معراج بھائی قسط ( 1 )


وہ لمبی بل کھاتی ڈھلوانی سڑک پر چلی جا رہی تھی اور بس جا رہی تھی، اس کی قیمتی
شال اس کے پاؤں میں رل رہی تھی اور ننگے پاؤں سنگ ریزوں سے زخمی ہو رہے تھے مگر
ہوش و خرد سے بیگانہ اس کی آ نکھیں جو دنوں سے نا سوئی تھیں اور سوجن سے بند ہو

رہی تھیں اور ایک ہی ورد اس کی زبان پرتھا ”بس اللہ ہی اللہ باقی فانی“ چلتے چلتے اس کو ٹھوکر لگی اور ایک چیخ کے ساتھ وہ نیچے لڑ ہکنے لگی کہ اس کے والد نے تھام لیا

آلو میتھی؟ نہیں بلکہ میتھی آلو، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟
تیمور نے اپنی لمبی لمبی آرٹسٹک انگلیوں کو سونگھ کر کہا
ہوں ہوں

عفت نے اثبات میں سر میں ہلایا اور اتنی سی حرکت سے اس کے خوش نما ریشمی گھنے بال کھل کر اس کے شانوں پربکھر گئے، اپنی حسین مدھ بھری آ نکھوں سے جو پلکوں کے بوجھ سے ادھ کھلی سی تھیں، وہ تیمور کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی

مجھے بہت پسند ھے بہت ہی مزیدار لیکن مجھے اس کی بو پسند نہیں ہے، ہاتھوں سے جاتی ہی نہیں
وہ ہاتھوں پہ کوئی سپرے کر رہا تھا کیونکہ وہ ایسا ہی تھا۔
پسندیدہ چیزوں کے لئے کوئی قربانی تو دینا پڑھتی ہے نا تیمور احمد!
یہ کہہ کر عفت کو ہنسی آ گئی اور شرارت سے اس نے قریبی گلاب سے ایک کلی توڑ کر تیمور کی جانب اچھال دی۔

دوپہر کا کھانا انھوں نے باہر برآمدے میں ہی کھایا تھا، تیمور کے ابا کا یہ گھر پہاڑ کی چوٹی پر تھا سو برآمدے سے گلیات کا نظارہ بہت بھلا لگتا تھا، وسیع و عریض لان جو بہار آنے پر

پھولوں سے لد جاتے، مین روڈ سے اوپر آتاطویل اور بل کھاتا سیاہ تار کول کا ڈرائیو وے

بہت ہی خوبصورت لگتا تھا چنانچہ جب ہنی مون پر نکلنے کی بات ہوئی تو تیمور اس کو وینس کے گنڈولے، اور پیرس کے آرٹ سکول دکھانا چاہتا تھا، وہ لندن کی شاموں میں ہوتی رم جھم میں اس کا ہاتھ پکڑ کر دور تک بھیگنا چاہتا تھا، ہالینڈ کے ٹیولپ کتنے خوبصورت ہوتے ہیں وہ دیکھے گی تو حیران رہ جائےگی مگر عفت کی ایک ہی رٹ کہ نتھیا گلی چلتے ہیں جہاں

پھپھو کا اپنا گھر تھا، وہ امی ابو کے ساتھ یہاں بچپن میں کئی بار آئی تھی مگر تیمور سے ملاقات شاذ ہی کبھی ہوتی تھی۔ وہ بچپن ہیٖ سے

بورڈنگ میں تھا پھر اے لیول کے بعد وہ باہر مزید تعلیم کے لئے چلا گیا بس سننے میں آتا
تھا کہ آرٹ اور بزنس میں اعلی ڈگریاں لے رہا ہے۔
عفت یہاں آ کر بے حد خوش تھی۔ گھر کی دیکھ بھال پر جو خاندان معمور تھا ان کے بھی

نو بیہاتا بہو بیٹا تھے، کم عمر جوڑا تھا جو دن بھر ماں باپ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے اور فارغ وقت میں برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر سر گوشیوں میں

باتیں کرتے اور بلاوجہ ہر بات پر ہنستے تھے اور عفت نے دو دن میں ان کو دوست بنا لیا تھا۔

عفت کے والد جمشید چھ بہن بھائی تھے اور سب ہی خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے۔ مگر ایک بہن صائمہ کی شادی ایک بہت امیر اور سیاسی طور پر مظبوظ خاندان میں ہوئ

تھی اور شادی کے بعد اس کے شوہر وقار نے بزنس اور سیاست میں دن دگنی اور رات چگنی
ترقی کی تھی سو صائمہ خاندان میں خوش قسمتی کا استعارہ تھی اور سب ہی بیٹیوں کا
نصیب صائمہ جیسا ہونے کی دعا مانگتے تھے۔
صائمہ اور وقار کا اکلوتا بیٹا تیمور جس کا بچپن ایسے بورڈنگ سکول میں گزرا جہاں اشرافیہ

کی اولادوں کو پڑھتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے ساتھ وہ بڑے ہوتے ہیں۔ تیمور پیدائشی آرٹسٹ تھا، اس کی لمبی لمبی خوبصورت انگلیاں جب رنگوں سے کینوس پر کھیلتیں تو بڑے بڑے مصور اس کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتے اور وہی انگلیاں جب ستار سے کھیلتیں تو لوگ وجد میں

آ جاتے تھے۔ خاندان کے بچوں میں ایک ہیرو کی طرح مشہور اے لیول کے بعد مزید تعلیم
کے لئے تیمور باہر چلا گیا تھا اور پھر چھ سات سال نا لوٹا بس ماں باپ سال میں دو تین
دفعہ جا کر مل آتے۔ سب کے سننے میں آتا کہ بزنس ڈگری کے ساتھ وہ میوزک اور مصوری
میں بھی ڈگریاں لے رہا ہے اور اب اس کے آنے کا غلغلہ تھا اور صائمہ نے سوچ لیا کہ آتے
ھی وہ اس کی شادی کر دیں گی اور خاندان میں کون تھا جو اس کو داماد بنانا نہیں چاہتا
تھا مگر یہ ایک مشکل فیصلہ تھا سو انھوں نے سوچا کہ بیٹے کی شادی وہ فیملی سے باہر
ھی کریں گی۔

تیمور واپس آ گیا تھا۔ ننھیال دودھیال میں ایک زلزلے ٖکی سی کیفیت تھی سب لوگ اس کے اعزاز میں پہلے کھانا کرنے کی کوشش میں سبقت لے جانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے

تھے۔ تو یہاں بھی صائمہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے گھر میں ایک عظیم الشان ڈنر کا اہتمام

کیا اور تمام میکے اور سسرال کو انوائیٹ کر لیا اوراتنی بڑی تقریب کے کرتادھرتا حسب معمول معراج بھائی تھے، وہ لگ بھگ پچاس برس کے تھے اور پندرہ برس کی عمر میں

صائمہ کے سسر کے پاس آئے تھے چونکہ وقار کے ہم عمر تھے سو ان کے ساتھ نتھی ہو گئے
اور باقی عمر ان کے لئے ہی وقف کردی۔ وہ وقار کے مزاج میں اس حد تک دخیل تھے کہ
ان کے بہت قریبی راذدان بھی تھے اور بعض اوقات ان کے پرسنل معاملات بھی سلجھاتے

اور کسی کو کان و کان خبر نا ہوتی اور بعض دفعہ تو وقار بیوی کے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے معراج بھائی کی بات زیادہ سود مند سمجھتے تھے سو وہ خاندان میں صائمہ کی سوکن کے نام سے مشہور تھے مگر سب سے اچھی بات ان کی خاندانی شرافت تھی، انھوں نے کبھی اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ نا اٹھایا، ہمیشہ وقار کو بڑے صاحب اور تیمور کو صاحب کہا اور صائمہ کے سامنے تو کبھی آنکھ اٹھا کر بات ہی نا کی تھی۔

تیمور بچپن سے ان کے بہت قریب تھا اور وہ بھی اسے دیوانہ وار چاہتے تھے اگر کبھی وقار اور صائمہ شہر یا ملک سے باہر ہوتے اور تیمور کو چھٹیاں ہو جاتیں تو وہ ہاسٹل سے

گھر لا کر اس کی دیکھ بھال بہت ہی احسن طریقے سے کر تے تھے۔

دعوت اعلی پیمانے کی تھی سو خاندان کی لڑکیاں بڑے بڑے ڈیزائنرز کے یہاں چکر لگاتے ہوئے باؤلی ہو گئی تھیں اور آج رنگ برنگے عجیب عجیب ملبوسات میں تتلیوں کی طرح

ادھر ادھر اڑ رہی تھیں، رنگ ونور کا ایک سیلاب تھا جو امنڈا آ رہا تھا۔

تیمور گویا منٹوں میں ہی سب میں گھل مل گیا تھا، لگتا ہی نا تھا کہ سالوں کے بعد مل رہا ہے، اردو پنجابی میں گفتگو کرتا، بڑوں کے سامنے جھکتا اور ہم عمروں کے ساتھ قہقہے

لگاتا گویا سب کے دلوں میں اتر رہا تھا۔ کھانوں سے لے کر لباس موسیقی روایات سب کچھ
مشرقی پسند تھا۔
اس کی پہلی ملاقات عفت سے یہیں پر ہوئی جو اس کے ماموں جمشید کی بیٹی تھی
اور سب کزنز میں گھلی ملی بیٹھی تھی مگر ستاروں کی جھرمٹ میں چاند کی طرح نمایاں

تھی، اس نے ڈارک گرین شیفون کی پشواز پہن رکھی تھی جس پر ہم رنگ ستاروں کا کام تھا، اپنے لمبے بھاری بالوں ڈھیلی سی چوٹی کے ساتھ اس نے لائٹ براؤن کشمیری کو ہلکا سا سر پر ٹکا رکھی تھی، ہلکے پھلکے میک اپ، ناک میں ہیرے کی لونگ اور کانوں میں میچنگ

ٹاپس پہنے کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی۔ وہ خاندان کی سب حسین لڑکی تھی اور یہ بات اسے معلوم تھی اور آج کی محفل میں بھی جہاں سے گزر رہی تھی ہر نگاہ اس پر ٹک رہی تھی لیکن سہج اور ٹھہراؤ اس کی ذات کا حصہ تھاجو اس نے اپنی ماں سے لیا تھا اور اعلی تعلیم و تربیت اس کے حسن کو چار چاند لگاتے تھے اور سچ مچ اس کے لئے زشتوں کی لائن

لگی تھی مگر فی الحال وہ ماں باپ اور اپنے سے پانچ سال چھوٹے جڑواں بھائیوں عمر اور
ثمر کے ساتھ مگن تھی۔

تیمور کی موجودگی سے تو گویا چراغوں میں روشنی نا رہی تھی، عفت کے دل کی بھی عجیب حالت ہو رہی تھی، وہ جب بھی اس کی طرف دیکھتی ایک شعلہ سا اس کے دل

میں جلتا تھا۔ وہ قیمتی شلوار سوٹ، پشاوری چپل اور پیرس سے لائی ایک شال اوڑھے تھا

اور اس کی سیاہ مسحور کن آنکھوں میں عجیب سی مستی تھی اور عفت کا دل ان سیاہ آنکھوں میں ڈوبنے کے لئے بے قرار تھا مگر اسے اپنی انا بہت عزیز تھی اس لئے ایک محتاط

فاصلہ رکھا ہوا تھا مگر اس کا حسن جہاں سوز اور رکے رکے سے قدم خاندان کے باقی لڑکوں کے دل پر بجلیاں ضرور گرا رہے تھے

اس عشائیے کا دنوں خاندان میں چرچا رہا اور تیمور کے شاہانہ طور و اطوار نے سب کو موہ
لیا تھا۔
ہائے

مگر سب کی پہنچ سے باہر تھا کیونکہ صائمہ نے اس کی شادی خاندان میں نا کرنے کا اعلان کر رکھا تھا کہ فیملی میں ایک خبر برق کی طرح گری

تیمور کی بات عفت سے طے ہو رہی ہے!

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments