حسینہ! کہاں چلی گئی ہو


زندگی میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن سے ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوتی مگر جب بھی کہیں ان کے بارے کچھدیکھیں یا پڑھیں تو عجیب سی مسرت ہوتی ہے، وہ بہت اپنے اپنے محسوس ہوتے ہیں اور ہم یہ اعتراف کرتے ہیں حسینہ کہ تم بھی ان ہی لوگوں میں سے ہو، تم ہمارے لڑ کپن اور جوانی کی سنہری یاد ہو۔

حسینہ کہاں ہو تم، کہاں چلی گئی ہو؟ میں تم سے ناراض ہوں کہ تمہیں کیاحق ہے یوں چھپ جانے کا، تم نے جو بولڈ مڈل کلاس ہیروئن متعارف کرائی ہم تو اس میں اپنا عکس دیکھتے تھے

یہ 1975 یا 76 کا زمانہ تھا جب ہمارے گھر میں ٹی وی آیا اور اتنا لیٹ آنے کی وجہ وہی ماں باپ کی روایتی سوچ کہ ٹی وی آ جانے سے بچے پڑھائی لکھاٰئی سے ہاتھ اٹھا لیں گے مگر بہرحال کتنا اس طوفان پر بند باندھ سکتے تھے سو وہ چوکور ڈبہ کیا آیا اپنے ساتھ تجسس اور کھوج کا ایک جہاں ساتھ لایا تھا، اب ٹی وی دیکھنے کے لئے بھی شیڈول بنانے کی ایک ناکام کوشش امی ابو کی طرف سے کی گئی مگر بیچارے عمل نا کرا سکے (ہمارے معاملے میں کہ بھائی تو پھر بھی پاس رکھتے تھے) ہم سکول میں تھے اور چاہتے تھے کہ کبھی کچھ مس نا ہو۔ ابو دائیں بائیں آتے جاتے کچھ ٹیڑھی میڑھی نظروں سے ہمیں دیکھتے مگر ہم اپنی نظریں ان نظروں سے بچا کر ٹی وی کی دنیا میں مگن رہتے حتی کہ امی کے جلاد ہاتھ (تب ایسے ہی لگتا تھا) ٹی وی بند کر دیتے تھے۔

حسینہ تمھارے نام سے آگہی عید کے موقع پر نشر ہونے والے خصوصی کھیل سے ہوئی اور اس کے برجستہ اور بروقت مکالموں اور کامیڈی نے ہمیں مسحور کر دیا، (کیونکہ ہم نے بچپن ہی سے بچوں کے ادب ساتھ ساتھ اردو ادب پربھی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا تھا) اور ہمارا دل ہر طرح سے جیت لیا تھا۔

انکل عرفی کو جب نشر مکرر میں چلایا گیا تو کیا بتائیں، کبھی ہیروئن کی ساڑھی کے پلو کے ساتھ ہمارا دل ڈولتا اورکبھی اس کی بڑھی بڑھی آنکھوں میں ڈوبتا اور اللہ سے شکوہ کرتا کہ ہماری شکل ایسی کیوں نا بنائی، سپورٹنگ رول میں جو خاتون تھیں ان کا نام ڈرامے میں شاید افشین تھا تو ان کی آتش فشاں طبعیت کو آئیدلائیز کرتے ہوئے شیشے کے سامنے ان کے جیسی ایکٹنگ کرتے ہوئے پہروں اپنی دوپہریں کالی کی تھیں، ہیرو سے حیرتناک طور پر ہمیں کوئ دلچسپی نا تھی بلکہ اپنے حلیے سے ہمیں وہ ابو کے ہم عمر محسوس ہوتے تھے اور جمشید انصاری بھی (معذرت کے ساتھ) کبھی کبھی چغد لگتے تھے۔

حسینہ یہ تم تھیں جس نے مڈل کلاس لڑکیوں کی سوچ کو نئی جہت سے آشنا کرایا، تم نے بتایا کہ لڑکیاں صرف شرمانے گھبرانے کے لئے پیدا نہیں ہوئیں اور نا ہی کوئی نمک سے بنی چھوئی موئی ہیں کہ بارش کے پہلے قطرے سے پگھل جائیں گی۔ ایک مضبوط مگر روشن خیال خاندانی سسٹم متعارف کرایا جہاں گھر کے بزرگ اگر آزادی دیتے تھے تو سرزنش بھی بلا خوف و خطر کرتے تھے۔

تم نے وہ ماحول اور مسئلے دکھائے جو پڑھے لکھے مڈل کلاس گھروں میں ہوتے تھے اور ایک لڑکی ان کو حل کرنے کے لئے بلا خوف وخطر اس میں کود پڑتی تھی۔ وہ ایک پڑھا لکھا ماڈرن معاشرہ تھا جس کے ڈراموں میں کوئی بگڑا امیر زادہ محض دولت کے بل بوتے پر کسی کی جان ومال اور عزت آبرو کی ایسی تیسی نہیں کر سکتا تھا، اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے سالی پر رال نہیں ٹپکاتا تھا یا شوہر کے ہوتے ہوئے دیور پر ڈورے نہیں ڈالے جاتے تھے بلکہ رشتوں کے تقدس، مان اور فاصلے کا خیال ہوتا تھا مگر ان بارہ مصالحے کے بغیر نشر ہونے والے یہ ڈرامے آن ائر ہوتے تو سڑکیں ویران ہو جاتیں تھیں۔

حسینہ تم نے تو کچھ بتایا نا کوئی شکوہ کیا اور چلنے کی ہی ٹھان لی، حکومت وقت پر کوئی تنقید نا کی کہ تمھارے لئے کوئی پیکج ہی جاری کرے، سالہا سال کینسر سے خاموش جنگ کی مگر دل کی بازی ہار دی اور اپنے مداحوں کو رنجیدہ چھوڑ دیا، تمھارے اندر کتنی خوبیاں تھیں یا کتنی خامیاں میں نہیں جانتی مگر تمہارا سراپا اور سہج سہج کربات کرنا سب بتاتا تھا۔

تمہارے ڈراموں ”دھند“ اور ”بندش“ کی ایک دھندلی سی یاد آتی ہے خاص طور پر دھند نے تو ایک سحر ہی طاری کر دیا تھا اور اگر ہم غلط نہیں تو اس کے مرکزی کردار خالدہ ریاست اور محمود مسعود تھے اور اس کے مکالمے ہمیں پہروں مسحور رکھتے تھے اور ہر قسط کے ختم ہونے پر کچھ دیر ساکت ہی بیٹھے رہتے تھے۔

تمھارے جس ڈرامے نے چراغوں میں روشنی نا رہنے دی وہ ”ان کہی“ تھا۔ شہناز شیخ نے ثنا مراد کا رول ایسی خوبی سے ادا کیا کہ ہر لڑکی اس کردار میں ڈھل گئی، ہم نے خود مدتوں ثنا جیسی چھوٹی سی چوٹی بنانے کی ایماندرانہ کوشش کی۔ اگر تمھارے کریڈٹ پر صرف یہی ایک ڈرامہ بھی ہوتا تو بھی تمھارا پلڑا ہی بھاری رہتا۔

جب تنہائیاں آیا پھر دھوپ کنارے، کس کس کا ذکر کریں اور ان تمام ڈراموں جو رومانس تھا وہ بھی بس اپنی ہی ایک کشش رکھتا تھا، وہ دبا دبا سا، رکا رکا سا اور لکا چھپی والا عشق تھا۔ اس میں جو خوبصورتی تھی، جو تجسس تھا اور وہ کتنا پرفسوں تھا بس مثال ملنی مشکل ہے۔

ایک انٹرویو میں کچھ سال قبل تم نے کہا کہ آج کا ڈرامہ شاید نا لکھ سکوں کیونکہ لکھنا کچھ اور چاھوں اور قلم کچھ اور لکھے یہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کی آزادی کے لئے خاموش جدوجہد تم نے مکالموں کی صورت میں نیشنل ٹی وی پر پیش کی اور واقعی لوگوں کو قائل کیا تھا۔

حسینہ یہ موت کیا ہے اور کیسے کیسے ہیرا لوگوں کو اچک لیتی ہے اور تم نے اس وقت کیا محسوس کیا، تمھیں تو فرشتے پھولوں سے ڈھکی خوب صورت پالکی میں بٹھا کر لے گئے مگر باقی لوگوں کو حیران چھوڑ گئے۔

یہ جو پیارے فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں پھر کبھی کوئی حال احوال ہی نہیں بتاتے، کوئی تو ہو جو وہاں کی خبر لائے کہ وہاں کیا بیتی ہے۔

ھمیں پتہ ہے کہ تم بہت خوبصورت جگہ پر ہو اور ہر ظالم درد اور تکلیف سے آزاد وہاں فرشتوں اور حوروں کو اپنیے دلچسپ انداز بیاں سے محظوظ کر رہی ہو۔

مگر حسینہ پلیز ایک بار واپس تو آؤ، بتاؤ تو سہی کیسے ہیں وہاں کے شب و روز، پلیز بتاؤ نا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments