نئی عالمی پیش رفت اور خطے میں ابھرتا نیا ممکنہ اتحاد


ایران اور چین نے آپس میں قریبی اسٹریٹیجک تعاون کے ایک پچیس سالہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ پیش رفت کئی برسوں کے مذاکرات کا نتیجہ ہے، اس معاہدے کے لیے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات 2016 ء سے جاری تھے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا۔ دوسری جانب ایک اور سالگرہ تھی جہاں دھوم دھڑکا بھی تھا اور ہنگامہ خیزی بھی، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بنگلہ دیش کے قیام کی پچاسویں سالگرہ اور شیخ مجیب الرحمان کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے 26 مارچ کو ڈھاکہ پہنچے اور ان کے دورے کے خلاف بنگلہ دیش کے کئی شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

مودی کے خلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں پر بنگلہ دیشی عوام کی جانب سے ’یوم دعا‘ اور یوم سوگ منایا گیا، جب پر تشدد واقعات کے نتیجے میں درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ بنگلہ دیشی حکام کے مطابق 13 مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تاہم احتجاج کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ 17 کار کن ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ مظاہرین مودی کی مبینہ مسلم دشمن پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ پہلے روز مودی کے خلاف مظاہرے ڈھاکا اور چٹاگانگ تک ہی محدود تھے بعد ازاں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد غم وغصے کی لہر تقریباً تمام شہروں تک پھیل گئی۔

مظاہرین کا موقف تھا کہ مودی اور اس کی ہندو قوم پرست جماعت بھارت میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے میں ملوث ہے، سرحد پر بھارتی فورسز کی جا نب سے بنگلہ دیش کے شہریوں کو بھی بلاجوازفائرنگ کر کے ماردیا جاتا ہے جبکہ بھارتی حکومت اس سے قطعاً انکاری ہے۔ مودی کی شخصیت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہر جانب اسے سبکی کا سامنا ہے جہاں جاتا ہے جگ ہنسائی اس کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے۔ اس عمل میں اس کی اپنی بڑبولیاں اور کارستانیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔

بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی میں شامل ہو نے کی وجہ سے ا نہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا اوروہ جیل میں پابند سلاسل رہے تھے۔ مودی کے اس دعوے پر بھارت میں شدید رد عمل ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی کا دعوی جھوٹاقراردیا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے زبردست بحث چھڑ گئی اوربیشتر بھارتی شہریوں نے بھی مودی پرصریحا ًجھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا۔ اکثریت نے مودی کاتمسخر اڑاتے ہوئے لکھا کہ ’مودی تو نیلسن منڈیلا کے ساتھ بھی جیل میں موجود تھے‘ ۔

پانچ برس قبل مئی 2016 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کی موجودگی میں اس معاہدے پربھارت کے حکومتی ادارے IRCON (انڈین ریلوے کنسٹرکشن لمیٹڈ) اور ایرانی وزارت ریلوے کے درمیان بڑے دھوم دھام کے ساتھ ایران کے چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدے پردستخط ہوئے تھے۔ جس کا مقصد پاکستان کو علیحدہ رکھتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک متبادل تجارتی راستہ تعمیر کرنا تھا۔

یہ تجارتی راستہ بھارتی ریاست گجرات کو ایرانی بندرگاہ سے جوڑتا۔ بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ارکون کے انجینئروں کے متعدد سائٹ وزٹ کے باوجود بھارت نے پروجیکٹ پر کام کا آغاز ہی نہیں کیا، جس کی ایک وجہ امریکا کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کا خدشہ بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ امریکا نے چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کے پروجیکٹ کو پابندیوں سے چھوٹ دے رکھی ہے لیکن امریکا کی ناراضگی کے خوف سے کوئی بھی کمپنی ساز و سامان سپلائی کرنے سے گھبرا رہی ہے۔ بھارت امریکی پابندیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی ایران سے تیل کی درآمدات بند کرچکا ہے۔

ایران نے نئی دہلی پر تاخیر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے 1.6 ارب ڈالر کے چاہ بہار ریلوے پروجیکٹ سے بھارت کو نکال باہر کیا اور اب اس پروجیکٹ کو اپنے طور پر مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران نے یہ غیر معمولی قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب اس نے چین کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے 25 سالہ اقتصادی اور سیکورٹی معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران میں بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، بندرگاہوں، ریلوے اور درجنوں دیگر ترقیاتی پروگراموں میں چین کی موجودگی نمایاں طور پردکھائی دے گی۔

بھارت نے اس پیش رفت پر فی الحال کسی ردعمل کا اظہارنہیں کیا ہے۔ تہران نے بھارت سے مالی امداد کے بغیر اب خود ہی 628 کلومیٹر طویل ’چاہ بہار۔ زاہدان ریلوے پروجیکٹ‘ پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جسے مارچ 2022 تک مکمل کر لیا جائے گا جس کے لئے ایران کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈ سے 400 ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔

اسٹریٹیجک تعاون کے نتیجے میں ایران اور چین کے مابین مضبوط شراکت داری خطے کی صورتحال میں نمایاں تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ طویل المدتی معاہدہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ایران کو درپیش کئی متنوع اقتصادی امور کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے تحت بیجنگ اور تہران آپس میں سیاحتی اور ثقافتی تبادلے بھی کر سکیں گے۔ اس دوطرفہ معاہدے کو ’جامع اسٹریٹیجک شراکت داری‘ کا نام دیا گیا ہے جو کہ تیل کی صنعت اور کان کنی سے لے کر صنعتی کارکردگی میں اضافے تک کئی طرح کی اقتصادی سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔

واضح رہے کہ چین کے ساتھ کیا جانے والا یہ معاہدہ ایران کے لیے کسی بڑی عالمی طاقت کے ساتھ کیا گیا پہلا طویل المدتی سمجھوتہ ہے۔ اس سے قبل 2001 ء میں ایران نے روس کے ساتھ بھی زیادہ تر جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، مگر اس معاہدے کی مدت محض دس سال تھی۔ تجارت اور فوجی معاملات میں طویل مدتی تعاون کے سلسلے میں ایران اور چین ایک اہم معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ مجوزہ معاہدہ امریکا کے لیے شکست سے کم نہ ہوگا اور خطے میں یہ نئی پیش رفت مشرقی طاقتوں کو دوبارہ متحد کر سکتی ہے۔ چین کی جانب سے ایران میں آئندہ 25 سال کے دوران 400 ارب امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ چین کی یہ بھاری سرمایہ کاری سڑکوں کی تعمیر، ریلوے ٹریک، بندرگاہوں اور دیگر بنیادوں ڈھانچوں کے منصوبوں سمیت سیاحت اور تیل و گیس کی صنعت میں استعمال کی جائے گی۔ اس کے علاوہ چین کی جانب سے ایرانی بینکوں اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔

اس کے بدلے میں چین کو ایران سستے داموں پر تیل فروخت کرے گا۔ معاہدے کے تحت مشترکہ تربیتی مشقوں کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی تحقیق اور پیداوار کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معلومات کا تبادلہ بھی کریں گی۔ دوسری جانب خطے میں روسی اور چینی دستوں کی موجودگی اس نئے مشرقی اتحادکو مضبوطی فراہم کرے گی اور اس کے دیگر علاقائی فریقین اور ان کے اتحادیوں پر بھی دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو کہ مغرب کے اہم اتحادی ہیں، اس پیش رفت کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔ ان کی توجہ بھی اب صرف مغرب پر مرکوز نہیں رہے گی، خلیجی ریاستوں میں پہلی چینی ہتھیاروں کی ڈیل اس بات کی نشاندہی ہے۔

ایک اور محاذ پر نظر دوڑائیں تو افغانستان میں طالبان نے استعماری قوتوں کو واضح طور پردھمکایا ہے کہ اگر وہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن واپس لینے کے لئے تیارنہیں ہوئے تو افغا ستان میں غیر ملکی فوجیوں کے خلاف دوبارہ مزاحمت شروع کردیں گے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے پیشرو صدور کی مانند کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کی افغانستان سے مکمل واپسی فوری طور پرمشکل ہے۔ طالبان اور کابل حکومت کے جاری مذاکرات کی معطلی کو افغا ن امن عمل کے لیے ایک دھچکا ہے۔ عالمی بساط پر اب امریکا کی بھارت سے قربت کے بعد ایشیا میں چین اور ایران کی شراکت کے ساتھ پاکستان اور ترکی کی قربتوں نے نئے عالمی اتحادوں کو پہلے ہی جنم دے دیا ہے۔ آنے والا دور ان اتحاد وں کے زیر اثر دنیا پر نئے اثرات مرتب کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments