واک: خواتین کی حصول اختیار کی تحریک


افغانستان میں امیرحبیب اللہ خان کے ناگہانی موت کے بعد ان کے بیٹے امان اللہ خان نے افغانستان کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔ امیر امان اللہ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں نئی قانونی اصلاحات متعارف کروائیں۔ ان اصلاحات کو نظام نامہ کہا جاتا تھا۔ ان اصلاحات کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔ ان اصلاحات کے بنیاد پر امیر امان خان کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ ان نظام ناموں میں ایک اہم نظام نامہ جو زیادہ متنازع رہا اور غازی امیر امان اللہ کے خلاف بغاوت کا سبب بھی بنا ، وہ نظام نامہ تعلیم نسواں کے متعلق تھا۔

اس قانون کے تحت ملک میں بچیوں کے لیے سکولوں کا قیام اور ان کو بنیادی حق تعلیم کی فراہمی کی بات کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت افغان معاشرے میں خواتین کے لئے حصول تعلیم شجر ممنوع تھا۔ اس وجہ سے افغانستان کے صوبے خوست سے مذکورہ قانون کے خلاف گوڈ ملا (ملا لنگڑا) کے قیادت میں ایک مسلح تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کو تو کچل دیا گیا لیکن مذکورہ سوچ اب تک افغان معاشرے میں کافی حد تک قائم اور دائم ہے۔

غازی امیر امان اللہ خان کی سوچ کے مطابق ”کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کی معراج پر نہیں پہنچ سکتی۔ ترقی کے عمل میں خواتین کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ بغیر تعلیم یافتہ ماں کے تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں لانا بے حد مشکل ہے“ ۔

اس سوچ کے علٰم کو غازی امیر اللہ خان کے دورحکومت کے تقریباً سو سال کے بعد خواتین نے خود ہی واک تحریک کے عنوان سے زندہ کیا۔ واک جو کہ پشتو زبان کا لفظ ہے ، اس لفظ کا بنیادی مطلب ہی اختیار ہے ، واک تحریک کی بنیاد سن دو ہزار اٹھارہ کے اکتوبر کے مہینے میں رکھی گئی۔ اس تحریک کے مقاصد غازی امیر امان اللہ خان کے ان کے مقاصد کو عملی شکل دینا ہے۔ واک تحریک کے مقاصد وہی ہیں جن کی وجہ سے امیر امان خان اپنی بادشاہت سے منفی پروپیگنڈے کے باعث دست بردار ہوئے تھے۔

ثنا اعجاز اس تحریک کی روح رواں ہیں۔ ان کے مطابق واک تحریک کی تنظم کا ہیڈکوارٹر پشاور میں ہے لیکن ان کی شاخیں مردان، خیبر، ژوب، کوئٹہ، اور افغانستان کے دارالحکومت کابل اور غازی امان اللہ خان کے دور میں تعلیم نسواں مخالف تحریک کے گڑھ صوبہ خوست میں موجود ہیں۔

ثنا اعجاز کے مطابق اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں حصول تعلیم، تعلیم کی اہمیت، خواتین میں سیاسی اور شعوری بیداری شامل ہے۔

واک تحریک نے تعلیم کی فروغ کے لیے بلوچستان کے ضلع ژوب میں خواتین کے لئے لائبریری قائم کی۔ اس لائبریری کی اٹھانوے فیصد کتابیں اور فرنیچر خواتین نے عطیہ کی ہیں۔ واک لائبریری میں دو ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔

ثنا اعجاز کے بقول : ’’واک تحریک لائبریریوں کے قیام کا تسلسل جاری رکھے گی۔ ژوب کے بعد پشاور اور مردان میں خواتین کے لئے لائبریریاں قائم کی جائیں گی۔‘‘

ثنا اعجاز اس تحریک کی روح رواں ہیں

واک تحریک نے ژوب لائبریری کے قیام سے حصول مقاصد کے تکمیل کے لیے اپنا پہلا عملی قدم اٹھایا ہے۔ جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ژوب جیسے قبائلی علاقے میں جہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا محال تھا۔ اب ژوب کی خواتین کتب بینی کے لئے واک لائبریری کا رخ کرتی ہیں۔

خالدہ وطنپالہ بھی انہی خواتین میں سے ایک ہے جو اب گھر سے نکل کر واک لائبریری میں مختلف موضوعات کی کتابیں پڑھتی ہے۔ خالدہ واک تحریک کو ناخواندہ معاشرے کے لیے ایک بہتر مستقبل کی کرن سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ اور ان جیسی دیگر نوجوان لڑکیاں یہاں روز آتی ہیں۔

اب وہ معمول سے ہٹ کر نئے موضوعات پر بات کرتی ہیں۔ ان کی نئی اہم خیال سہلیاں بن رہی ہیں جو کہ ان کے لیے ایک خوشگوار احساس اور مثبت تبدیلی ہے۔

یاد رہے واک تحریک کی تعلیم یافتہ پشتون نوجوان بھی ہر فورم پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک قدامت پسند معاشرے میں تبدیلی کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس رجحان کو دیکھ کر امید پیدا ہوئی کہ غازی امیر امان اللہ خان کا خواب پورا ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments