پی ڈی ایم اور ’سب سے بھاری‘ کی سیاست


ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز حجم کے اعتبار سے بڑی ہوتی ہے اور طاقتور بھی ہوتی ہے تو تمام چھوٹی چیزیں اس کی اطاعت شروع کر دیتی ہیں اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ فی زمانہ یوں سمجھیں کہ عہدے اور اختیارات کے اعتبار سے جب کوئی طاقت ور شخص کسی کمزور کو کوئی حکم دیتا ہے تو کمزور شخص بلاچوں چرا اس کی تعمیل کرتا ہے۔ اس ضرب المثل کو اگر ملکی سیاست کے لیے استعمال کیا جائے تو کوئی غلط نہ ہو گا۔

یہاں پر طاقت کے اعتبار سے ایک ہی عہدہ قابل ذکر اور قابل توجہ ہے۔ اس عہدے کے پاس طاقت اور اختیارات کسی دیوہیکل ہاتھی کی طرح ہیں۔ لہٰذا اس ہاتھی کی خوشنودی کی خاطر ہر کوئی سرتسلیم خم کیے رکھتا ہے۔ کوئی جنگل میں رہ کر یا جنگل سے باہر نکل کر جتنا بھی شور مچا لے بالآخر اس نے کرنا وہی ہے جو طاقتور ہاتھی کی منشا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب دکھاوا ہے محض دنیا داری ہے۔

بات ضرب المثل سے شروع ہوئی تو ایک اور ضرب المثل بھی بہت مشہور اور بامعنی ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اور ’سب سے بھاری‘ سے زیادہ دودھ کا جلا اور کون ہو سکتا ہے لہٰذا اپوزیشن کے اتحاد کی چھاچھ بھی پھونک پھونک کی پی گئی اور اسی دوران یوسف رضا گیلانی کا بطور اپوزیشن لیڈر ایوان بالا کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔ یہ نوٹیفکیشن بھی اسی عطار کے لڑکے نے جاری کیا جس کے سبب میر بیمار ہوئے۔ اس نامزدگی کے بعد دیگر جماعتوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا خاص طور پر نون لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کے مطابق چیئرمین سینیٹ کی طرح اپوزیشن لیڈر بھی سلیکٹڈ ہے۔

اس سے قبل محترمہ مریم نواز بھی ایک ٹویٹ میں متبادل نامزد کی تلاش کا طنز کر چکی تھیں۔ احسن اقبال کے مطابق پی ڈی ایم کو دھچکا لگا ہے۔ مگر سب سے خوبصورت اور حقیقت پر مبنی تبصرہ صحافی مبشر زیدی نے کیا کہ جھگڑا صرف اس بات کا ہے کہ دوسرے کی درخواست پہلے کیوں قبول ہو گئی ورنہ لائن میں تو سب ہی لگے ہوئے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی پر مایوسی کا اظہار کرنے والی نون لیگی قیادت کو وہ وقت ضرور یاد آ رہا ہو گا جب اعظم نذیر تارڑ کو ایوان بالا کے لیے اپوزیشن لیڈر کا امیدوار بنایا گیا۔ اعظم نذیر تارڑ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی طرف سے وکیل تھے اور آصف علی زرداری نے پہلے نواز شریف، بعدازاں اسحاق ڈار سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس نامزدگی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا مگر نون لیگ اس نامزدگی پر ٹس سے مس نہیں ہوئی اور پیپلز پارٹی کے لیے یہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یوسف رضا گیلانی ایوان بالا کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اب پی ڈی ایم کا اتحاد کس کی ضد اور سیاسی فیصلے کی بھینٹ چڑھ گیا، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

رہی بات پی ڈی ایم کے مستقبل کی تو یہ اسی دن ہی تاریک ہو گیا تھا جب گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف نے تقریر کی تھی۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ اتنا بھاری تھا کہ ان کی اپنی پارٹی اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکی۔ اس تقریر کے بعد حمزہ شہباز نے مزید کچھ وقت قید میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور شہباز شریف تاحال اس بیانیے کے اثرات کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کا پی ڈی ایم کا جلسہ فلاپ ہوا۔

پیپلز پارٹی نے اس موقع پر پوزیشن لی اور نام لے کر الزامات لگانے کی مذمت کی۔ سیاسی ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لیا گیا اور اس کے بعد ملک بھر کے ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا گیا۔ گویا ہر وہ کوشش کی گئی جس سے پی ڈی ایم کے ہارڈ لائن موقف کو معمول پر لایا جا سکے۔

پیپلز پارٹی کے اس سارے عمل پر نون لیگی اور اس کے ہم خیال حلقوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کہا جا رہا ہے۔ اور یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی پریہ تأثر دیا جا رہا ہے کہ ڈیل ہو گئی ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کی 2018 کے عام انتخابات میں سندھ میں حکومت بنی مطلب یہ کہ پیپلز پارٹی اس وقت بھی طاقتور حلقوں کے لیے قابل قبول تھی اور اسی لیے وہ اقتدار کا حصہ بنی۔ وگرنہ آرٹی ایس سسٹم سندھ میں بھی کچھ وقت کے لیے بند ہو سکتا تھا جو کہ نہیں ہوا۔ جو کشتی پر سوار ہوں وہ کیا ڈیل کریں گے ڈیل تو انہوں نے کرنی تھی جو کشتی سے باہر تھے۔

اور سب جانتے ہیں کہ نون لیگ کشتی سے باہر ہے اور نون لیگ کی کشتی پر سوار ہونے کے لیے باپ اور بیٹا بالکل تیار ہیں اگر باپ اور بیٹی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے ان کے لیے کشتی پر سوار ہونے کا فی الوقت کوئی چانس نہیں ہے اور یہ بات نون لیگی ورکرز اور قیادت بخوبی جانتی ہے۔ اب جبکہ پی ڈی ایم سے ایک اہم جماعت عملی طور پر نکل چکی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی ماندہ جماعتوں کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ کیا باقی جماعتیں استعفے دیں گی یا صرف لانگ مارچ کریں گی۔ اگر صرف لانگ مارچ کرنا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کی بات رد کیوں کی گئی۔

دلچسپ امر یہ کہ پی ڈی ایم کا تاریک مستقبل اپنی جگہ مگر حکومت کی کارکردگی بھی ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مطلب یہ کہ حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں عوام کو کچھ بھی ڈلیور کرنے سے قاصر ہیں۔ تو کیا ملک کی سیاسی قیادت ناکام ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس مطلب طاقتور حلقوں کے نزدیک ابھی صدارتی نظام کا تجربہ باقی ہے اور سب اس تجربے میں بھرپور حصہ لیں گے کیوں کہ ضرب المثل ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments