دو خلیوں سے ایک صحت مند بچہ کیسےبنتا ہے


مناسب موقع اور سازگار حالات میں مرد و عورت کے باہم ملاپ سے ایک نئی حیات جنم لیتی ہے۔ دو خلیاتی جرثوموں سے شروع ہونے والے اس سفر کی منزل مقصود ایک صحت مند بچے کی پیدائش ہے جس کے سر پر خوش و خرم ماں کا سایہ قائم ہو۔

رحم مادر میں ننھے جنین کی مصروفیات

اس نئی زندگی کو سہارا دینے کے لئے ماں کے پورے جسمانی نظام میں غیر معمولی تغیرات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان گنت افعال اور کیمیائی عوامل پر مشتمل یہ متاثر کن آرکیسٹرا نو ماہ تک اپنا کورس جاری رکھتا ہے۔ حمل کے بائیسویں دن جرثومہ کے ایک مخصوص خلیے میں جب پہلی دفعہ خودکار دھڑکن جنم لیتی ہے تو طے ہو جاتا ہے کہ دل کی قیام گاہ اسی مقام پر ہو گی۔ ساتویں ہفتے میں دل کے چار خانے تشکیل پاتے ہیں اور اسی دوران گردے، جگر، پھیپڑے اور آنتوں کی کونپلیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔ آٹھویں ہفتے میں قدم رکھتے رکھتے ننھے جنین کے بدن کے ایک حصے میں چہرے کی بنیاد پڑتی ہے۔ جبکہ دسویں ہفتے میں اس سے جڑی دم غائب ہو جاتی ہے۔

پہلے تین ماہ کے خاتمے کے ساتھ ہی اسقاط کا خطرہ کئی گنا کم ہو جاتا ہے۔ اگلے ہفتے اگر جنین مادہ یعنی لڑکی ہے تو اس کی اپنی بیضہ دانی وجود میں آ جائے گی۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ شکم مادر میں چھوٹی سی بچی کی اپنی بیضہ دانی میں ایک سو سے ایک ہزار بیضہ یا انڈے موجود ہوتے ہیں!

حمل کے اٹھارہویں ہفتے میں ماں کو پیٹ میں حرکت محسوس ہونا شروع ہو سکتی ہے جبکہ ننھا جنین خود آس پاس سے آتی آواز سن سکتا ہے اور کچھ ہفتے بعد اپنا ردعمل بھی ظاہر کر سکتا ہے۔

اٹھارہ سے بیسویں ہفتے میں جنین کی جنس کا تعین ممکن ہو جاتا ہے۔ اکیسویں ہفتے تک سر کے بال، دانت کی داڑھ اگنے لگتی ہے۔ آنتوں سے باقاعدہ فضلہ خارج ہونے لگتا ہے۔ بائیسویں ہفتے میں ہارمون کا افراز ہوتا ہے اور ساتھ ہی لمس اور سونگھنے کی صلاحیت بیدار ہوجاتی ہے۔ 24 ہفتے پر پھیپھڑوں سے ایک سطحی محلول سرفیکٹنٹ کا اخراج ہوتا ہے۔ اسی ہفتے یہ جنین جس کا اوسط وزن بمشکل آدھ کلو کے قریب ہو گا مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ رہنے کے قابل ہو سکتا ہے اور بطن مادر سے جدائی کے باوجود نشوونما کی بقیہ منزلیں طے کر سکتا ہے۔

جنین کی نشو و نما اور ماں

رحم مادر میں پلتی حیات خود غذا حاصل کرنے، سانس لینے، فضلے کے اخراج اور میٹابولزم کے لئے ماں کے وجود کی محتاج ہوتی ہے۔ بدن میں یہ سارے افعال نال (پلاسنیٹا) کرتی ہے۔

مادر و جنین کی صحت

جس طرح آرکیسٹرا کے ہر رکن کا بروقت اور پرفیکٹ تال میل دلفریب اور مسحور کن موسیقی کو جنم دیتا ہے ، اسی طرح عین پرفارمنس کے دوران اگر قائد (کنڈکٹر) کو چھینک آ جائے، کسی گٹار کی تار ڈھیلی پڑ جائے یا طبلہ پر صرف ایک تھپکی غلط پڑ جائے تو پرفارمنس کیسی ہو گی! بالکل اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے اگر دوران حمل جنین یا ماں کی کسی پرانی یا نئی بیماری یا کسی غیر متوقع رکاوٹ سے ان دونوں میں سے کسی کو خطرہ درپیش ہو جائے۔ ایسے حمل کو ہائی رسک قرار دیا جاتا ہے اور ماہرین طب مادر و جنین سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ماہرین ماں کی اپنی صحت اور زندگی کو اولیت دیتے ہیں۔

زچہ خانے اور علم الولادہ

حضرت انسان کم از کم دو لاکھ سال سے اس سیارے پر سرگرداں ہیں۔ دو قدموں پر چلنے والی اس مخلوق کی مخصوص جسمانی ساخت کی وجہ سے زچگی میں خواتین کو دوسرے فرد کی لازمی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا سب سے پرانا پیشہ دائی یا مڈوائف کا ہے۔

زچگی ماں اور بچے کے لئے ہمیشہ ایک جان جوکھم کا مرحلہ رہا ہے۔ تاریخ کی طاقتور اور بارسوخ ترین شخصیات کے یہاں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی موت ایک انتہائی المناک حقیقت رہی ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی جس محبوب ترین ملکہ کی یاد میں تاج محل جیسی عظیم الشان عمارت قائم کی ، اس کا انتقال زچگی میں بچہ پھنس جانے سے ہوا۔ عشق و محبت کی اس لازوال داستان کا کلائمکس چودہ بچوں کی ولادت پر ہوا جن میں سے ایک دو نہیں بلکہ سات مرے ہوئے پیدا ہوئے یا ولادت کے فوراً بعد گزر گئے۔ مرزا غالب کے سات کے سات بچوں میں سے ایک بھی پندرہ ماہ سے زیادہ نہ جی سکا۔

جدید علم الولادہ
حالیہ تاریخ کی چار اختراعات نے دنیا کے قدیم ترین پیشے میں انقلاب برپا کر دیا:
1۔ انفیکشن کے متعلق سائنسی علم۔ زچہ خانوں میں حفظان صحت کے اصول اور جراثیم کش ماحول
2۔ انیستھیزیا اور بغیر درد زچگی
3۔ جدید سیزیرین سیکشن

4۔ الٹراساؤنڈ۔ دراصل الٹراساؤنڈ میں جدت کی بدولت پچھلے تیس سال میں آبسٹیٹرکس کی ایک جدید اضافی اسپیشلائزیشن وجود میں آ گئی ہے۔

طب مادر و جنین کا مقصد ہے:
جنین کی نشو و نما میں خلل کی بروقت تشخیص
کروموسوم کے نقائص کی سکریننگ
قبل از ولادت مسائل کی بحفاظت تشخیص
رحم مادر میں جنین کی جراحت
ماں میں وضع حمل کی بیہوشی ایکلامپسیا کا پہلے سے اندازہ لگانا اور روک تھام
قبل از وقت اور ادھورے بچے کی ولادت کے خطرے کی نشاندہی اور روک تھام
مرے ہوئے بچے کی ولادت کی پیشن گوئی اور روک تھام
جنین کی نشو و نما میں رکاوٹ کی بروقت تشخیص اور علاج
ایک سے زائد حمل، ذیابیطس، شدید موٹاپے وغیرہ کا پہلے سے ادراک اور محفوظ زچگی کی تیاری
قبل از ولادت جنین کی جراحی

کوکھ میں موجود غیر مولود کو خون چڑھانے سے لے کر کینسر کے علاج کے لئے لیزر تھراپی سمیت متعدد آپریشن ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

تحقیق کے مطابق عہد بلوغت کی بہت سی بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، موٹاپا اور ذیابیطس کا بیج قبل از ولادت جنین کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے پڑ جاتا ہے جو پھر پیدائشی کے تیس چالیس سال بعد ظاہر ہوتی ہیں۔

ماں اور بچوں کی اموات میں پاکستان کا مقام

پاکستان کا شمار عرصۂ دراز سے ان ممالک میں ہوتا چلا آ رہا ہے جن میں حمل اور وضع حمل زچہ و بچہ دونوں کے لئے موت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ زچگی کے دوران جان دینے والی ماؤں کی شرح جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں بہت اونچی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق مندرجہ ذیل ممالک میں ہر ایک ہزار ولادت میں مردہ بچے پیدا ہونے کی شرح 2019 میں کچھ یوں تھی:

پاکستان: 30
بھارت: 13
بنگلہ دیش: 24
افغانستان: 28
برطانیہ: 3
جبکہ پیدائش کے ایک سال کے اندر اس دنیا سے کوچ کرنے والے بچوں کا تقابل درج ذیل ہے:
پاکستان: 55
بھارت: 28
بنگلہ دیش: 25
افغانستان: 46
برطانیہ: 3
یہ اعداد و شمار انتہائی پریشان کن ہیں اور ریاست کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

الٹراساؤنڈ مشین کی قیمت

طب مادر و جنین میں اس شعبے کے تربیت یافتہ ماہرین کے علاوہ سب سے اہم کردار الٹراساؤنڈ مشین کا ہوتا ہے جس سے بار بار بچے کی نشوونما اور اس کے اہم اعضاء کی تشکیل و ترقی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ بہت اچھی پورٹیبل الٹراساؤنڈ مشین کی قیمت لگ بھگ 20 سے 25 ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ یہ اتنی ہی رقم ہے جس سے پاکستان میں ایک کرولا کار خریدی جا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں 2019 میں 50 ہزار سے زائد کرولا کار فروخت ہوئیں۔ سامان حرب سے موازنہ کریں تو ایم 311 آرمرڈ پرسونل کیرئیر جو سعد کے نام سے پاکستان میں تیار کیا جا رہا ہے کی قیمت تین لاکھ ڈالر ہے۔ جبکہ ایک ایف سولہ جہاز کی گھنٹہ بھر پرواز پر کئی ہزار ڈالر لاگت آتی ہے۔

شاہ جہاں اور غالب آج کیا کرتے؟

اپنے زمانے کے ذہین، روشن خیال اور ترقی پسند افراد ہونے کے ناتے آج کے دور کا شاہ جہاں حسین و جمیل مقبرہ بنانے کے بجائے ملک کے طول و عرض میں عمدہ زچہ خانوں کا جال بچھوا دیتا جہاں طب مادر و جنین کے قابل ماہرین کو ہیرے جواہرات میں تولا جاتا۔ مرزا غالب آج بادشاہوں اور ان کی ہتھیلی پر رکھی چھالیہ کے بجائے ماہرین طب اور عجائب خانۂ الٹراساونڈ پر قصیدے لکھا کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments