پیپلز پارٹی اور باپ کا سنگم


2018 ء کے انتخابی عمل اور نتائج روز اول سے متنازع رہے ہیں ان انتخابات سے مستحکم جمہوری حکومت کے قیام کی توقع پوری نہیں ہوئی، حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کا طرز عمل یکساں رہا لیکن اس کے ساتھ چلنے یا اسے چلتا کرنے کے متعلق حکمت عملی پر اختلاف بھی موجود رہا، تو خود حکومت میں بھی حکومت کرنے کا عزم مضبوط انداز میں روبہ عمل نہیں ہو پایا۔ عزم حکمرانی اور حکومتی اہداف پر حکومت کے اندر عدم اتفاق یا عدم بصیرت اتنی واضح رہی کہ مقبولیت کی دعوے دار حکومت اڑھائی سال کے مختصر دور اقتدار میں عوام کے لئے قابل پذیرائی و اطمینان کوئی عملی اقدام منصوبہ شروع نہیں کر سکی ہاں عوام کے وسیع حلقوں میں اپنی نا اہلی سے عدم اطمینان بے چینی ’مایوسی اور غیر مقبولیت بڑھاتی رہی ہے۔ پارلیمان کے اندر اس نے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے سے بوجوہ گریز کیا۔ حزب اختلاف

بالآخر ستمبر 2020 میں ایک وسیع سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے قبل متحدہ اپوزیشن مشترکہ احتجاجی تحریک منظم کرنے اور ایک ساتھ چلنے میں نام رہی۔ 20 ستمبر کے اجلاس میں جس کی میزبانی بہ اصرار پیپلز پارٹی کو مہیا کی گئی جو اس کے غیر مستقل مزاج سیاسی رویے کا رد عمل تھا اس کا اظہار جے یو آئی کی قیادت نے شروع دن سے کیا تھا۔ اس اے پی سی کے بطن سے گیارہ جماعتی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک کے نام سے معرض وجود میں آیا تھا۔

پی ڈی ایم کے اغراض و مقاصد بظاہر تو موجودہ ہائی برڈ سیاسی بندوبست سے نجات اور سیاست میں غیر آئینی تانا شاہی مداخلت روکنا تھا تاہم میں اس کے اجزائے ترکیبی بالخصوص پنجابی سیاسی قیادت کے نقطہ نظر کے تناظر میں حکومتی تبدیلی کے ایجنڈے سے زیادہ بڑے تناظر میں دیکھتا ہوں اس اتحاد نے (گو کہ سیاسی ابلاغیات کے شہوار اسے ناکام قرار دیتے ہیں ) جو بنیادی کردار ادا کیا ہے وہ بہت اہم ہے تحریک نے ملک کی کمزور وفاقی اکائیوں میں پائی جانے والی تشویش، غصے اور لاتعلقی کے گہرے احساس کو امید پرستی میں بدل کر پاکستان میں وفاقیت کے ٹوٹتے رشتے کو نئے سرے سے مستحکم کر دیا ہے۔

یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ پی ڈی ایم میں بلوچستان اور کے پی کے۔ کی مذہبی، قوم دوست ترقی پسند سیکولر جماعتیں نون لیگ کے ساتھ یکجا نظر آئی ہیں۔ پی ڈی ایم درپیش بحرانی صورتحال میں وسیع تر وفاقی وحدت کا سیاسی استعارہ بنی ہے۔ لہذا جو بھی تحریک کو ناکام قرار دیتا ہے وہ در اصل متذکرہ صدر نکتہ سے غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ بھی جو اسے ناکامی سے دو چار کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ تاریخ کی بالکل غلط سمت کھڑے ہیں۔

لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا ”ایٹم بم چلانے“ کی نعرہ بازی سے جہاں سیاسی درجہ حرارت میں شدت آئی تھی وہیں پر ہائی برڈ سیاسی نظام کے بانیوں میں بھی تشویش پیدا ہوئی اس ہلچل کے کئی مظاہر اہل خبر کے حافظے پر ثبت ہیں جس کے اعادہ کی ضرورت ہرگز نہیں۔

سینیٹ کے انتخابات کی معرکہ آرائی جناب گیلانی اور جناب حفیظ شیخ کے درمیان نظر آئی۔ پی ڈی ایم کے امیدوار کی جیت سے پارلیمانی سیاست کے لئے نئے مواقع اور گنجائش دکھائی دی میرا تجزیہ تھا کہ اگر طاقتور حلقوں نے پارلیمان کے اندر مواقع کی راہ میں روڑے اٹکائے تو معاملات پارلیمانی سیاست سے باہر پرامن مگر عوامی احتجاجی سیاسی مزاحمت کی طرف چلے جائیں گے اور اگر اس پرامن سیاسی مزاحمت کو بھی کچلنے کی کوشش ہوئی تو پھر صرف احتجاج اور سیاسی مزاحمت باقی رہ جائے گی تلخ نوائی شدت پسندی کو تقویت دے گی اور ایسا ہونا ملک کے وسیع تر مفاد کے منافی ہوگا لہذا حالات کو ناقابل واپسی نکتے تک پہنچانے سے گریز کی اشد ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری سیاسی قیادت کی بجائے ریاست کے ان اداروں کے سر آ گئی ہے جنہوں نے ہائی برڈ سیاست کو پروان چڑھایا ہے صورتحال کو معول کی سطح پر رکھنے کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اب آئین اور پارلیمان کی بالادستی قبول کر لیں سیاست سے کنارہ کشی اپنائیں۔ خالی بیانات کے ذریعے نہیں بلکہ دکھائی دینے والے عملی اقدامات کے ساتھ۔

واقعات توثیق کرتے ہیں کہ طاقت کے مرکز نے جناب حفیظ شیخ کی انتخابی فتح میں کردار ادا کرنے سے اجتناب کیا۔ تھا اس کی وجوہات کی تھیں یہ سربستہ راز ہے۔ تاہم۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں وہ خود کو فاصلے پر نہ رکھ پائے سیاسی سطح پر اس سے جو سوالات اٹھے وہ بہت بامعنی۔ اور بنیادی طور پر معیشت سے متعلق ہیں جو عمومی مباحثے میں مناسب جگہ نہیں پا سکے۔

کیا حفیظ شیخ صاحب جس حکمران اتحاد کے امیدوار تھے؟ اس میں طاقتور حلقہ شامل نہیں تھا؟ اور یہ کہ کیا شیخ صاحب عالمی مالیاتی بندوبست کے نمائندہ نہیں تھے؟ جنہیں سینیٹر بننے سے روک دیا گیا؟ ناکامی میں ہائی برڈ نظم و بست کے ماہرین کا کردار نہیں تھا؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے جو یقیناً مسلمہ سچائی ہے تو پھر ابلاغی مباحثے میں یہ بحث کیوں موجود نہیں کہ طاقتور حلقے، شاید اب آئی ایم ایف کی اطاعت گزاری سے متفق نہیں رہے؟ میرے سوال کا انداز آنے والے دنوں میں وضاحت سے ابھرے گا۔ جب پارلیمانی رکنیت سے محرومی کی بنیاد پر جناب شیخ کو کابینہ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ وزارت سے سبک دوشی اس کی ایک مثبت مثال ہوگی لازمی نہیں جو نتیجہ میں اخذ کر رہا ہوں وہ درست ثابت ہو ممکن ہے جناب شیخ کو دوبارہ مشیر بنا دیا جائے اور وزارت کا قلمدان وزیراعظم اپنے پاس رکھیں یا پھر کسی دوسرے وزیر کو خزانہ کی وزارت دی جا سکتی ہے میرے نتیجے کی درستگی جناب شیخ کی مکمل رخصتی کی متقاضی ہے شاید فی الوقت ایسا ہونا ممکن نہیں۔

بطور مشیر وہ پس پردہ رہ کر اپنا کام جاری رکھیں گے تو یہ عدلیہ کے لیے تسلی کا ایک معاملہ ہوگا۔ طاقت کے مرکز کی ناراضی کا نہیں۔ یہ سوال سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بلا واسطہ طور پر عالمی مالیاتی شکنجے میں دیے جانے کے حالیہ قانونی بندوبست کے ذریعے مملکت کی سپر اندازی سے بھی سامنے آیا ہے۔ کیا مذکورہ فیصلہ پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف کے مابین طے پایا ہے یا اسے طاقت کے مرکز کی آشیرباد بھی میسر ہے؟ جناب شیخ کا منصب اور سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے فیصلوں سے صورتحال کا درست اندازہ ہوگا۔

دوسری طرف یہ جاننا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے تہران میں ایران کے ساتھ طویل المیعاد دوطرفہ باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے جس ملک کی طرف اشارہ کیا ہے کہا کہ وہ ”ایک فون کال پر اپنی پوزیشن بدل لیتا ہے“ تو یہ جاننا بہت اہم ہے کہ وہ کس ملک کی طرف انگلی اٹھا رہے تھے؟

بادی النظر میں پاکستان میں خارجہ حکمت عملی معاشی اور ملکی دفاعی پالیسی میں وہ ہموار پن اور روانی یا تسلسل نظر نہیں آ رہا سو چینی وزیر خارجہ کے بیان پر پاکستان میں جو تشویش ابلاغی سطح پر سامنے آ رہی ہے وہ چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق بھی ہو سکتی ہے؟ یوں ہو تو بھی سنجیدہ سوالات بہرحال اٹھاتے ہیں۔ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب پر مداخلت کا ٹھوس واقعہ رات کے اندھیرے میں پولنگ بوتھ پر خفیہ کیمروں کی تنصیب تھا جو بعد ازاں پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ میں ڈھل گیا۔ اسی پریزائیڈنگ افسر نے سات ووٹ مسترد کیے جانے کے خلاف متاثرہ فریق کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے اسے عدلیہ سے رجوع کرنے کی بھی رولنگ دی تھی مگر عدلیہ میں پریذائیڈنگ افسر کی دی ہوئی ایک رولنگ پرتو مہر تصدیق مثبت ہوئی لیکن وہ رولنگ کے دوسرے نقطہ کے سراسر برعکس اقدام تھا۔

مارچ میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جناب آصف علی زرداری کی تقریر سے اتحاد میں تفریق کا آخری مرحلہ شروع ہوا تھا جو سینیٹ میں جناب گیلانی کے اپوزیشن لیڈر مقرر ہونے سے مکمل ہو گیا ہے یوں پی ڈی ایم، پشتون تحفظ مومنٹ کے بعد اب پی پی سے بھی راستے جدا کرنے پر مجبور دکھائی دے رہا ہے۔ گیارہ جماعتی اتحاد اب 9 جماعتوں پر مشتمل رہ جائے گا چونکہ اے این پی نے بھی طے شدہ فیصلے کے برعکس سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لئے پی پی کی حمایت کی ہے اور اے این پی بھی پی پی کی طرح ایک صوبے کے اقتدار میں شریک ہے تو گمان ممکن ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد 9 کی بجائے 8 جماعتوں پر مشتمل رہ جائے۔

میرے مہربان دوست جناب منظور چوہدری نے وضاحت کی ہے کہ ”سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن لیڈر کے سوال پر اختلاف جناب نذیر تارڑ ایڈووکیٹ کی نامزدگی سے شروع ہوا تھا“ بین السطور میرے دوست چوہدری منظور تسلیم کر گئے کہ یہ عہدہ نون لیگ کو دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا اگر ایسا نہیں تھا تو پھر دوسری کسی جماعت نے اپنے رکن کو نامزد کیوں نہیں کیا تھا؟ بالخصوص جے یو آئی نے جن کے امیدوار جناب حیدری صاحب ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہار چکے ہیں؟ تارڑ صاحب کی نامزدگی پر اگر پی پی کے تحفظات تھے تو انہیں مل بیٹھ کر حل کرنا سیاسی دانشمندی شمار ہوتی۔ اتحاد سے بالا بالا اپنے امیدوار کو سرکاری حمایت سے لیڈر مقرر کرانے میں نہ تو سیاسی تدبیر کا شائبہ نظر آیا ہے نہ ہی درپیش سیاسی بحرانی صورتحال کے تدارک کے لئے پر خلوص سیاسی سنجیدگی۔

جناب بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ ”پی ڈی ایم کی تشکیل پیپلز پارٹی کا آئیڈیا تھا۔ اساسی اجلاس کی میزبانی کی حد تک تو یہ بات قابل فہم ہے البتہ واقعات اس کے برعکس بھی ہیں پی ڈی ایم کے قیام سے قبل 2020 کے اوائل میں پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کے لئے ایک تجویز دی تھی۔ صحافتی حلقوں کے مطابق مذکورہ تجویز میں نون لیگ کے بغیر اتحاد بنانے کا کہا گیا تھا یہ تجویز قبولیت سے محروم رہی لیکن پی پی پی ڈی ایم میں نون لیگ سے ہمیشہ خائف رہی۔

جناب میاں نواز شریف کی تقریر کو جناب بلاول نے سرپرائز قرار دے کر اس اختلاف کا شائستہ اظہار کر دیا تھا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے تاریخی کردار کے برعکس مفاہمت کی لائن اپناتی رہی جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ کی روایتی حلیف مسلم لیگ نون لیگ کے روپ میں سیاسی مزاحمت پر عمل پہرا ہو گئی دونوں جماعتوں کے سیاسی کردار میں مذکورہ تبدیلی ان جماعتوں کی قیادتوں کے معاشی سماجی طبقاتی تر رشتے کی عکاسی کرتی ہے۔

جناب چوہدری منظور تسلیم کرتے ہیں کہ ”پیپلز پارٹی نے عارضی طور پر جناب گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی تجویز بھی دی تھی“ گویا پی ڈی ایم کا حتمی فیصلہ تو وہی تھا جس کا اظہار محترم مولانا فضل الرحمن نے کیا تھا۔ تین عہدے تین جماعتوں میں تقسیم ہوں گے۔ یاد رہے کہ جس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اس میں محترم راجہ پرویز اشرف پی پی کی نمائندگی کر رہے تھے اور بقول جناب نئیر بخاری راجہ اشرف کو اس فیصلے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔

کیا پیپلز پارٹی پہلے سے ہی اپنی لائن واضح نہیں کرچکی تھی؟ اسے یقین تھا کہ پی ڈی ایم کے تعاون کے بغیر بھی وہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر سکے گی؟ جناب نیئر بخاری کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب راجہ پرویز اشرف پارٹی رہنما کی بجائے اجلاس میں پارٹی کے وکیل کی حیثیت میں شریک تھے جسے حتمی فیصلہ کا اختیار نہیں ہوتا اور وہ اپنے موکل کی ہدایت یا دیے گئے مینڈیٹ کا پابند ہوتا ہے۔

جناب گیلانی اے این پی اور باپ کے چار ارکان کی حمایت سے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں باپ کے ارکان کی حمایت چیئرمین سینیٹ جناب سنجرانی کا عطیہ ہے۔ پیپلز پارٹی، باپ کے تعاون کو مان کر نہیں دے رہی اس کی دلیل یہ ہے کہ دلاور گروپ نے از خود حزب اختلاف کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے یہ دعویٰ اسی صورت درست ثابت ہوگا جب سینیٹ کے اجلاس میں دلاور گروپ دلاوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزب اقتدار کے بینچوں سے اٹھ کر حزب اختلاف کے ساتھ آن بیٹھے گا ایسا ہوا تو یہ چیئرمین سینیٹ کے لئے بھیانک واقعہ ہوگا کیا وہ اپنے عطیہ کردہ چار ارکان کو اجازت دیں گے کہ وہ بینچ بدل کر انہیں ہی اکثریت سے محروم کر دیں؟ یا چیئرمین سینیٹ سے دستبردار ہونے پر مجبور کریں؟

نئی صورتحال میں جناب گیلانی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سے بھی گریز کریں گے جس دن انہوں نے اپیل دائر کی دلاور گروپ اور شاید جماعت اسلامی بھی ان کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔ تو پھر جناب گیلانی کی طرف سے اب عدالت عظمیٰ سے رجوع کا مطلب اپوزیشن لیڈر شپ سے بھی دستبرداری ہوگا اس دلچسپ صورتحال میں جناب گیلانی اور پیپلز پارٹی کس کشتی میں بیٹھے گے؟ پی ڈی ایم یا حکومتی اتحاد، مجھے گمان ہے کہ سندھ میں اقتدار بچانے کے لئے ممکن ہے پیپلز پارٹی کو آخری آپشن اپنانے پر مجبور ہونا پڑے گا لیکن اسے ملک کے عمومی بدلتے ہوئے سیاسی تناظر اور معاشی معاشرتی تبدیلی میں جو سراسر مزاحمتی سیاست کی طرف بڑھ رہا ہے سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے پی پی۔ پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد پنجاب میں اپنی ساکھ و جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی اتحاد میں رہتے ہوئے وہ آنے والے انتخابات میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ سے پنجاب میں اپنی پارلیمانی قوت بڑھا سکتی تھی۔ شاید اس نے عجلت میں کمزور سودے بازی کر کے بڑا سیاسی نقصان اٹھایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments