تھے لیکن اللہ کی مرضی۔

جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو میری آنکھوں ں سے برابر آنسو بہہ رہے تھے ، لیکن کالم مکمل ہوتے ہوتے بہنے والے آنسو میری آنکھوں کے کونوں میں جم چکے تھے اور ان خشک اور جمے ہوئے آنسوؤں کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کے پوروں سے صاف کیا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments