براہ مہربانی قومی پرچم کے سبز رنگ کو سفید کر دیں


رنگ بہت بولتے ہیں۔ ان کو علامت کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً کالے رنگ کو افسوس کی علامت کے طور پہ پہنا جاتا ہے۔ سرخ رنگ کو انقلاب کے لیے لیے اٹھنے والی تحریکوں میں استعمال کیا گیا۔ تمام اسلامی ممالک کے جھنڈوں کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ سبز رنگ کسی نہ کسی طور اسلام کے نمائندہ رنگ کے طور پہ جانا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ امن کے ساتھ ساتھ غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جھنڈے کاسفید حصہ قیام پاکستان کے وقت 23 فیصد غیر مسلمانوں کی آبادی کو ظاہر کرتا ہے۔ آج ساری قوم قرار داد پاکستان کی منظوری کے دن کو قومی جوش اور جذبے کے ساتھ منا کر رب العزت کی شکر گزار ہے کہ اس نے استعماری قوتوں کی غلامی سے نجات دی۔ آزادی خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ نعمت کی قدر اور ادائیگی شکر سے نعمت کے بڑھ جانے وعدہ خود رب نے کیا ہے۔

پاکستان نے جو سفر 1947 میں شروع کیا تھا اس میں عروج و زوال کی ایک طویل داستان ہے۔ پاکستان نے مہاجرین کے کٹے پھٹے قافلوں، انتظامی مشینری کے عدم دستیابی، صنعتی شعبے کی مخدوش حالت، اور پسماندہ زراعت کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انڈیا کے ساتھ دشمنی کا بوجھ بھی 72 برس سے کندھے پہ اٹھائے رکھا۔ مشرقی پاکستان کو بھی خود سے کاٹ کر علیحدہ بھی کیا۔ سیاچن پہ اپنے اقتدار اعلیٰ کو کمپرومائز کیا۔ اس کے ساتھ ہم نے اپنی صنعت کو جدید خطوط پہ استوار کیا۔ دفاعی شعبے میں خود کو دنیا کی افواج میں صف اول میں کھڑا کیا۔ قیام پاکستان کے وقت 8 کروڑ افراد کے لیے خوراک پیدا نہ کرنے والی سر زمین آج اپنی نصف زمین سے ہی 22 کروڑ لوگوں کی خوراک میں خود کفیل ہوئی۔

آگے بڑھنے کے لیے پیچھے کی غلطیوں کو تجزیہ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ تاریخ کے قدم نہایت نرم ہوتے ہیں اس لیے وہ بار بار لوٹ آتی ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے ہم نے سب سے پہلے ملک میں کب تفریق کی لکیر کھینچی؟ اگر قومی یادداشت محفوظ ہے تو معلوم ہو گا کہ سب سے پہلے ہم نے ملک کا جھنڈا ڈیزائن کرتے وقت اقلیت اور اکثریت کی زہر آلود تقسیم قوم کو ورثے میں دی۔ پھر اکثریت نے اکثریتی گھمنڈ میں ملک کی اینٹ اینٹ بجا دی۔ لیکن کسی میں جرات نہ ہوئی کہ انہیں مورد الزام ٹھہرا سکے۔ ہم نے لفظ اقلیت کو تکیہ کلام کی طرح استعمال کیا۔ اگر آج ہم ملک کی موجودہ حالت کی ذمہ داری کا تعین کرنے نکلیں تو اکثریت کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے مادر وطن کو ذاتی مفاد کی خاطر کئی بار قربان کیا۔

جمہوریت کو ملک میں فروغ نہ دینے والوں اور اقتدار کے ایوانوں کو فوجی بوٹوں سے روشناس کروانے والوں میں گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا کا تعلق بھی اسی اکثریت سے ہی تھا۔ اپنے حلف سے بار بار روگردانی کر کے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو چھوڑ کر اقتدار کی مسند سے چمٹ جانے والوں میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان، جنرل قزلباش آغا محمد یحیی خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی اکثریتی قبیلے کے افراد تھے۔ ملک میں جب جب حالات نے نامناسب میں سمت اختیار کرنا چاہی تو عوام نے عدالتی دہلیز کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔

لیکن عدالتی ایوانوں میں جسٹس مینر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس انوار الحق، اورجسٹس عبدالحمید ڈوگر جیسے ججز کو مصلحت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے پشت کر کے ملک کو اندھیروں دھکیل دیا۔ یہ تمام موصوف بھی اسی اکثریت کے سبز رنگ کے علمبردار تھے۔ 80 ء کی دہائی میں ملک میں اقتدار کی چھتری کے نیچے معاشرے میں اعتدال کی جگہ انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا پھر اس صدی کے پہلے عشرے میں اس انتہا پسندی کو عملی صورت میں ظہور میں لایا گیا۔

ملک میں شریعت کے نام پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی اکثریت نے بندوق کے زور پہ ملک پہ مخصوص سوچ کو نافذ کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنایا اور اربوں روپے کی املاک راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ مولوی عبد العزیز اور صوفی محمد جو اس تحریک کے روح رواں ٹھہرے وہ بھی اسی اکثریتی گروہ میں سے ہیں۔ لیکن ان کی سر کوبی تو دور کی بات مذمت بھی اس لیے قومی سطح پہ نہیں ہوئی کہ وہ اکثریت سے تھے۔ آج ملک میں جہالت کا دور دورہ ہے، یا کرپشن کا بازار گرم، ملاوٹ کا جن بوتل سے باہر ہے فرائض سے غفلت برت کر قومی مجرم ہونے کا شرف حاصل کرنایہ سب اسی اکثریت کا کرشمہ ہے۔

ہم کبھی سوچیں تو سہی کہ آخر آٹھ ملین غیر مسلم افراد بھی اسی ملک میں رہتے ہیں کبھی ان سے بھی اس ملک کو کوئی نقصان پہنچا؟ ہم نے فوج کو بار بار اقتدار پہ قابض ہوتے دیکھا اور آج بھی ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف لاکھوں دلوں پہ راج کر رہے ہیں مگر آرمی کے ان سینکڑوں غیر مسلم پاکستانیوں کی خدمات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جنھوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔ وائس مارشل ایرک گورڈن ہال، فاونڈنگ چئیر مین آف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جنھیں ہرکولیس بومبر کے لقب سے آرمی میں یاد کیا جاتا تھا 1965 میں ہلال جرات سے نوازے گئے۔

سیسل چوہدری کا نام کسی طور تعارف کا محتاج نہیں۔ وائس مارشل مائیکل جان او برائن تغمہ جرات، ستارہ بسالت، نشان امتیاز بھی مذہب کے اعتبار سے اقلیتی گروہ سے تھے لیکن پاکستان کے لیے کبھی ندامت کا باعث نہیں بنے۔ سکوارڈن لیڈرپیڑکرسٹی جن کو 1965 کی جنگ کے بعد ماسٹر فائٹر کے نام سے شہرت ملی، عیسائی تھے۔ ونگ کمانڈر مروائن لیسلی ستارہ جرات 1965 کی جنگ میں جبکہ ستارہ بسالت 1971 میں دیا گیا۔ جن کی وفات پہ اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ، جو کہ خود بھی پائلٹ تھے، نے ان کی بیوی کو خط لکھا کہ ”میری بہن! ونگ کمانڈر مروائن لیسلی کی موت میرا ذاتی نقصان ہے، میری خواہش ہے کی جب اسے دفناتے ہوئے پاکستان پرچم میں لپیٹا جائے تو اس کے سر کو اردن کے پرچم سے لپیٹا جائے“

اس کے علاوہ کئی ایسے ہی غیرمسلم پاکستانی ہیں جنھوں نے پاکستان کی دھرتی کے لیے اپنا خون دینے میں فخر محسوس کیا لیکن وہ کبھی ہماری توجہ میں نہ آ سکے۔

جسٹس مینر جب ایوب خان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا تھا تب ایک عیسائی جج جسٹس رابڑت کا رنیلیس 8 برس تک اسی آمر کے گلے کی ہڈی بنا رہا۔ جب مولوی مشتاق اور جسٹس انوار الحق نے ضیا الحق کی بیعت کر لی تھی تو ایک پارسی جج جسٹس دراب پٹیل نے اس کے خلا ف کلمہ حق بلند کیا۔ جب جسٹس عبدالحمید ڈوگر مشرف کو سلیوٹ کر کے عدالتی وقار کو خاک میں ملا رہا تھا تو ہندو جج جسٹس بھگوان داس نے اس کے خلاف فیصلہ سنانے کی جرات کی۔ لیکن پھر بھی قوم نے اکثریتی گروہ کو یہ استحقاق دیا کہ وہ ہی بلا شرکت غیرپاکستان کے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں۔

ملک کو لوٹ کھانے والے مسلمان ہمارے لیے قابل قبول ہیں لیکن ہم نے پاکستان کی پہلی کابینہ کو کبھی نہیں پڑھا جہاں قائد اعظم صرف میرٹ اور ذہانت کی بنیاد پر سر طفراللہ خان جو کہ احمدی تھے اور جو گندرناتھ منڈل جو کہ ہندو تھے انھیں وزارت خارجہ اور وزارت قانون کے قلمدان دیے اور انھوں نے کبھی پاکستان کا سر جھکنے نہیں دیا۔

پاکستان کے لیے دنیا بھر میں شاباش حاصل کرنے والے واحد پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی اکثریتی نفرت سے نہ بچ سکے۔ ان کی حالت زار اس کالم میں نہیں بیان کی جا سکتی۔ کیسے وہ علم کا مینار جہالت کی تاریک گلیوں میں گم ہو گیا اس کے لیے الگ کالم کی ضرورت ہے۔ تقسیم ہند کے بعد قائد اعظم کو سب سے زیادہ فکر جس بات کی تھی وہ تعلیم تھی کیوں مسلمانوں کے سکول تباہ ہو چکے تھے۔ لیکن اس وقت پارسی اور عیسائی اداروں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ کئی عشروں بعد آج بھی عیسائی اور پارسی سکول اور کالجز مسلمان طالبعلموں کے لیے معیاری اور سستی تعلیم کا باعث ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات پہ ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔

50 ء کے عشرے میں احمدیوں کے خلاف، عرب اسرائیل جنگ کے بعد پاکستانی یہودیوں کے خلاف، 1965 کی جنگ کے بعد پاکستانی ہندووں کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ غیر مسلم پاکستانی پاکستان سے ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے۔ 1947 میں 23 فیصد آبادی اب 3۔2 فیصد تک محدود ہو گئی ہے۔ اقلیت کا اکثریت کے ظلم سے ہجرت کر جانا کتنا کرب ناک ہے ذرا ایک لمحے کے لیے ہجرت مدینہ نظر میں رکھیے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے قصاب ٹکا خان کو پاکستان کے پرچم میں لپٹ کے دفن کیا لیکن اپنی قوم کے بچوں کو یہ ہی پڑھایا کہ ہندو اساتذہ نے ان کے ذہن خراب کر دیے تھے۔ ہر غیر مسلم پاکستانی کو یہاں غیر ملکی ایجنٹ کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ لیکن جنھوں نے ریال اور درہم لے کر ملک میں لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا وہ فرزندان توحید بھی ہیں اور ملک عزیز کے جری دلیر جوان بھی۔

23 مارچ کا درس یہ نہیں جو ہم نے ہر سال اپنی قوم کو دیتے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی روز بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں کو 1931 شادمان چوک میں پھانسی دے دی گئی۔ وہ اسی پاکستان کی دھرتی کے بیٹے اور ہمارے ہیرو ہیں۔ انھوں نے اپنے خون سے ہماری آزادی کی تحریک کی آبیاری کی۔ خود قائد اعظم نے بھگت سنگھ کے مقدمے میں بطور وکیل پیش ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے شادمان چوک کو اس عظیم وطن کے سپوت کے نام پہ اس لیے نہیں کر رہے کہ وطن کی مٹی ناپاک نہ ہو جائے۔

گریبان میں دیکھنے سے کتنی گھن آتی ہے اس اکثریتی ٹولے کا حصہ ہونے پہ۔ براہ مہربانی اس پرچم کے سبز رنگ کو سفید کر دیں۔ ہم اس دن یہ عہد نہیں کر سکے کی آج کے بعد ہم لفظ اقلیت کو قومی ڈکشنری سے حذف کر دیں۔ اور ایک ہی شناخت پروان چڑھائیں۔ مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی۔ غیر مسلم پاکستانیوں نے ثابت کر دیا وہ واقعی سفید رنگ کی لاج رکھ رہے ہیں ملک کو ناصرف انہوں نے ہر شعبے میں ملک کی خدمت کی ہے بلکہ کبھی ملکی ندامت کا باعث نہیں بنے۔ جبکہ اسلام کی نمائندگی کرنے والے سبز رنگ کے پیروکاروں نے مادر وطن کے جسم پہ اتنے گھاو لگائے کہ اب مذہب اور وطن دنوں دنیا میں منہ چھپانے کے لیے کہیں جگہ نہیں ڈھونڈ پا رہے۔ اس لیے براہ مہربانی جھنڈے کے سبز رنگ کو سفید کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments