آپ اپنے وطن کی عورتوں کے ریپ پر بات کیوں نہیں کرتے؟



عورت مارچ پر میں نے ایک حضرت کے پلے کارڈ کی دل سے تصویر بنائی تھی۔ میں نے اخلاقی اصولوں کے تحت پہلے اجازت طلب کی اور پھر تصویر لی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ صاحب ہمارے ہی مارچ میں آ کر ہمارے ہی خلاف میڈیا پر زہر اگلیں گے۔ ان کے پلے کارڈ پر لکھا نعرہ ان مسلمان خواتین کے لئے تھا جن کا کوئی وطن نہیں۔ فیمنزم کے نزدیک کوئی جغرافیائی، مذہبی، معاشی، نسلی یا قومی تفریق نہیں کہ کسی خاص ملک، خطے، مذہب کی عورت کو ہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔

یہ ایک عالمی جنگ ہے، اور ہر نظام اور سماج میں آج تک لڑی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں رٹا لگتا ہے تو بنیادی طور پر کانسیپٹ سمجھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ باقی ان افراد اور سازشیوں کی کرم نوازی رہی جن کے نزدیک ہر نیا نظریہ جو مغلوب اور محکوم انسانوں کو مزاحمت اور آواز بلند کرنا سکھاتا ہو، غیر شرعی، غیر اخلاقی اور ملک دشمنی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

ایک یہ بات بھی عام ہے جہاں کی عورتیں کم لباس پہنتی ہوں، ان کو تمام بنیادی حقوق مثلاً شخصی آزادی، تحفظ اور برابری حاصل ہوتے ہے۔ یہ گماں بھی درست ہے کہ مشرقی پدرشاہی کے امتیازی ذہن میں بھی یہ بات کہیں نہ کہیں موجود ہے جہاں عورت من مرضی کا لباس پہننے کی آزادی رکھتی ہو، وہ خوش ہوتی ہے۔ جب ہی مقامی پدرشاہی لباس اور بدن کی سیاست سے ہی باہر نہیں نکل سکی۔

میں نے جب ان صاحب کو ٹی وی پر عورت مارچ میں عورت مارچ کے خلاف زہر اگلتے ہوئے سنا تو ایسی سوچ پر خاصا افسوس ہوا جو انسانوں کے خون پر پلتی ہے، بالخصوص اپنوں کے۔ کس قدر احمقانہ بات ہے کہ کوئی اپنے ملک میں اپنی آنکھوں کے سامنے موت اور ظلم دیکھتا ہو مگر اس کو جس ظلم کی پرواہ ہو وہ ملک سے کوسوں دور ہو۔ مثال کے طور پر اس شخص کی معاشرے میں اور دوست احباب کی نظر میں کتنی عزت اور انسانی وقعت ہوگی جو اپنی ماں کی بجائے دوسروں کی ماؤں کا احترام کرتا ہو یا اپنے گھر والوں کو ترستا چھوڑ کر مال و دولت دوسروں پر خرچ کرتا ہو۔ ایسا شخص حج تو ہر برس کرتا ہو، مگر اس کی اولاد دوا یا گھر سے محروم ہو تو حج کرنے کا روحانی فائدہ بھی رائیگاں جائے گا۔

اس ملک کے لوگوں کو اپنے ملک کی عورتوں پر ہوتا دن رات، صبح و شام تشدد نظر نہیں آتا مگر جیسے ہی چند عورتیں اس پر آواز بلند کریں تو وطن کی ہر مظلوم عورت کو دھتکار کر مسلم دنیا کی ہر مظلوم عورت کا درد کاٹنے کو دوڑے گا۔ ہم پاکستان میں جنسی تشدد پر گفتگو یا مارچ کریں تو ان کو کشمیر تا فلسطین تک کی عورتوں پر ہوا جنسی تشدد یاد آتا ہے۔ خدا کشمیر اور فلسطیں سمیت دنیا کی ہر مغلوب و محکوم قوم اور وہاں کی بہادر عورتوں کو ہمت اور طاقت دے۔

لیکن اس ملک کی عورتوں کو ڈھٹائی سے باور کروایا جاتا ہے کہ ہم نے کبھی چیچنیا یا بوسنیا میں ہونے والے مظالم پر مارچ کیوں نہیں کیا۔ ظلم کے خیر خواہوں کو پاکستان کی عورت مارچ کے موقع پر دنیا کی ہر عورت کا درد ہوتا ہے سوائے پاکستان کی عورت کے۔ یہ الفاظ ترش ہیں مگر حقیقت کے عین مطابق ہیں کہ آپ باریک بین ہیں نہ ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت قدرت سے عطا ہوئی، خاصے منافق اور شعوری طور پر مجرم ہیں۔ کسی میت پر جا کر لواحقین کو یہ کہہ کر دلاسا نہیں دیا جاتا کہ ان کا بھی کوئی اپنا چل بسا تھا۔ آپ کا دوست اپنی تکلیف بیان کر رہا ہو اور اس کی تکلیف اور آپ پر دوست کے اعتماد کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے کہ فلاں وقت میں آپ کو بھی وہی تکلیف ہوئی تھی، کہیں کی بھی عقل نہیں ہے۔

ہر موقع پر پاکستان کی عورتوں سے یہ سوال کرنا کہ کشمیر اور چیچنیا میں ہونے والے ریپ پر بات کیوں نہیں کی جاتی، ایسا ہی کہ آپ میت پر جائیں اور وہاں خوشی کا ڈھول پیٹیں۔ کیونکہ ناسمجھ اور بے شرم کی مساوی تعریف ایسے لوگوں پر دونوں صورتوں میں لاگو ہوگی۔ ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے والوں سے یہ کہنا کہ دوسروں کے ظلم پر ہی بات کریں، صرف اپنا رونا مت روئیں، احمقانہ، غافللانہ اور منافقانہ ہیں بلکہ ظالمانہ ہے۔

آپ کے گھر میں آگ لگی ہو تو کیا آپ اپنے پیاروں کو بچانے کی جدوجہد کریں گے یا محلے کے دیگر گھروں کو بچائیں گے؟ تو جب اس ملک کی بچیاں، بچے اور خواتین کی دن دھاڑے اور رات کے پردے میں تشدد زدہ روندی گئی، پھٹے گوشت کے ریشوں اور برہنہ بدن سے خون ٹپکاتی لاشیں ملتی ہیں تو اس ملک کے تشدد آلود لوگوں کو چیچنیا اور صومالیہ کا ظلم کو ستم کیوں تکلیف دیتا ہے؟ دنیا کی ہر مظلوم مسلمان قوم کا حوالہ دے کر اپنے ملک کے حوالوں کو سوچے سمجھے متشدد منصوبے کے تحت کیوں رد کر دیا جاتا ہے؟

دہشت گردی کی جنگ میں روزانہ پاکستانی فوجیوں اور پولیس کے سپاہیوں کی جانیں جاتی تھیں، تب کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ عراق میں بھی روز فوجی جوان اور پولس کے سپاہی دھماکوں میں جان سے جاتے ہیں کیونکہ یہ سمجھدارانہ بات نہیں، مگر جیسے ہی پاکستان کی عورت پر ظلم کی بات ہو، ان کو کاشغر سے نیل تک کی عورتوں کے درد دکھ دینا شروع کرتے ہیں، وہ بھی ان مسلمان عورتوں کا درد درد دکھتا ہے جو ظلم کفار کریں، عرب و عجم میں چاہے لاکھوں عورتیں اپنے باپ، بھائی، شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوں، وہ ان کی غیرت و حمیت کا نشان ٹھہر جاتا ہے۔

یہ پاکستانی لونڈے، کشمیر کی نڈر اور بہادر خواتین کی عزت نہیں کرتے، ہندوستان سے بس نفرت کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جب بھی کسی بھائی نے بہن کو قتل کیا، کسی نے اس پر یہاں سے بات نہیں کی نہ اس کشمیری بہن کا درد محسوس کیا گیا۔ پاکستان کے عورت دشمن لونڈے پاکستانی عورت کی انسان تلفی کی خاطر غیر مرئی حوروں کی پاکدامنی کے دفاع میں احمقانہ طور پر ابل پڑتے ہیں، مگر گلی سے ملی لاش کے کردار کی تحقیر کرنا نہیں بھولیں گے۔ نفرت اور تشدد میں پاگل ہوئے، کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، جو ان کو پھانسی گھاٹ اور پچس سال قید تک یقین لے جانے کی سکت رکھتا ہے۔ جن کی بیٹیاں اور بہنیں ان جیسے مردوں کے ہاتھوں درندگی کا نشانہ بنتی ہیں وہ نہ تو صومالیہ کی بہنوں کی عزت کا سوچتا ہے نہ چیچنیا کی۔

اپنے گھر میں انسانیت اور عورت کا احترام سکھایا اور اسکول میں پڑھایا گیا ہو تو نوبت یہاں تک آتی ہی نہیں۔ اگر کشمیر کی بہنوں کا خیال سچا ہوتا تو آج کشمیر دہائیوں سے اٹکا ہوتا نہ وہاں کے آزادی پسند بہادر انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ہوتی۔ جہاد، جنگ اور طاقت اپنے ہاتھ کی سرسوں سمجھنے والا مرد دوست نظام اور ماحول توقع بھی عورت سے کرتا ہے کہ ان کے نظریاتی اساس کی بات ہو تو ہم ہی کریں، جائیں جا کر وہاں جہاد کریں، آزاد کریں، ریاست کی ساری بھاگ دوڑ مردوں کے ہاتھ میں، حکومت اور فوج یہ چلائیں، اور کشمیر آزاد ہم کرائیں؟

کشمیر اور فلسطین جائیں اور جہاد فرض سبیل اللہ کریں۔ ہمارا اسرائیل اور بھارت اس ملک کے متشدد اور ریپ دوست مرد ہیں، جن کے خلاف ہماری جہاد صبح و شام جاری رہتی ہے۔ یہ ایسی جہاد ہے جہاں نماز کا وقفہ ہو تو ہم ایک محفوظ جگہ کی متلاشی ہیں جہاں لوگ ہمارے سجدوں اور قیام کی چھپ کر فلم بندی نہ کرسکیں۔ ایسی ہے ہماری جہاد۔ بھارت تو دور، ہمارے اول دشمن تو ایسے لوگ ہیں۔ جن کی ہوس کے غیض و غضب سے سب بیٹیاں چھپاتے ہیں۔

کشمیر کی جدوجہد آزادی میں کشمیر کوہ شکن خواتین کی قربانی اور حصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت ہار نہیں مانتی، خواہ سامنے غالب اور جابر دشمن کے فوجی ہوں یا ظلم روکنے کی بجائے فقط باتیں بنانے والے۔ فیمنزم رنگ دیکھتی ہے نہ ملک، خطہ، نہ مذہب نہ نسل، اس کا تعلق عالمی طور پر ہر عورت کو اس تاریخی تشدد اور انتظامی نا انصافی کے چنگل سے آزاد کرنا ہے جس میں قید رہنے کی خواہش پاکستان کی ”باحیا“ عورت کو مرد سکھاتے ہیں۔

فیمنزم کی تحریک نے ریپ جو مرد کا ایجاد کردہ ہتھیار ہے کو ہمیشہ سے للکارا ہے، ریپ کے خلاف جہاد عورت کا شروع کردہ ہے، ہمارے لئے دجال بہت پہلے سے عورت دشمنوں کی شکل میں موجود ہے۔ عورت نہ تو کسی کی جاگیر ہے نہ ہی اس کی کوئی مالیت یا دام ہے۔ مردوں کی دنیا میں مردوں نے جنگ کے اصول بنائے اور اس میں بھی عورت کے جنسی و جسمانی تشخص کو اپنی ہوس اور لذت کا ساماں بنایا۔ جب کوئی عورت ریپ ہوتی ہے، وہ نہ تو اپنی قومیت کا سوچ رہی ہوتی ہے، نہ مذہب کا نہ نظریاتی لگاو کا، وہ تو اس کی جان پر قیامت ہوتی ہے جو اس پر اس لئے برستی ہے کہ وہ عورت ہے، سامنے والا دشمن ملک کا فوجی ہو، کافر ہو یا مسلمان، سامنے صرف ایک مرد ہوتا ہے جو عورت کو اپنا مال سمجھ کر اس سوچ کی سعی کرتا ہے جس کا پرچار اس ملک میں آئے روز عورت دشمن اور بے وزن میڈیا، بیٹھکوں اور مرد مارچ جیسے ناٹکوں میں ہوتا ہے۔

آپ کی زباں اور دل اس ملک کی عورت چاہے وہ امیر ہو یا غریب، جینز والی ہا یا شلوار قمیض والی، گوری ہو یا سانولی، پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ، تین برس کی ہو یا تیس کی، کنواری ہو یا شادی شدہ، سگی بہن ہو یا کوئی اجنبی راہ چلتی، عورت پر ہونے والے تاریخی، تمدنی، ثقافتی، روایتی، معاشی، سیاسی، سماجی، جسمانی، ازدواجی اور جنسی تشدد کو یہ کہہ کر تلف کرنے کی جرات کرتا ہے تو آپ بھی اس بھارتی یا سربین فوجی کے ساتھ آخرت میں اٹھائیں جائیں گے جس نے کشمیر اور چیچنیا میں ریپ کو ہتھیار اور قومی برتری کے نشان کے طور پر استعمال کیا۔ خدا ظالموں کی عاقبت ایک سی کرے اور ایک ساتھ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments