کریمہ بلوچ کی موت کے تین مہینے بعد


آج سے کچھ مہینے پہلے یعنی گزشتہ سال 2020 کو دسمبر کے 22 تاریخ کو کریمہ بلوچ کی لاش ٹورنٹو (کینیڈا) پولیس کو اس کی گم ہونے کی ایک دن بعد ٹورنٹو کے واٹر فرنٹ نامی جگہ سے مل جاتی ہے۔

کریمہ بلوچ، جس کا تعلق بلوچستان سے تھا، ایک سیاسی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن تھی۔ کریمہ بلوچ کو کینیڈا کی حکومت سے 2016 سے سیاسی پناہ ملی ہوئی تھی اور وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اپنے بھائی اور شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔

کریمہ بلوچ کی موت سے دنیا بشمول پاکستان کے بلوچوں، انسانی حقوق کی کارکنوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، سیاسی بشمول ہر نقطہ نظر کے لوگوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوئیں اور ہر کوئی اس کی اچانک ایک دن غائب ہونے اور دوسرے دن لاش ملنے کی وجوہات کی جاننے کی جستجو میں بے چین اور فکر مند ہونے لگے تھے اور آج تک فکر مند اور تجسس میں مبتلا ہیں۔

مگر دوسری طرف ٹورنٹو پولیس نے اپنے سوشل میڈیا کے ٹیوٹر اکاؤنٹ سے یہ اطلاع دی کہ ”کریمہ بلوچ کی موت کی انکوائری کی گئی ہے اور تفتیش پے مامور پولیس اہلکاروں کے مطابق یہ نان کرمنل موت ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی مشکوک حرکت نہیں کی گئی اور تمام حقائق سے خاندان کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ’

اس وقت پولیس کے اس بیان پے کریمہ بلوچ کے شوہر حمل حیدر بلوچ جو خود بھی ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں اور لندن میں جلا وطن ہیں اس نے اس وقت ٹورنٹو پولیس کے اس بیان پے حیرت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو تفشیش کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے اور ہر ممکن زاویہ سے اس کیس کی تحقیقات کرنا چاہیے، دوسرے عام لفظوں میں کریمہ بلوچ کے شوہر حمل حیدر نے پولیس کے اس موقف کو رد کر دیا تھا کہ یہ ایک نان کرمنل موت ہے۔

میں نے ایک مہینے قبل کریمہ بلوچ کے بھائی سے ٹیلی فون پے رابطہ کیا اور اپنا تعارف کرانے کے بعد اس سے کریمہ بلوچ کے موت کے حوالے سے اپڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، کریمہ بلوچ کے بھائی نے کہا یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے لہذا پولیس تفشیس کر رہی ہے اور وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

کریمہ بلوچ کے بھائی کے جواب کے تناظر میں ایک ہفتہ بعد یعنی اسی مہینے کے پہلے ہفتے کو میں نے بھی ٹورنٹو پولیس سے پھر رابطہ کیا اور کریمہ بلوچ کی موت پر اپڈیٹ لینے کی کوشش کی مگر پولیس کا موقف وہی پرانا تھا کہ یہ ایک نان کرنمل موت ہے مگر جب میں نے اس سے پوچھا کیا پولیس نے کریمہ بلوچ کے موت کی انکوائری کو بند کیا ہے یا نہیں؟ تو پولیس نے مجھے اس مہینے یعنی تین مارچ کو یہ جواب دیا اور کہا کہ ”افسران نے اس کو غیر مجرمانہ موت قرار دیا ہے اور کسی بھی تفتیش کے مطابق، اگر مزید معلومات یا ثبوت سامنے آئے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے۔“ اس سے ظاھر ہوا کہ پولیس اپنے طرف سے کوئی تفتیش نہیں کر رہی ہے۔

اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ کریمہ بلوچ کے خاندان نے کریمہ بلوچ کے موت کے حوالے سے وکیل کرنے سے معذرت ظاہر کی ہے، اس بات کے حوالے سے میں نے امریکہ میں مقیم حمل کے ایک انتہائی قریبی دوست سے رابطہ کیا پوچھا کہ اس خبر میں کیا واقعی کوئی صداقت ہے تو جواب میں حمل حیدر کے دوست جو اس کے پارٹی کے سینئر ممبر بھی ہیں کہا کہ مجھے کوئی خبر نہیں کیونکہ حمل حیدر بلوچ نے اپنا نمبر تبدیل کر دیا ہے اور میرا اس اس سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے

بحیثیت ایک بلوچ میں اس بات پے اعتبار نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے یاد ہے کہ کریمہ بلوچ کے شوہر حمل حیدر نے اس کی موت کے دو مہینے بعد اپنے ایک انٹرویو میں جو اس نے بلوچی زبان میں دیا تھا یہ واضح طور پے کہا تھا کہ اگر سرکاری سطح پر کچھ ظاہر نہیں ہوا تو ہم قانونی طور پر ایک کرمنل وکیل کی خدمات حاصل کریں گے جو اس موت کے اسباب میں تسلی بخش جواب تک ہماری مدد کرے گا۔

میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ کریمہ بلوچ کے فیملی کو بلوچ قوم بشمول دنیا کے تمام انسانی حقوق کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مرحومہ بانک کریمہ بلوچ کے ہمدردوں کو یہ بتانا چاہیے کہ انھوں نے بانک کریمہ بلوچ کی قتل کے حوالے سے کون سے قانونی فرم کی خدمات حاصل کی ہیں یا حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اور کریمہ بلوچ کے کیس کے حوالے سے اب تک ان کی طرف سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں یا اقدامات کرنے کے ارادے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments