لباس کی آنچ



’میں تو شبدوں کی پہیلی ہوں۔
ایک ہاتھ
ایک طلسمی گھر
ایک تربوز
جو لڑھک رہا ہو
ایک سرخ پھل ہاتھی دانت، صندل کی لکڑی
وہ ریزگاری
جو ابھی ابھی تازہ، ٹکسال سے نکلی ہو
۔ سلویا باتھ

تاریکی کے پردے کو چیرتی ہوئی صبح پرنور اجلی کائنات کی آغوش میں سرد آہیں بھر رہی تھی۔ آگ اگلتا سورج نگاہوں سے اوجھل ابلیس کے دونوں سینگوں کے درمیان ٹھہاکا لگا رہا تھا۔ نیلگوں آسمان کے نیچے سمندر کی سطح پر کانپتی لہریں آپس میں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ پانی کی دھیمی دھیمی لہروں پر ماہی گیر کی کشتیاں ڈانواں ڈول ہو رہی تھیں۔ کچھ عورتیں اپنے بچوں اور مردوں کے لیے کچی مٹی سے تیارکردہ چولہے پر روٹیاں سینک کر ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ کچھ لوگ آپسی رسہ کشی میں اپنے پڑوسیوں کو گالم گلوچ سے فیض یاب کر رہے تھے۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو چکے تھے۔

اسی درمیان وہ پھونس کی ایک جھونپڑی سے باہر کو آ نکلی۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ اسے دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ وہ اندر سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ مجھے یہ بھی لگا کہ اس کا وجود زندگی اور موت کی باریک سطح پر ہچکولے کھا رہا ہے۔ پھر بھی وہ یکے بعد دیگرے فطرت کے مناظر کو مستقل اداس بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔

اچانک اس کے جسم کے اندر کا، نرم و گداز سرخ گوشت کا لوتھڑا زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے کہا:

’میں اندھیرے کی سرحد پر کھڑی ہوں۔ کسی اور کے جرم کی سزا بھگت رہی ہوں۔ اندھیرے کے باہر بھی گھنا اندھیرا ہے۔ میں اس اندھیرے میں بھٹک رہی ہوں۔ اور مجھے نہیں پتہ کہ ایسا کب تک چلے گا۔‘

اس کے رخسار جیسے گندمی چکنی سڑک پر کسی نے آنسؤں کی لکیر کھینچ دی ہو۔ اس نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا۔ مجھے احساس تھا کہ اگر میں ان قہقہوں کو نچوڑوں تو ہزاروں کرب انگیز چیخیں میرے وجود کی کرچی کرچی بکھیر دیں گی۔ اب میں اسے چھو سکتا تھا۔ ناتجربہ کار لڑکی کے شانے پر میں نے دھیرے سے ہاتھ رکھ کر کہا:

’خدا ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ ممکن ہو تو بتائیے کہ آپ سیاہ راتوں کا تعاقب کیوں کر رہی ہیں؟‘
وہ تھوڑی دیر چپ ہو کر مجھے گھورنے لگی۔ اور پھر اس کے الفاظ تندور بن گئے۔
’معزز خاندان کے افراد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی فاحشہ کی اولاد کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھے‘
’فاحشہ‘
میرے لفظ کمزور تھے۔ سماج سے سیاست تک کیا ایسے لوگوں کی کمی ہے۔
کچھ لوگ سیاہ رات کو پرنور بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔

لیکن یہ لفظ فاحشہ۔ حقیقت یہ کہ یہ لفظ اب بھی مجھے گراں گزر رہا تھا۔ لیکن میں اس عورت کو جاننے کا خواہش مند تھا۔ اور یہ بھی حقیقت کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت دنوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور میں اس نفسیات سے واقف تھا کہ پراسرار راستے بھی منزل کی تلاش میں ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ عورت مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔

اس نے ایک لمبی سانس لی۔
’آپ میرے لیے اجنبی ہیں۔‘
’مگر یہاں اجنبی کون نہیں۔‘
’ہاں۔‘
’مگر فاحشہ۔ کیا اس لفظ میں تیزاب کی آگ نہیں۔‘

اس نے سر کو جھکا لیا۔ کچھ لوگ زندگی بھر تیزاب سے جلتے رہتے ہیں۔ پھر ان کے پاس نہ جسم ہوتا ہے، نہ چہرہ۔

اس وقت میرے خیالات کو گھن لگ گئی تھی۔ اور بار بار ایک ہی لفظ ہتھوڑا بن کر میرے دماغ پر زور زور سے برس رہا تھا۔

کیا اس نے اپنی ماں کو فاحشہ کہا؟ معاشرے کو، زندہ انسانوں کو؟
کبھی کبھی ایک بار میں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔ اس دن بے رخی سے اس نے کہا۔
’کیوں کھڑے ہو۔ جاتے کیوں نہیں؟ اور ہاں۔‘
’ہاں کیا۔ ؟‘
’میں اب بھی تیزاب سے جل رہی ہوں اور خدا کے لئے مجھے اکیلا چھوڑ دو‘

اس دن میں نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ مگر کچھ لوگ ہوتے ہیں، کچھ چہرے جو آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے جو ایک خاص قسم کا تجسس پیدا کر جاتے ہیں۔

پانچ دنوں بعد وہ ملی تو خاموش تھی۔ سر جھکا ہوا تھا۔ کسی کشمکش میں تھی‌۔ وہ اسی مقام پر تھی، جہاں پہلے ملی تھی۔ مجھے یقین ہے، اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ مگر پہلی بار میں مجھے دیکھ کر بھی نظر انداز کیا۔ گھبرائی ہوئی ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ اس وقت میری نگاہیں اس نوخیز لڑکی کے چہرے کا تعاقب کر رہی تھیں۔ پھر وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی میرے قریب آئی۔ پھر میرے پاس کھڑی ہو کر اپنی پلکیں جھکا لیں۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’گھبرائیے مت۔ اور ہاں، مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وہ ہنسی۔
’ڈرنا ضروری ہوتا ہے کیا؟
’مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی خوف اور اندیشے نے آپ کو گھیر رکھا ہو‘
’خوف۔ اندیشہ۔‘ وہ پھر ہنسی۔

اس کے دانت موتیوں کی طرح چمک دار اور سفید نہیں تھے۔ چہرے پر اداسی تھی۔ مگر وہ کہہ رہی تھی کہ وہ خوف زدہ نہیں۔ پھر کیا ہو سکتا ہے۔

میں نے پھر پوچھا۔
’کیا آپ بھروسے پر یقین نہیں رکھتیں؟‘
نہیں، یہ کہہ کر وہ ہنسی۔
’بھروسا میں بچھو ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے بچھو۔‘
’اب یہ بچھو کہاں سے آ گئے؟‘
’جہاں سے بھروسا آیا۔‘ وہ آہستہ سے بولی۔

پھر وہ یادوں میں کھو گئی۔ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ وہ کچھ بتانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بولنے سے پہلے اس نے ٹھمکا لگایا۔ ایک باپ، ایک ماں، ایک میں اور ایک بدن کی آنچ۔

’بدن کی آنچ۔ ؟‘
’وہی ہزار بار سنی ہوئی کہانی۔‘

’مگر ہر بدن مختلف ہوتا ہے۔ بدن کی آنچ بھی مختلف۔ میرے باپ کو میرے بدن کی آنچ پسند آ گئی تھی۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اماں نے باپ کو زہر دے دیا اور ایک صبح جو گھر سے نکلی تو واپس نہیں آئی۔‘

’پھر؟‘

اس نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ یہ ایک میدان تھا، جہاں کچھ بچے پتنگ اڑا تھے۔ کچھ لوگ غور سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ لڑکی ان سب باتوں سے بے نیاز تھی۔ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

’وہاں دیکھو۔‘
’کیا ہے؟‘
’آسمان بھی بے لباس۔ اور وہ دیکھو
’چٹان؟‘
’چٹان نہیں مٹی کا ملبہ۔ وہ بھی بے لباس۔‘ اور وہ دیکھو۔
’وہاں، جہاں بچے پتنگ اڑا رہے ہیں۔ ؟‘
’ہاں۔ وہاں کی زمین کو دیکھو۔ زمین بھی بے لباس۔‘
وہ اچانک میری طرف مڑی۔
’زمین، آسمان، چٹان۔ تم نے کبھی ان کی بے لباسی محسوس کی؟‘
وہ دوبارہ ہنسی۔
’نہیں کرو گے۔ کبھی نہیں کرو گے۔ ہاں، مگر ایک عورت کی بے لباسی ضرور تلاش کر لو گے۔ تم سب ایک جیسے ہو۔
اس نے ایک پتھر کو ٹھوکر سے اچھالا اور آگے بڑھ گئی۔ ایک ہاتھ، ایک تربوز، ایک طلسمی گھر۔

میں بچوں کو پتنگ اڑاتے ہوئے دیر تک دیکھتا رہا۔ اس درمیاں لڑکی کا چہرہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments