منیر نیازی: شہر کی فصیلوں میں جڑا ہوا ایک پراسرار داخلی دروازہ


نیازی صاحب کے گھر کے اطراف میں ماحول کو دیکھ کر دل کو دھکا لگا۔ ٹاؤن شپ کے علاقے میں ان کے گھر کے عین سامنے ایک گندا نالہ تھا جس میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے پانی رس رس کر بہتا چلا جا رہا تھا۔ پوری فضا میں بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ دیکھ کر طبیعت خراب ہوئی۔ اس موضوع پر انتظارحسین نے کالم بھی تحریر کیا تھا کہ شاعر اندر سے مر رہا ہے۔ اسی گھر سے ان کا جنازہ اٹھا۔ اس ناگوار ماحول کی طرف لحظہ بھر کو دھیان گیا کہ ان کا ملازم آیا اور اور سیڑھیوں سے بالائی منزل پر کمرے میں لے گیا۔

تھوڑی دیر بعد منیر نیازی گھر کی اندرونی سمت میں اترتی ہوئی سیڑھی سے برآمد ہوئے۔ چٹا سفید کرتا، صاف شفاف، اجلا، کوئی شکن تک لباس پر نہ تھی۔ سلیقے سے بنائے ہوئے سفید بال جس میں ایک لٹ ماتھے پر آئی ہوئی۔ منٹو کے بارے میں پڑھ رکھا تھا اور بہت سوں سے سن بھی رکھا تھا کہ وہ نہایت خوش پوش تھے۔ پڑھنے، سننے اور دیکھنے کا تجربہ الگ الگ ہوتا ہے۔ منیر نیازی کو دیکھا اور جانا کہ خوش پوشی کیا ہوتی ہے۔ ان کے گھر کے باہر طبیعت پر جو گرانی طاری ہوئی تھی، وہ منیر کو دیکھ کر دور ہو گئی۔

تشریف لائے تو ایک صوفے پر نیم دراز ہو گئے۔ کہنے لگے ”کاکا، میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ایس لئی معاف کرنا ذرا لماں پئے کے بیٹھاں گا“ ( کاکا، میری طبیعت ٹھیک نہیں، میں ذرا دراز ہو کر بیٹھوں گا) میں دل میں اس ”لماں پے کے بیٹھنے“ پر ہنسا لیکن رسمی طور پر کہا ”کیوں گنہگار کرتے ہیں۔“ کہنے لگے ”ایہہ ضروری اے تے مجمانی دی لوڑ وی اے۔ حیاتی چ انہاں گلاں دا خیال رکھنا وی لازمی جیہا اے کسے دی یاد وانگوں۔“ (یہ ضروری ہے اور میزبانی کی ضرورت بھی۔ زندگی میں ان باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کسی کی یاد کی طرح ) پھر ایک دم سے موضوع بدل دیا۔ اپنی ترنگ میں آئے ”بوہت ورہے پہلوں راوی دا اک مدیرآیا سی، ظہور احمد۔ باقی اندروں خالی سن۔ لازم ہے کہ اندر کوئی بوٹی ہووے، مشک نصیب دی گل اے۔ ظہور چنگا منڈا سی۔ اک دو واری میرے نال چھانگے مانگے وی گیا۔ توں وی پروگرام بنا لے۔ میں مہینے چ اک دو واری چھانگے مانگے ضرور جانا۔ اس بیلے دی رات میرے نال گلاں کر دی اے“ (بہت سال پہلے راوی کا ایک مدیر آیا تھا، ظہور احمد۔ باقی جو آئے وہ اندر سے خالی تھے۔ ضروری ہے کہ اندر کوئی شاخ کھلی ہو، مہک نصیب کی بات ہے۔ ظہور اچھا لڑکا تھا۔ ایک دو مرتبہ میرے ساتھ چھانگا مانگا بھی گیا۔ تم بھی پروگرام بنا لو۔ میں مہینے میں ایک آدھ بار چھانگا مانگا ضرور جاتا ہوں۔ اس جنگل کی رات مجھ سے باتیں کرتی ہے )

میں سوچ رہا تھا کہ ان کی شاعری میں چڑیلوں، بھوتوں، ڈائنوں، رات، تیز ہوا، بھاری دروازے کے استعارے کہاں کہاں سے جنم لیتے ہیں اور کس کس طرح ان کے تخلیقی تجربے کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان سے مل کر ان کی ایک نظم کا مفہوم ہی بدل گیا کہ ہم ایک بھاری دروازے کے اندر ہیں اور کھولنے کے اصرار کو نظرانداز کیے ہوئے تیز ہوا کے شور کی دہائیاں بھی نہیں سن نہیں رہے۔

منیر نیازی میں بد خوئی کرنے کی عادت کا بھی بڑا چرچا تھا۔ یار لوگوں اس نوع کے واقعات کو لطائف کے اسلوب میں بیان کرتے۔ سننے والوں کے ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے اور اختتام اس تاثر پر ہوتا کہ ”منیر نیازی بھی بس کمال کر جاتا ہے۔“ ڈاکٹر سہیل احمد خان جب گورنمنٹ کالج سے وابستہ ہوئے تو مشاہیر سے وابستہ یادوں کے ایک بڑے سرمائے کے ساتھ تشریف لائے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک موقع کی مناسبت سے کہنے لگے کہ عمر کے اس حصے میں ایسی باتوں کو بیان کرتے خوف آتا ہے لیکن ہے بڑی مزے کی بات۔

پاک ٹی ہاؤس کے اندر ایک بڑے شاعر پر تعزیتی جلسہ جاری تھا۔ ہم کچھ لوگ باہر سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے تھے کہ منیر نیازی تانگے پر آ گیا۔ پوچھا کہ اندر کیا چل رہا ہے۔ ہم نے بتایا تو وہیں تانگے میں کھڑا کھڑا کہنے لگا ”اس مرحوم کی موجودگی سے ادب میں جو خلا تھا، وہ آج پر ہو گیا“ ہنسی اس بدخوئی پر آتی ہے جس کے پیچھے نیت صاف ہو۔ منیر صاف شفاف روح تھی۔ وہ بدخوئی بھی کرتا تو اس میں بھی حسن بھر دیتا، ذکاوت سمیٹ لاتا۔

جس کمرے میں منیر نیازی سے ملاقات ہوئی تھی، بہ ظاہر وہ ڈرائنگ روم تھا اور بالائی منزل پر واقع تھا۔ اس کی ایک دیوار پر ان کے معاصرین شعرا و ادبا کی تصاویر آویزاں تھیں۔ ہر تصویر الگ سائز کی اور فریم بھی الگ الگ ڈیزائن کے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں سے بنوا کر آویزاں کیا گیا ہے۔ حیرت یہ تھی کہ ہر تصویر میں منیر نیازی خود بھی موجود تھے لیکن ان تصاویر میں جو لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے وہ کوئی اتنے بڑے یا نامور شعرا نہیں تھے کہ یا دگار کے طور پر ان کی تصاویر منیر اپنے گھر میں آویزاں کرتے لیکن وہ آویزاں تھیں۔ میری نگاہ بار بار ان تصاویر کی جانب اٹھ جاتی۔

انھوں نے بھانپ لیا اور کہنے لگے ”ہن میں سوچیا اے کہ ایس دیوار تے فوٹو لاون دے پیسے لواں گا۔ اہناں چ زیادہ تر لوگ او نیں جنہاں دا متھا میرے رب نے صرف سڑک ہموار کرن لئی بنایا اے۔ بڑا دل کردا اے کدرے کوئی سڑک بن رہی ہووے تے میں ایس نو ں، ایس نوں، ایس نوں متھے نال گرم گرم لک پدھری کروانواں۔ ایہ میرے گھر آکے اپنی فوٹو لا گئے، میں وی آکھیا لا دیو، کہیڑے اچے ہو جاؤ گے لیکن ہن ریٹ لان دا سوچ رہیا واں۔ گھٹ و گھٹ پندرہ ہزار تے ہونا ای چاہیدا اے۔ (اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اس دیوار پر فوٹو لگوانے کے پیسے لوں گا۔ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں کہ جن کا ماتھا میرے رب نے سڑک کو ہموار کرنے کے لیے بنایا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کہیں کسی جگہ کوئی سڑک بن رہی ہو اور میں اس کے، اس کے اور اس کے ماتھے سے گرم گرم تار کول کو ہموار کروں) اپنے معاصرین شعرا کے بارے میں جو جی میں آتا، کہ جاتے لیکن اس میں کوئی گرانی کا شائبہ تک نہ ہوتا بلکہ سن کر ہنسی چھوٹ جاتی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی بتاتے ہیں کہ انھیں رسائل اور اخبارات میں شائع ہونے والے مزاحیہ کارٹون بہت پسند تھے اور اکثر کسی نہ کسی کارٹون کو اپنے معاصر شاعر پر منطبق کر کے خوب ہنستے اور ہنساتے۔

اب ملاقات کے بالکل ابتدائی الم آفریں لمحات۔ انھوں نے بیٹھتے ہی کاغذ، قلم نکالنے کو کہا۔ ان کا ارادہ کچھ ایسا تھا کہ وہ نظم اور غزل لکھوا دیں گے۔ انھوں نے کاغذ، پنسل کا کہا تو میرے پاس نہیں تھی۔ طیش میں آ گئے لیکن ٹھہرے ہوئے تحکمانہ لہجے میں مجھ سے کہا ”کھڑا ہو جا“ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ انھوں نے دروازے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ”نکل جا میرے گھر توں۔ ہوویں توں مدیر تے تیرے کول تیری شناخت دے بنیادی حوالے نہ ہون۔ ادھوری شناخت لے کے توں آیا کس طراں ایتھے۔“ (نکل جاؤ میرے گھر سے۔ مدیر ہو کر تمھارے پاس اپنی شناخت کے بنیادی حوالے نہ ہوں۔ ادھوری شناخت لے کر تم آئے کیسے)

میں ڈرائنگ روم کے دروازے پر پہنچا تو مڑ کر انھیں دیکھا اور کہا ”نیازی صاب! تسی تے میں اکو جیے آں، میرے کول پنسل اے کاغذ کوئی نہیں۔ ادھا ٹھیک آں تے ادھا خراب تہاڈی طبیعت وانگوں۔“ (نیازی صاحب! آپ اور میں ایک جیسے ہی ہیں۔ میرے پاس پنسل ہے، کاغذ نہیں۔ آدھا ٹھیک ہوں، آدھا خراب۔ آپ کی طبیعت کی طرح) انھوں نے ایک لمبی ہوں کی اور واپس بلا کر اپنے پاس بٹھا تے ہوئے کہا ”بوہتیاں گلاں نہیں کری دی ہوندیاں۔“

وہ دن اور آج کا دن میں اپنی جیب ضرور دیکھتا ہوں کہ اس میں میری شناخت کے بنیادی حوالے موجود ہیں یا نہیں۔ جس عہد کا بڑھاپے میں جا کر ان سے سامنا ہوا، وہ عہد شناخت کو ہڑپ کرنے والا عہد تھا۔ انھوں نے کس طور عدم شناخت کو سہا ہو گا، سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آج سے بیش پچیس سال قبل سلیم کوثر نے کراچی سے لکھ بھیجا تھا کہ اللہ نہ کرے آپ لوگوں کو ہماری طرح اپنی ہی بستی میں شناخت پریڈ کے عمل سے گزرنا پڑے۔ اپنے شہر میں رہتے ہوئے اپنی شناخت دکھانا کتنا تکلیف دہ ہے، اس بات کا اندازہ تب ہوا جب ہمارے یہاں ادھر لاہور میں بھی جگہ جگہ ناکے لگا دیے گئے اور شناخت پریڈ سے آتے جاتے گزرنا پڑا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments