بیٹیاں ہیں یا وٹے


گھر میں صفائی کے لئے ایک لڑکی آئی ہے۔ قد لمبا اور ہاتھ پاؤں مضبوط ہیں لیکن منہ میں چیونگم اور چہرے کے لاابالی پن سے چھلکتا ہے کہ کم عمر ہے اور بات چیت کرنے سے پتہ چل گیا کہ صرف چودہ سال کی ہے اور ایک مہینہ پہلے شادی ہو چکی ہے۔ جبکہ چند دن پہلے ماں ایک اور بچی کو دنیا میں لا چکی ہے۔ اب وہ چار بہنیں ہیں اور بھائی صرف ایک ہے۔ نو دس سال کا۔

کیا کام کرتا ہے تمہارا میاں؟
دیہاڑی کرتا ہے جو کبھی ملتی ہے کبھی نہیں ملتی۔
پھر شادی کی جلدی کیا تھی تمہارے ماں باپ کو؟
وہ جی میں وٹے میں گئی ہوں۔ اس کی بہن کی شادی میرے ماموں سے ہوئی ہے۔

یہ روداد فیس بک وال پر لکھی ہماری پیاری رضوانہ علی سید صاحبہ نے۔ جو افسانے اور کہانیاں لکھتی ہیں اور احساسات کو لفظوں میں پروتی ہیں۔ رضوانہ اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہی ہوں گی ، جب صرف چند لمحات قبل کراچی میں اپنے سلمنگ سینٹر میں موجود اس لڑکی کی داستان سن رہی تھی جو ایک ناکام شادی کے بعد دبلی ہونے کے لئے جم جوائن کرنا چاہتی تھی تاکہ ایک اور شادی کر سکے۔

پہلی شادی ٹوٹنے کی وجہ یہ تھی کہ شوہر کو بیوی کے والد کی جائیداد سے حصہ چاہیے تھا، جائیداد سے حصہ حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ آزمایا گیا، پیار کا، مکر و حیلے کا، غصہ، تشدد، اس تشدد میں کرنٹ لگانا بھی شامل تھا، جس کی وجہ سے اس کا مس کیرج ہوا، وہ اسپتال پہنچائی گئی اور بالآخر تعلق طلاق پر ختم ہوا، ویسے بھی جائیداد سے حصہ ملنے کی امید نہ تھی، لیکن بیٹیوں کو انسان سمجھا نہیں جاتا، اس لیے اس کی ماں اور بھابھی ایک اور شادی کے لئے تیار کرنے کی تگ و دو میں لگ گئیں۔

رضوانہ صاحبہ نے محنت کش طبقے کی کہانی لکھی، پڑھے لکھے اور مراعات یافتہ طبقے کی خواتین کی الگ ہی مسائل ہیں، چند دن پہلے بھی ایک لڑکی نے سلمنگ سینٹر میں میرے سامنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، طلاق یافتہ ہے، تیس سے کم ہی ہے۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا طلاق کیوں ہوئی، پھٹ پڑی۔ پیسے کی وجہ سے، اکلوتی ہونے کی وجہ سے، چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں، شادی کے بعد جہیز کے سامان پر اعتراضات، پھر شوہر اور ساس نے پیسے مانگنے شروع کر دیے کہ باپ سے پیسہ لو، دبئی جا کر کاروبار کرنا ہے، اکلوتا بیٹا تھا، اچھی خاصی جاب ہے لیکن لوگوں کے لالچ کا حساب نہیں، لڑکی نے کہا، میں تو نہیں مانگتی، میرے والدین نے اتنا کچھ دے دیا، سلامی میں گاڑی دی، آخر اور کیوں دیں، پیسہ اس لیے نہیں ہے کہ بانٹا جائے، میں نے کہا دے دیتیں یار، کچھ نہیں ہوتا، بچے ہوتے ٹھیک ہو جاتا، کہنے لگی کیوں دیں اپنا پیسہ کسی کو۔

بچے بھی نہیں ہو رہے تھے، ایک سال شادی رہی، ساس ہر وقت سر پر سوار رہتی تھی، سسر بھی رات کو دروازہ بجا کر کچھ نہ کچھ پوچھتے رہتے تھے بیٹے سے۔ تنگ آ گئی تھی میں، جب اپنا پیسہ ہے تو کیوں کسی کو برداشت کیا جائے، اپنے والدین کے ساتھ خوش رہتی ہوں۔ بلاوجہ شادی کر کے بدنامی ہوئی، خلع کے لئے عدالت کے چکر لگائے، اب دوبارہ شادی نہیں کرنی، بنا شادی سکون میں ہوں۔

ایک اور خاتون کے الفاظ ”اس معاشرے میں پیسے کو بھی گالی بنا دیا گیا ہے، ہمارا پیسہ تو لعنت بن گیا ہمارے لئے، جو بھی رشتے داری جوڑنا چاہتا ہے پیسے کے لئے، ہماری کوئی حیثیت نہیں کیا“

ایسی کئی داستانیں سنتے رہتے ہیں جو جمع کر لی جائیں تو کئی ہزار صفحات کی کتاب بن جائے۔

ایک اور خاتون نے بتایا، میرے شوہر نے میرے والد سے پیسے لے کر کاروبار کیا، اب دوسری عورتوں پر لٹاتا ہے، اپنے آپ کو سلم اور قابل توجہ رکھنے کے لئے وہ سلمنگ سینٹر آتی ہے۔

ان سب ازدواجی مسائل کے باوجود جب ان سب خواتین کو یہ کہا جائے کہ آپ خود اپنا بزنس شروع کر دیں، اپنے لئے کوئی پروفیشن منتخب کر لیں، کام کریں، مصروف ہو جائیں تو اس پر بھی کوئی عورت تیار نہیں ہے جو تیار ہیں، ان کو معاشرہ جینے نہیں دیتا، عورت پر سماج کا دباؤ صرف شادی کے لئے ہے، نہ ہی تعلیم، نہ ہی معاشی خود مختاری نہ ہی اکیلی زندگی، لوگوں کو وہ عورت چاہیے، جس کا جسم ڈھلک جائے، کئی بچے ہوں، رنگ روپ صرف خیالی محبوبہ کا ہوتا ہے، حقیقی عورت کا رنگ روپ، توبہ توبہ۔ بے حیاء ہے۔ تیز طرار ہے، کام کرتی ہے ناں اس لیے اتنی تیز ہے۔

بیٹیوں کو ”وٹے“ کی طرح استعمال کرنے سے دینی حمیت یا غیرت نہیں جاگتی، غیرت صرف بیٹی کی خود مختاری پر جاگ جاتی ہے۔

جہاں خود مختاری ہے وہاں مشروط طور پر خود مختاری دی جاتی ہے، مثال کے طور پر شلوار قمیض یا عبایہ پہن کر بائیک چلاؤ، جینز پہن کر نہیں۔

لڑکیاں اگر یوگا اور اسپورٹس کے لئے پتلون پہنیں تو برا مانا جاتا ہے، لیکن اگر فوجی خاتون پتلون پہنے تو شاباش دی جاتی ہے یہ کیسا مضحکہ خیز تضاد ہے، گویا ہم با اختیار و خودمختار خاتون کو تب ہی قبول کریں گے جب وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دے۔

پرائیویٹ یونیورسٹی کا ماحول خراب ہے، سرکاری جامعہ میں پڑھو۔ آفس کی جاب نہیں کرو، کسی اسکول میں کرو، شاید صرف ٹیچر ہی قابل احترام ہے اور کوئی نہیں۔
زیادہ سے زیادہ بیوٹیشن بن جاؤ۔
شادی کر لو عمر نکل جائے گی۔ چاہے شادی کر کے مار کھاؤ یا کرنٹ کا تشدد برداشت کرو، لیکن بس کر لو۔

یعنی ہر طرح سے عورت کی خوشی کو مشروط کر دیا گیا ہے اور ان سب معاملات میں وہ خواتین بھی پیش پیش ہیں جن کی نہ ہی سوچ ذاتی ہے نہ ہی ذاتی موقف، بس وہ سنی سنائی روایات اور سماج کے مردوں کی طرح نیکی و پرہیزگاری کا دنیاوی لباس پہننا چاہتی ہیں، کہ ان کو نیک نام سمجھا جائے۔

ہمارے سماج میں حقوق و فرائض کی ادائیگی کے بجائے احسان اور ملکیت کا تصور ہے، ملکیت کا احساس اتنا شدید ہے کہ سماج کے مرد خود کو ہر عورت کی اصلاح کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور یہیں سے جبر کا آغاز ہوتا ہے جو سماجی برتاؤ کو غیر متوازن کرتا ہے۔ عورت کو بیٹی، بہن اور بیوی کی صورت میں دی جانے والی محبت اور آسانیوں کا پورا خراج وصول کیا جاتا ہے۔

اور جب عورت حق کی بات کرے تو پھر زبان سے وٹے برسائے جاتے ہیں، طاقتور با اختیار اپنے سامنے کیسے برداشت کرے کہ ملکیتی شے کہے، میرا اختیار یا میری مرضی، حالانکہ ملکیت کا تصور ہی جابرانہ ہے، مسئلہ صرف حقوق کو تسلیم کرنے کا ہے، مساوات کا ہے۔ متضاد اور متصادم بیانات کے پھیلاؤ کا ہے۔ سماجی و ازدواجی رویوں میں بہتری کا ہے۔ اور جلد یا بدیر یہ ماننا ہی ہو گا کہ اس ٹوٹے پھوٹے نظام میں تبدیلیوں کو جگہ دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments