منیر نیازی: شہر کی فصیلوں میں جڑا ہوا ایک پراسرار داخلی دروازہ


منیر کا ناکہ بڑا سخت تھا، وہ اندر کی شناخت کرنے والوں میں سے تھے۔ جب اندر کی بے چہرگی نمایاں ہوتی ہے تو باہر کی شناخت لازم ہو جاتی ہے۔ کاش، ہم نے منیر کی اس رمز کو جانا ہوتا تو اس خارجی شناخت کے تکلیف دہ عمل سے محفوظ رہتے۔

اس ملاقات کے دوران منیر کو خود نیچے کی منزل پر جا کر کاغذ قلم لانا پڑا جس کا مجھے آج تک افسوس ہے کہ میری وجہ سے انھیں زحمت ہوئی لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔ ان کی بشاشت اور کرم نوازی پر فرق نہ آیا۔ انھوں نے کمال مہربانی سے میری معصوم فرمائش کو پورا کیا اور اپنے ہاتھ سے غزل اور نظم لکھ کر دی۔ غزل کے اشعار پیش کر چکا ہوں۔ نظم حافظے میں اس طور زندہ ہے۔

بوندا باندی میں
کسی گھنے شجر تلے بیٹھ کر
زمانے کو بھول کر سوچنے کی گھڑی ہے
اور دروازے پر ہو رہی دستک کا جواب دینا ہے مجھے

نظم کا عنوان نہ تھا۔ میں نے اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ”تینوں اختیار دتا“ یہ سن کر خوش ہونے کی بجائے میں پریشان ہو گیا لیکن ان کے سامنے پریشانی کا اظہار نہ کیا۔ نیو ہاسٹل واپس آ کر اپنے نہایت قریبی دوست جو شعر وا دب کا شستہ ذوق رکھتے تھے، سب کو بلا لیا۔ تجویز دی کہ اس نظم کا عنوان ”جھلاہٹ“ ہو۔ اطہر قسیم صدیقی نفیس شاعر ہے، شاہد فرید، لالہ بخاری، آصف وٹو، آصف بٹ سبھی متفق ہوئے اور نظم اسی عنوان کے ساتھ ’راوی‘ میں شائع ہو گئی۔ ہمارا تعلیمی دورانیہ جب اختتام کو پہنچا تو پرندوں نے مراجعت کی اور اپنے مانوس اشجار کی سمت لوٹ گئے۔

اگلے برس ’راوی‘ کے مدیر کا فون آیا کہ منیر نیازی صاحب تم سے بہت ناراض ہیں اور سمجھ لو کہ دو نالی بندوق لے کر تمھیں تلاش کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ہیں؟ کیوں؟ وہ کہنے لگا کہ مصیبت بھی یہی ہے کہ بتاتے بھی نہیں کہ بات کیا ہے۔ ایک ہی بات بار بار دہراتے ہیں ”سنجرانی نوں لبھ کے لے آؤ پہلوں، باقی گلاں بعد چ ہون گیاں۔“ میں نے مدیر کو حوصلہ دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اگلے دن ان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ جب میں ان سے ناراضی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اتنا کہا ”اک زمانہ سی جدوں سر ننگا رکھنا بے ادبی چ شامل سی، ہون سر تے ٹوپی پان دا زمانہ نہیں۔“ ( ایک زمانہ تھا جب ننگے سر پھرنا بے ادبی کے زمرے میں شامل تھا۔ اب سر پر ٹوپی لینے کا زمانہ نہیں) میں عرض کیا کہ آپ ہی نے اختیار دیا تھا۔ فرمانے لگے ”فیر وی، خیال کر لیندا کہ اے زمانہ سر کجن دا نہیں۔“

شہر در شہر خاک چھاننے اور ایک زمانہ گزرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں تبادلہ ہوا۔ نہ جانے کتنے زمانوں کے بعد منیر نیازی صاحب سے پھر سے ملنے کی ایک صورت پیدا ہوئی۔ گورنمنٹ کالج کے سالانہ مشاعرے میں انھیں صدارت کرنا تھی۔ انھیں لانے اور واپس گھر چھوڑنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی کہ کوئی اور ان کے گھر کا پتہ جانتا نہ تھا۔ اس پر خوشی کے ساتھ ساتھ گہرا رنج بھی ہوا کہ ہم کیسے بے خبر ہیں کہ سیکڑوں میں کسی کو ان کی رہائش گاہ کا علم نہیں۔ سربراہ ادارہ ڈاکٹر خالد آفتاب صاحب ان کے مداح تھے اور قریبی بھی۔ انھوں نے اپنی گاڑی بھجوائی۔ میری یادداشت نے ساتھ دیا۔ میں نے فون کر کے صرف اتنا بتایا کہ گورنمنٹ کالج سے ہم آپ کو لینے کے لیے اس وقت تک آپ کے ہاں پہنچ جائیں گے۔ نہ انھوں نے میرا نام پوچھا، نہ میں نے بتایا۔ خیال تھا کہ اتنے زمانوں کے بعد ملاقات ہو گی تو ملنے پر حال دل بیان کر دوں گا۔ گھر کے باہر پہنچ کر خبر بھجوائی کہ گورنمنٹ کالج سے گاڑی آپ کو لینے آئی ہے۔

حسب معمول رات کے چاند کی مانند نکلے۔ میں نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ انھوں نے مجھے ایک نظر دیکھا۔ ان کی نظر میں اک خامشی تھی۔ ٹاؤن شپ سے نکلتے ہی انھوں نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور کہا کہ آگے فلاں جگہ پر ایک میڈیکل سٹور ہے۔ وہاں سے دوائی خرید کر آگے جائیں گے۔ جب گاڑی مطلوبہ جگہ پر پہنچی تو وہ خود گاڑی سے نکلنے لگے۔ میں منع کیا کہ پرچی مجھے دے دیں، میں لے آتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ایہہ سارے ای بڑے چار سو وی نیں۔ تینوں ٹھگ لین گے۔ میرے اگے دم نی مار دے۔ میں روکتا رہ گیا۔ دوائی انھوں نے گاڑی سے خود اتر کر خریدی۔ پیسے خود ادا کیے۔ شہر میں بات گردش کرتی رہتی تھی کہ وہ فرمائشیں کرتے ہیں، فرمائش پوری نہ ہو تو مشاعرہ نہیں پڑھتے۔ میرا ایسا کوئی تجربہ نہیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو معاشرے کو اس پر ناز کرنا چاہیے کہ کوئی نابغہ اپنے لوگوں سے اس قدر اپنائیت رکھتا ہے۔

منٹو کے آخری چند برسوں کے بارے میں تواتر سے یہ لکھا گیا کہ وہ اپنے پرائے کی تفریق کیے بنا ہر کسی سے پیسے مانگ لیتے تھے۔ سماج کو اس سے زیادہ کیا محبت درکار ہو۔ منٹو نے ٹوٹ کر ہمیں چاہا۔ میں جب بھی اس حوالے سے سوچتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے منٹو نے پورے لاہور کو اپنایا۔ یوں تھوڑا ہر کسی سے کہا جاتا ہے کہ بیس روپے نکالو۔ نہیں ہیں تو دس دے دو۔ اگر وہ بھی نہیں ہیں تو کسی سے پکڑ لاؤ۔ یہ بلا کی اپنائیت ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

افسوس ہم نے منٹو کے حوالے سے اس اپنائیت کو نہ سمجھا۔ نہ اسے سمجھا اور نہ ہی اس کے اپنائیت بھرے رشتے کو سمجھا۔ مجھے نہیں معلوم منیر نیازی کے بارے میں اس بات میں کہاں تک صداقت ہے۔ میں دکھی ہوں کہ انھوں نے مجھ سے ایسا اپنائیت بھرا رشتہ قائم نہ کیا اور خود گاڑی سے اتر کر اپنی جیب سے دوا خریدی۔

ہماری گاڑی نہر کنارے رواں تھی۔ شام ڈھل چکی تھی۔ رات کی چادر میں برقی قمقمے جگنوؤں کی مانند روشن تھے۔ نہر کنارے اگے درختوں سے چھن چھن کر آتی برقی قمقموں کی روشنی اور درختوں کے سایوں میں ہم خامشی سے گورنمنٹ کالج کی طرف رواں تھے۔ انھوں نے پورے رستے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ میں بھی خاموش رہا۔ واپسی بھی اسی خاموش منظر میں ہوئی۔ میں یقین کر چکا تھا کہ اس طویل مدت میں رابطہ نہ رہ سکنے کے وجہ سے میں انھیں یاد نہیں۔ میں نے بھی انہیں کچھ یاد دلانے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی گزشتہ ملاقاتوں کا احوال یاد دلایا۔ اندر ہی اندر دکھ ضرور تھا۔ جب وہ گاڑی سے اتر کر گھر داخل ہونے لگے تو قریب آئے۔ کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”یاد رکھیں! چپ وڈا جہان اے تے چپ دا رشتہ بوہتا گوڑھا ہندا اے۔“ ( یاد رکھنا، چپ بہت بڑا جہان ہے اور چپ کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔) میں تو جیسے بت بن کر رہ گیا۔ ایسا شخص شہر میں ضرور ہونا چاہیے۔ شہر ان لطیف خیالات کے بغیر خالی ہو جاتے ہیں۔

منیر نیازی کی نماز جنازہ اور دعا کے بعد جب ان کی میت اٹھائی گئی اور نعرہ شہادت بلند ہوا تو ہم میں سے کم ہی لوگوں میں ہمت تھی ان کو اس طور اٹھتا دیکھ سکیں۔ شعوری طور پر کئی لوگوں کی طرح میری نگاہ ادھر ادھر دوڑی۔ میں نے محمد سلیم الرحمن صاحب کو دیکھا۔ زاہد ڈار، شاہد حمید، انتظارحسین ان کے قریب ہی کھڑے تھے۔ محمد سلیم الرحمن صاحب کے ہونٹ شدت غم سے کپکپا رہے تھے۔

میں نے مرگ پر کسی کو اس طور اور اتنا شدید غم میں ڈوبے نہیں دیکھا جتنا محمد سلیم الرحمن صاحب کو اس دن دیکھا۔ شیو کمار بٹالوی کا کیا خوب صورت مصرع ہے آکھ سو مائے اینوں رووے بل چتھ کے نی۔ میں نے سلیم صاحب کو اس دن اس طور روتے دیکھا۔ حالانکہ سلیم الرحمن صاحب کا گھر میرے گھر کے قریب ہی تھا اور ان سے ملاقات بعد میں بھی رہی لیکن ان سے تعزیت کرنے کا حوصلہ میں آج تک اپنے اندر نہیں پاتا۔ وہ سلیم الرحمن صاحب کے پرانے دوست تھے، دیر کے جاننے والے تھے۔ نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ منیر کے اٹھنے کو ہم میں سب سے پہلے ان کے اسی دوست نے محسوس کیا اور سب سے بڑھ کر محسوس کیا کہ وہ جانتے تھے کہ کون اٹھ گیا۔ میں سلیم الرحمن صاحب کو جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے منیر نیازی یاد آتے ہیں اور ’راوی‘ میں شائع ہونے والی ان کی غزل کا پہلا مصرع

وہ اپنا یار تھا دیر کا، کسی اور شہر میں جا بسا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments