مستنصر حسین تارڑ کی کتاب’ہیلو ہالینڈ‘ میں علامہ اقبال کا ذکر


تارڑ صاحب کی تصنیف ”ہیلو ہالینڈ“ پڑھ  کر مجھے کافی تعجب ہوا کہ اس میں انہوں نے تقریباً چار جگہوں پر حضرت علامہ اقبالؒ کی فیملی کو موضوع بنایا ہے ، مجھے معلوم نہیں تارڑ صاحب کو علامہ اقبالؒ پر کیا غصہ تھا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے حالانکہ وہ اس سے پہلے علامہ اقبال کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتے تھے۔ کیا کہیں یہ وجہ تو نہیں جس کا ذکر انہوں نے خود ”ہیلو ہالینڈ“ کے صفحہ نمبر 107 پرکیا ہے؟:

میرا ایک نازک ملوک سا پوتا یاشار، ظفر علی روڈ پر واقع ”کڈز کیمپس“ میں نرسری کی کلاس میں کھیلتا کودتا ہے اور وہ اکثر رونی سی شکل بنا کر مجھے شکایت کرتا تھا کہ دادا، میری کلاس میں ایک موٹا سا بچہ سیفی ہے، جو مجھے مارتا ہے، تو میں اسے کہتا کہ یہ تو بہت بری بات ہے، تم ایک تارڑ دادا کے پوتے ہو۔ تم اسے کیوں نہیں مارتے؟ تو وہ روہانسا ہو کر کہتا، دادا وہ میرے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک روز اس کے سکول کی جانب سے پروانہ ملا کہ ہم ایک ”گرینڈ پیئرنٹ ڈے“ کا اہتمام کر رہے ہیں، آپ آئیے اور دیکھیے کہ آپ کے پوتے پوتیاں کس ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو میں اور میمونہ کشاں کشاں وہاں پہنچے، تو دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال اور ان کی اہلیہ ناصرہ اقبال بھی موجود ہیں۔

میں نے جسٹس صاحب سے استفسار کیا کہ حضور آپ کہاں؟ تو کہنے لگے، تارڑ صاحب میرا پوتا سیفی بھی یہاں پڑھتا ہے۔ کھلا یہ کہ میرے پوتے یاشار کو پھینٹی لگانے والا بچہ سیفی جاوید اقبال کا پوتا اور علامہ اقبال کا پڑپوتا ہے۔ تب میں نے بصد ادب جاوید اقبال سے گزارش کی کہ محترم بے شک ہم آپ اور آپ کے ابا جی علامہ اقبال کا بے حد احترام کرتے ہیں لیکن اگر آئندہ آپ کے پوتے نے ۔۔۔ علامہ اقبالؒ اپنی جگہ اور میرا پوتا یاشار اپنی جگہ ”۔

اصل مسئلہ یہ تھا، جہاں تارڑ صاحب کو اپنا کتھارسس کرنے کے لیے علامہ اقبال کی فیملی کو نشانہ بنانے کا سہارا لینا پڑا اور یہاں تک کہہ گئے کہ وین گو کے پوتے کو ہالینڈ میں آ کر اسی طرح قتل کر دیا جس طرح ہمارے ملک میں آ کر کوئی علامہ اقبالؒ کے پوتے کو قتل کر دے۔ حیرانی کی بات ہے کہ کہاں حضرت اقبال کا مقام و مرتبہ اور کہاں وین گو، کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ رہی بات جسٹس جاوید اقبال کو دھمکی دینے کی تو اتفاق سے وہ ویڈیو میری نظروں سے بھی گزری ہے، جہاں تارڑ صاحب اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے جاوید اقبال صاحب سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ مسکراہٹ اتنی ہے کہ ان کے سارے خوبصورت دانت آسانی سے گنے جا سکتے ہیں۔

تارڑ صاحب سنجیدہ شخص ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ انہوں نے نرسری اسکول کے بچوں کی اس معمولی سی پھینٹی کو کتاب میں شامل کیا۔ کل جب یہ بچے بڑے ہوں گے اور تارڑ صاحب کی کتاب پڑھیں گے تو ان کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ چار پانچ سال کے بچوں کے بارے میں یہ نفرت آمیز لہجہ کسی طور پر بھی ایک بڑے لکھاری کے لیے مناسب نہیں ہے۔ سیف اور یاشار دونوں اس قوم کا مستقبل ہیں۔ بجائے ان کے درمیان صلح کروانے کے، اشتعال دلانا اور یہ ترغیب دلانا کہ آپ بھی ویسا ہی کرتے، جیسے اس نے کیا ہے، کوئی مناسب حوصلہ افزائی نہیں ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ تارڑ صاحب کی ان کہانیوں کی بیس سال بعد کوئی اہمیت نہ رہے اور ان کے ناموں سے بھی لوگ واقف نہ ہوں، لیکن اقبالؒ اور اس کے کلام کو تو رہتی دنیا تک پڑھا اور یاد رکھا جائے گا۔ یہ طے شدہ ہے کہ چاند پر تھوکنے سے چاند کبھی میلا نہیں ہوتا۔ اسی طرح علامہ اقبال ایک شاعر اور فلسفی کے علاوہ ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق رسولﷺ ہی حاصل دنیا و دین ہے اور اس کا سرچشمہ وہ ذات اقدس ہے جس کے طفیل سارے عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں فرمایا ہے کہ ”ورفعنا لک ذکرک“ ۔ کہ اے محبوب ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے۔ تو اس کے ساتھ میرا تو عقیدہ ہے کہ جس نے بھی آقائے دو عالم ﷺ کی محبت اور ناموس کو مقدم رکھا، اللہ تعالیٰ نے اسے کو دونوں جہانوں میں عزتوں اور رفعتوں سے نواز دیا۔ اس کی عزتوں میں زید، بکر، کوئی بھی کمی نہیں لا سکا۔ بلکہ اس کی قبر کی مٹی بھی اس کے کفن کو چھونے سے کتراتی ہے۔

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments