فیمینزم مرد سے نفرت نہیں مرد سے خود کو انسان منوانا سکھاتا ہے


وہ بس بارہ سال کی ایک بچی تھی۔ بدقسمتی سے ایک مہینہ پہلے ہی اسے پیریڈز شروع ہوئے تھے۔ اگلے مہینے جب وہ گلی میں بچوں کے ساتھ بنٹے کھیل رہی تھی۔ اسے گھر لا کر نہلا دھلا کے تیار کر دیا گیا۔ پتہ چلا اس کا رشتہ طے ہو گیا۔ چند دنوں میں کچھ ضروری ساز و سامان تیار کیا گیا۔ زیور کا سیٹ ماموں نے دیا۔ مشہور زرگر جو تھے۔ کیسے نہ دیتے۔ مل ملا کر چیزیں بن گئیں اور چند دنوں میں ہی شادی کا دن آ گیا۔ پھپھی کی شادی بھی ساتھ ہی طے ہوئی۔

رشتے طے کرنے والے بہت سیانے تھے۔ بھتیجی کے لیے جو خاوند چنا وہ عمر میں اس سے دوگنا تھا۔ پھپھی کے لیے لیے جو خاوند چنا وہ اس سے عمر میں کئی سال چھوٹا تھا۔ شادی ہو گئی۔ اور شادی کی پہلی رات اس بچی نے اپنے خاوند کو پہلی بار دیکھا۔ اور فرمائش کی کہ وہ اپنا موجودہ کام چھوڑ کے کوئی اور کام کریں۔ اس کی سہیلیاں مذاق اڑاتی ہیں۔ خاوند نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سامان باندھا۔ خط لکھا۔ اور گھر سے چلا گیا۔ بچی چپ کر کے سو گئی۔ صبح دم جو ہنگامہ ہوا وہ الگ۔ بچی قصوروار کہ خاوند سے کیا کہا ہو گا جو وہ چلا گیا۔ قصہ مختصر دو سال بعد خاوند کو ڈھونڈ ڈھانڈ کے لایا گیا۔ تا کہ وہ اپنی آنے والی نسل کی بربادی کا بیج بو سکے۔

اگلے سال پندرہ سال کی لڑکی کی گود میں ایک بچی تھی۔ اور پریگنینسی کے عرصے میں خاوند پھر غائب تھا۔ بچی کی پیدائش کے بعد وہ آتا ہے۔ پھر ایک بیج بوتا ہے۔ پھر گم۔ پھر ایک لڑکا آتا ہے۔ لوگوں کو امید بندھتی ہے کہ اب تو شاید سدھر جائیں۔ اور گھر بس جائے۔ مگر بے سود۔ دو خوبصورت بچے اور کم عمر بیوی بھی کسی کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتے۔ یہ ثابت ہوا۔

یہاں سے میرے ساتھ میرے فیمینزم کا جنم ہوا۔ حتی کہ اس وقت میری جانے بلا کہ یہ فیمینزم کیا بلا ہے۔ وہ بارہ سالہ بچی میری ماں تھی۔ اور اس کی گود میں آئی بچی میں ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ فیمینزم کے تحت میں اپنی ماں کو پٹنے سے بچا رہی ہوتی تھی۔ یا اس لیے کہ وہ عورت میری ماں تھی۔ اس لیے بچاتی تھی۔ مگر تب سے میرے دو ڈھائی سالہ چھوٹے سے دماغ میں ابو کا تصور یہ بیٹھا، کہ وہ مارتے ہیں۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا ہو۔ لیکن مجھ پہ نہیں اٹھایا تو کیا ماں پہ اٹھانے کی معافی ہو گئی۔

سچ بات یہ ہے کہ میں یہ سب لکھنا نہیں چاہتی۔ کیونکہ میں نے یہ دیکھا کہ جب میں اصلاح واسطے اپنے ساتھ ہوئے کسی بھی واقعے کو لکھتی ہوں۔ تو اس پہ میرے ہی حلقوں کی جانب سے بہت ہی غلط جملے سننے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میری فیملی میں بھی میرا لکھا پہنچ جاتا ہے۔ ان کے رویے الگ پریشان کن ہوتے ہیں۔ فیملی کے حوالے سے تو میرا نظریہ یہ ہے کہ فیملی وہ ہوتی ہے، جس کو اس وقت آپ کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ جب آپ کو ضرورت ہوتی ہے۔ تب وہ اپنے نہ ہونے کے جواز دیں تو وہ فیملی نہیں۔ صرف دنیا والے ہیں۔ جو تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے مجھے اب ضرورت نہیں رہی۔ اب میں چھوٹی بچی تھوڑی ہوں جو ایک جھڑک پہ رونے لگ جاؤں گی۔ ہاں اپنے ہی دوستوں کے رویے تکلیف پہنچاتے ہیں۔

خیر لکھنے کا ارادہ یوں بن جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ لکھے بنا نہ نیند آتی ہے نہ چین ملتا ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل لکھتے ہیں کہ ڈائری لکھنی چاہیے۔ میں تو بچپن سے لکھ رہی ہوں۔ کیونکہ اس وقت جب آپ بہت خوش ہوں۔ اور اس وقت جب آپ بہت دکھی ہوں۔ ڈائری آپ کی بہترین دوست ہوتی ہے۔ لیکن اسے صرف میں پڑھ سکتی ہوں۔ جو میں نے لکھا۔ جو میں نے بھگتا۔ جو ہم نے بھگتا وہ معاشرے میں کوئی اور نہ بھگتے۔ اس کے لیے آپ کو اسے سرعام لکھنا پڑے گا۔ تا کہ اسے ہر وہ انسان پڑھے، جو ایسا کر چکا، کرنے والا ہے یا کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ کسی ایک کو بھی فائدہ ہوا تو میرا مقصد پورا ہوا۔

آپ نے کبھی فٹ بال دیکھا ہے جب اسے دونوں ٹیمز کک مار کے گول کرنے کے چکر میں ہوتی ہیں۔ مخالف ٹیم کا گول کیپر گول روکنے میں ہلکان ہوتا ہے۔ اور گول ہو جانے پہ ٹیم کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ہم نے ایسی ہی فٹ بال جیسی زندگی گزاری ہے۔ نانا کی ڈیتھ کے بعد ہم یونہی فٹ بال ہوتے تھے۔ کیونکہ جدھر جاتے ادھر ہی دبئی کے درہم جاتے۔ امی کی خلع کے بعد دوسری شادی ہو گئی تھی۔ اور دبئی سے آنے والے خرچے کے پیسوں کی وجہ سے رشتے داروں کو ہم بچوں کی بجائے نوٹ لگتے تھے۔ ہماری ضرورتوں کے نام پہ پیسے لیے جاتے۔ مگر ہماری ضرورتیں وہیں رہتیں۔

بڑا افسوس ہوتا ہے کبھی کبھی کہ کاش ہم آج کے دور کیے بچے ہوتے۔ انٹرنیٹ، فونز، رابطوں کے لیے بے شمار ذرائع۔ اس وقت جب مہینے بعد فون آتا تو رشتے داروں کی نگرانی میں چند سیکنڈ کے لیے فون کا ریسیور ملتا۔ اور چھین لیا جاتا۔ خط لکھے رہتے پتہ ہی نہ ہوتا تھا کہ کہاں بھیجیں۔ بہت لمبی باتیں ہیں۔ اتنے سارے واقعات ہیں کہ ایک کے بعد ایک یاد آتا جاتا ہے۔ اور بات وہیں جاتی ہے۔

خیر امی ہماری شروع سے ایک ڈرپوک خاتون ہیں۔ انتہائی ڈرپوک اور لوگوں کی باتوں میں آ جانے والی۔ مجھے ان کے ڈرپوک ہونے کا احساس اپنے بچپن میں ہی ہو گیا۔ اعصابی و نفسیاتی طور پہ ایک کمزور عورت۔ جو ان کے ساتھ ہوتا رہا ان کا بنتا بھی ہے۔ دوسری شادی کے وقت ان کی پہلی شادی اور بچے چھپائے گئے کہ بعد میں شوہر کا خوشگوار موڈ دیکھ کر بتا دیں گی۔ مگر ان میں ساری زندگی یہ ہمت ہی نہ آ سکی۔ کہ وہ اپنے دوسرے خاوند کو اپنے دو بچوں کا بتا سکیں۔ جس نے خود اپنے آٹھ بچوں میں سے شادی کے وقت تین بچے بتائے۔ باقی کے پانچ بعد میں نکلے۔

مجھے یاد ہے جب نانا سے میری ماں کی دوست نے اس رشتے کی بات کی تو نانا کی یہی رٹ تھی کہ بچوں کا کیا بنے گا۔ بچوں کا کیا بننا تھا۔ وہ تو بے چارے فٹ بال تھے۔ انسان تھوڑی تھے۔ امی کو پچھلے ہفتے سٹروک آیا۔ ظاہر ہے شدید سٹریس اس کی بنیادی وجہ تھی۔ ہسپتال کے کمرے میں روتے ہوئے میں نے صرف ایک گلہ کیا۔ کہ میں نے ساری عمر اپنی ذات کے دکھ آپ کو صرف اس لیے نہ بتائے کہ میری ماں ایک کمزور عورت ہے۔ اسے ذہنی پریشانی نہ ہو تو میں ہر محاذ پہ اکیلے لڑی ہوں۔ جب بچی تھی تب بھی اور جب اپنے بچے ہیں تب بھی۔ مگر آپ نے اپنی زندگی سے کچھ نہیں سیکھا۔

کاش میری ماں ایک بہادر خودمختار اور اپنے فیصلے خود لینے والی عورت ہوتی تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔

ان وجوہات پہ بات کرتے ہیں جن کی بنا پہ یہ ساری صورتحال پیش آئی۔ سب سے پہلے تو والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیٹی پیدا ہو گئی ہے تو اسے انسان سمجھا جائے۔ اس کے پیدا ہوتے ساتھ ہی اس کے جہیز کی فکر میں پڑنے کی بجائے ان کی تعلیم و تربیت و معاشی طور پہ ان کی خودمختاری میں ان کی مدد کریں۔ شادی ہمارے سماج میں سانس جیسے لازم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن شادی کرتے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ جس کے ساتھ ہم اپنی بیٹی بیاہ رہے ہیں۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ ہم اپنے جسم کا ایک حصہ اسے سونپ دیں۔ لڑکے کی اچھی کمائی کے ساتھ ساتھ اس کی اچھی سوچ پہ بھی توجہ کریں۔ مرد کو صرف اس کے غصے اور کمائی سے ہی چنے کے جھاڑ پہ مت چڑھائیں۔ ایک عورت کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے یہ دیکھیں۔

طلاق اور خلع کو ہوا مت بنائیں۔ اپنی بیٹیوں کو شادی کے وقت جنازہ ہی واپس آئے کی نصیحت کرنے کی بجائے یہ اعتماد دیں کہ وہ زندہ واپس آئے گی تب بھی دروازے کھلے ہیں۔ خدارا بیاہی بیٹیوں کے جنازوں کے لیے دروازے کھولنا بند کریں۔ ان کو ظلم برداشت کرنے کی بجائے ظلم پہ آواز اٹھانا سکھائیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن میرے انباکس ایک عورت کی کہانی آتی ہے۔ جن کی گزارش ہوتی ہے کہ آپ لکھ دیں ہم نہیں لکھ سکتے۔ کیسا دکھ ہے یار۔ خود پہ ہونے والے ظلم لکھ بھی نہ سکیں۔

ہمارا سماج میل شاونزم کا شکار سماج ہے۔ جب ہم یہاں پہ عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو یہ لٹھ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ لو بھئی یہ عورت تو سیکس کی آزادی چاہتی ہے۔ عورت کی آزادی سے ان کے معاشرے کا اخلاق و کردار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ میں نے آج تک کسی عورت کو گلیوں بازاروں یا سڑکوں پہ کبھی اپنا سینہ ننگا کر کے دکھاتے نہیں دیکھا۔ ہاں میں نے کئی بار مردوں کو سڑک پہ اپنی جینز کی زپ یا شلوار کا ناڑا کھول کے اپنا ڈک (تمیزدار لفظ نہیں مل رہا) دکھاتے ضرور دیکھا ہے۔

اصولی طور پہ تو معاشرے کو اس بارے سوچنا چاہیے۔ فیمینزم کا نام سن کے آگ بگولہ ہو جانے والے اسے صحیح طرح بول نہیں پاتے، اس کے معانی کیا سمجھیں گے۔ فیمینزم کے مطلب میں کہیں بھی مرد سے نفرت نہیں بلکہ مرد سے خود کو انسان منوانے کی جدوجہد ہے۔ عورت بھی مرد کے برابر کی انسان ہے۔ اس کا بھی ان تمام کاموں پہ ویسے ہی حق ہے جیسے کسی بھی مرد کا۔ جن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں ہمیشہ عورتوں کے لیے لکھتی ہوں۔ شاید میں مردوں سے نفرت کرتی ہوں تو ان کو کلیئر کر دوں کہ میرے بہترین دوستوں میں مرد زیادہ ہیں۔

میرے نانا میرے آئیڈیل مرد ہیں۔ اگر مجھے نفرت کرنی ہوتی تو میں اپنے باپ سے کرتی مگر ان سے ہزار ہا اختلافات کے باوجود میں ان سے نفرت نہیں کر سکی۔ ان کی موت سے میرے دل کو لگنے والا صدمہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا۔ اس کے رویے اور اخلاق اسے برا بناتے ہیں۔ انسان میں میرے نزدیک مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو زندگی جینے کا حق دیجئیے۔ اور اپنے بیٹوں کو یہ تربیت کہ انہوں نے عورتوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے۔ ہمارے سماج کا مرد بہتر ہو سکتا ہے اگر اس کی تربیت کرنے والی ماں پدرسری کی بجائے مادر سری سوچ کی مالک ہو۔ اور اس کے لیے سب سے پہلے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کا حق دیں۔ پڑھی لکھی مائیں باشعور مرد بنائیں گی۔

نوٹ۔ کل ایک فیس بکی خاتون دوست نے انباکس اپنی کہانی سنانے کے بعد میسج کیا کہ آپ عورتوں کی معاشی خودمختاری پہ ضرور لکھیں۔ اپنی ماں کی مثال سامنے رکھ کے میں نے یہ تحریر لکھی ہے۔ اگر میری ماں ایک خود مختار عورت ہوتی تو آج میں اپنی ماں کو سب کے سامنے ماں ہی کہتی بہن نہیں۔ سو زندگی تو تمام دکھ ہے اور لکھنا آسان بھی نہیں۔ بس آنسو لکھے نہیں جاتے ورنہ تحریر گیلی ضرور ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments