ڈیئر ہیلری کلنٹن: دس از ناٹ فیئر


حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی عبرتناک شکست کو ان کے لئے ہضم کرنا بہت مشکل ثابت ہوا۔ ان کے حامی سڑکوں پر آ گئے اور دنیا نے ایسے نظارے دیکھے جن کی امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، خود سابق صدر کے منہ میں جو آیا وہ اگلتے گئے، جس سے حالات مزید بگڑ ے اور سوشل میڈیا پر ان کے اکاؤنٹس کو بند کرنا پڑا۔ اس دوران ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ان کو ہروانے اور انتخابات میں دھاندلی کروانے میں ڈیپ اسٹیٹ (جسے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں) کا کردار ہے۔ بہت سے امریکیوں کے لیے یہ نئی بات تھی کہ یہ ڈیپ اسٹیٹ کس چڑیا یا عقاب کا نام ہے؟ ان کی اس لاعلمی پر حیرت کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے مسائل عموماً تیسری دنیا کے ہوتے ہیں۔

ایک ٹی وی چینل پر سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو خاتون میزبان نے انٹرویو کے دوران جب پوچھا کہ یہ ڈیپ اسٹیٹ کیا ہوتی ہے تو انہوں نے بلاجھجک دنیا میں موجود 195 ملکوں میں مثال دینے کے لیے یہ اعزاز پاکستان کو بخشا کہ یہ ٹرم سیاسی سائنسدانوں نے ایسے ملکوں کے لیے ایجاد کی ہے کہ جو فوج اور خفیہ ایجنسیاں چلاتی ہیں اور اگر آپ منتخب بھی ہو جائیں اور وہ (فوج و خفیہ ایجنسیاں) آپ کو پسند نہ کریں یا آپ ان کو کراس کریں تو آپ اپنے آپ کو آؤٹ سمجھیں، آپ گرفتار ہو سکتے ہیں، آپ پر الزامات لگ سکتے ہیں، آپ کو ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے اور آپ مارے بھی جا سکتے ہیں ”مثال کے طور پر پاکستان“ ۔

( ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی اور گاہے بگاہے اب بھی اچانک کہیں نہ کہیں سامنے آ جاتی ہے جیسے یہ ویڈیو ہمارا منہ چڑا رہی ہو)

ڈیئر ہیلری کلنٹن اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر حکمرانی بالواسطہ یا بلا واسطہ ( بقول آپ کے ) ڈیپ اسٹیٹ کے نمائندوں کی رہی ہے (یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اس لیے انکار ناممکن ہے) اور ہاں کیا ہوا جو ہمارے پہلے وزیراعظم بھرے مجمعے میں گولی کا نشانہ بنے، یہ مثال تو اور ملکوں میں بھی ملتی ہے آپ کے اپنے مقبول ترین صدر جے۔ ایف کینیڈی اسی طرح رخصت ہوئے تھے۔ ہاں بانی پاکستان کی ایمبولینس کا خراب ہونا اور ان کی موت پر بھی بہت سی سازشی تھیوریاں پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں، تو کیا ہوا؟ کبھی کچھ ثابت تو نہیں ہوا نا، اب تو لوگ ہمارے عظیم لیڈر محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی موت کو بھی قتل قرار دے رہے ہیں کیونکہ جنرل ایوب کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہی بنی ہوئی تھیں۔

ڈیئر ہیلری اتنی سی بات پہ آپ کا ہمیں ایسے رسوا کرنا تو نہیں بنتا تھا۔

چلیں مان لیا شروع میں ہماری نوزائیدہ مملکت کی حکمرانی سول بیورو کریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک رسہ کشی کی صورت میں رہی لیکن پھر کمال بہادری اور سمجھداری سے فتح ملٹری کی ہوئی اور جنرل ایوب ملک میں مارشل لاء لگانے میں کامیاب ہو گئے، جی ہاں یہ وہی جنرل ایوب ہیں (بقول آپ کے ڈیپ اسٹیٹ کے نمائندہ) جن کا آپ لوگوں نے تاریخی پرتپاک استقبال کیا تھا، ٹھیک ہے ہم آپ کی اس وقت کی مجبوری سمجھتے ہیں وہ ”کولڈ وار“ کا زمانہ تھا، آپ کو اس خطے میں پاکستان جیسی ایک اسٹیٹ اور ایوب جیسے ایک حکمران کی ضرورت تھی لیکن پھر بھی ایسا استقبال؟ کہ آج بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو وقتی طور پر عجیب سے غرور کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جیسے کوئی لاغر تھکا ہارا بوڑھا اپنی پرزور، خوبصورت جوانی کو دیکھ رہا ہوں (مثال تو ذہن میں اور بھی آ رہی ہے لیکن خیر چھوڑیں)

چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ایوب کے بعد جنرل یحیی خان کی حکمرانی میں انیس سو اکہتر کی جنگ کا ذلت آمیز سانحہ ہوا، فوجی دشمن کے قیدی بن گئے، ملک دولخت ہوا، تو کیا ہوا؟ حکمرانوں سے غلطیاں بھی تو ہو سکتی ہیں نشے کی حالت میں تو کار چلانا مشکل ہوتا ہے اور کہاں ملک چلانا، ویسے بھی بنگالی بہت ناہنجارثابت ہوئے۔ کیا ہوا جو انتخابات میں ان کی اکثریت تھی ملک کی حکمرانی کے لئے رنگ اور قد کاٹھ کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے، لو بتاؤ؟ وہ بنگالی تو اس بات کو لے کر اکڑ ہی گئے، پھر یہ تو ہونا تھا، یہ الگ بات ہے کہ حال ہی میں بنگلا دیش نے اپنے 50 سالہ جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کے مقابلے میں ترقی کے جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان کے مطابق وہ ہر میدان میں آگے نکل گئے ہیں، ہماری بلا سے وہ بے شک چاند پر جائیں ”ہم ادھر خوش وہ ادھرخوش“ ۔

لیکن اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کو کچھ ٹف ٹائم تو دیا تھا اور آپ کو ان سے شکوے بھی ہونے لگے تھے اور جب ڈیپ اسٹیٹ کے ایک اور نمائندہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر بھٹو کا عدالتی قتل کروایا تو وہی جنرل ضیاء آپ کی ناک کا بال بن گیا تھا، اس خطے میں آپ کے مفادات کے تحفظ کے لیے جنرل صاحب نے اپنے اجداد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا اور دنیا میں طاقت کے توازن کا سارا پلڑا آپ کی طرف جھک گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس خادم کی ناگہانی موت کے بعد کچھ انگلیاں بحراوقیانوس کے پار کی طرف بھی اٹھی تھیں۔

اس کے بعد آپ کے ان دوستوں کے چھوڑے نظام کی بدولت وزارت عظمی ایک شٹل کاک بن گئی کبھی نواز شریف تو کبھی بے نظیر، کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ اورپھر روشن خیالی کے نمائندہ حکمران جنرل مشرف کی آمد ہوئی یعنی جنرل ضیاءالحق کی سوچ کے عین مخالف لیکن آپ کی تابعداری میں دونوں حکمرانوں کا نظریہ ایک ہی تھا، ہیلری صاحبہ ایسی لگژری آپ کو کہاں ملے گی کہ ایک فون کال پر پوری ریاست آپ کے سامنے ہوشیارباش کھڑی ہو کر آپ کے لیے پہاڑوں سے جا ٹکرائے، وہ بھی ہمیشہ کی طرح ”چند مونگ پھلی کے دانوں پر“۔

ڈیئر ہیلری کلنٹن آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، یہ اسٹیٹ اتنی ساری خدمات کے باوجود آپ ہی کی ایک بڑی گاہک ہے اور آپ دکاندار، (بڑے بڑے بہی کھاتے رجسٹروں کے ساتھ) ۔

بری، بحری اور فضائی رونقیں، 23 مارچ کی پریڈ کے پر فخر فلائنگ پاسٹس اور مارچ کا ایک بڑا حصہ آپ ہی سے خریدی گئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہے جو عوام نے ”صرف عوام نے“ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر غربت، بھوک اور افلاس برداشت کر کے حاصل کیا ہے اور یہ بھوکی غریب عوام جنگی جہازوں کے کرتب اور بڑے بڑے میزائل دیکھ کر رات کو سکون کی نیند سوتے ہیں کہ کم از کم ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

مائی ڈیئر ”ہیلری کلنٹن“ دس از ناٹ فیئر

آپ کو ان باتوں کا خیال کرنا چاہیے تھا، آپ یہ مثال پاکستان کا نام لیے بغیر بھی دے سکتی تھیں یا کم از کم کسی ایک آدھ ملک کا نام ساتھ لے لیتیں مثلاً نائجیریا، یوگینڈا وغیرہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments