رحم دل عثمان بزدار اور ماسک نہ پہننے والے خطرناک مجرم


کرونا کی تیسری لہر کے نام سے ہی جسم میں ایک سرد لہر دوڑنے لگتی ہے۔ پہلی لہر کے وقت تو بہت سے کہتے تھے کہ ”کرونا ورونا کوئی نہیں ہوتا، کیا آپ کا کوئی قریبی اس کا شکار ہوا ہے؟ یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے۔“ دوسری لہر کے عروج پر کئی لوگوں کا یہ شکوہ دور ہو گیا۔ اور اب تیسری لہر تو گھر گھر پہنچ رہی ہے۔ اور اس مرتبہ ناکارہ قسم کے چینی مال کی بجائے برطانیہ کا زیادہ کارگر وائرس پھیل رہا ہے جو چینی قسم کے برخلاف بچوں اور نوجوانوں کو بھی چمٹ رہا ہے۔ لیکن تیسری لہر میں عوام بھی بے پروا ہو چکے ہیں۔

حکومتی کووڈ ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کرونا کے 663,200 مریض ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں میں 4,084 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں، ان چوبیس گھنٹوں میں 100 لوگوں نے وفات پائی ہے اور 115 کی حالت نازک ہے۔ پنجاب میں کنفرم کیس 217,694 ہیں اور 6,319 وفات پا گئے ہیں اور یہ تعداد بڑھنے کا رجحان جاری ہے۔

ایسے میں چست و چالاک بزدار حکومت نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو شہریوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا۔ چونکہ عثمان بزدار ایک نہایت رحم دل اور غریب نواز حکمران ہیں، اس لیے پنجاب کے قانون شکن انہیں خاطر میں ہی نہیں لا رہے تھے۔ بے دھڑک سر جھاڑ منہ پھاڑ سڑک پر نکل آتے تھے۔ تین چار روز سے پولیس نے ماسک نہ پہننے والوں کو مقدمہ درج کر کے حوالات میں بند کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک تصویر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اٹھارہ قانون شکن افراد کو پکڑا جا چکا ہے۔ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ابھی بھی ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے ہیں اور کرونا کی قطعاً پروا نہیں کرتے اس لیے یہ گرفتاری کے باوجود سوشل ڈسٹنسنگ پر بھی عمل نہیں کر رہے اور دس ضرب دس فٹ کے کمرے میں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے کھڑے ہیں۔ یعنی موٹر سائیکل پر یا پیدل جاتے ہوئے عوام کو کرونا لگانے کی ان کی کوشش پکڑے جانے کے بعد مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے ایک تصویر میں ماسک نہیں پہنا ہوا جبکہ دوسری تصویر میں غالباً فوٹوگرافر کو پوز دینے کے لیے انہوں نے یہ زحمت گوارا کر لی ہے۔

عثمان بزدار نا اہلی کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جو کام ہو وہ اچھے طریقے سے ہو۔ اس لیے وہ بھی اس سلسلے میں ان مجرمان سے تعاون کر رہے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو پکڑنے کے بعد خالی پڑے سکولوں یا دوسری سرکاری عمارت میں فاصلے پر رکھنے کی بجائے ایک چھوٹا سا کمرہ مہیا کر دیا گیا ہے کہ میاں تم یہاں مل بیٹھو اور کرونا کے جراثیم کا تبادلہ کرنا ہے تو اچھی کارکردگی دکھاؤ، پہلے نہیں بھی لگا تھا تو اب مایوس نہیں جاؤ گے۔

اب اس مقام پر بھی ہمیں سردار عثمان بزدار کی رحم دلی کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ دانا لوگ کہتے ہیں کہ جرم سے نفرت کرو، مجرم سے مت کرو۔ یہاں یہ فلسفہ عملی طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ ان اٹھارہ مجرمان کو حوالات میں بھی چائے فراہم کی جا رہی ہے۔ فرش پر نہ صرف چائے کی تھرماس دکھائی دے رہی ہے بلکہ چائے کے تین کپ بھی وہاں دھرے ہیں۔ جس مجرم کا جب جی چاہے، تھرماس سے کپ بھر کر گرما گرم چائے پی سکتا ہے۔ غالباً جگہ کی قلت یا سیوریج لائن نہ ہونے کی وجہ سے یہاں برتن دھونے کا بندوبست نہیں اور برتنوں کی قلت کے باعث سب لوگ یہ تین کپ شیئر کریں گے۔

اس کی حکمت بھی واضح ہے۔ یہ لوگ کرونا پھیلا رہے تھے۔ خود کو تو لگا ہو گا ہی، دوسرے لوگوں کو بھی اس میں مبتلا کر رہے تھے۔ یعنی یہ سماج دشمن تھے جس کی وجہ ظاہر ہے لاشعور میں بیٹھی کوئی نفرت ہو گی۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ مل بانٹ کر چیزیں استعمال کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔ یوں ایک دوسرے کا جھوٹا پی کر ان میں بھی آپسی محبت بڑھے گی اور انہیں دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے کی عادت پڑے گی کہ صرف جراثیم نہیں کھانے پینے کی چیز بھی بانٹنی چاہیے اور ممکن ہو تو دونوں اہداف ایک ہی کام سے حاصل کر لینے چاہئیں۔ ختم شد۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments