زندگی کی واپسی


مارچ کا کوئی دن تھا۔ میرا بیٹا بیرسٹر وقاص فاروق مجھے لے کر لاہورپروفیسرڈاکٹر عاطف کے ہاں پہنچا۔ بہت سے ٹیسٹ لئے گئے۔ سینے کا سی ٹی اسکین ہوا۔ ناک میں روئی ڈال کر کرونا ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان ٹیسٹوں کے نتائج آنے سے پہلے ہی پروفیسر صاحب نے کرونا کا اعلان کر دیا۔ 73 سالہ بوڑھے کے لئے کرونا کا یہ اعلان موت کی خبر تھی۔ میں نے ڈرائیور سے گاڑی اپنے شہر گوجرانوالہ موڑنے کو کہا۔ والدین کی قبریں دکھائی دینے لگیں۔

ان قبروں کے ساتھ ایک شیخ جی نے چند فرضی قبریں بنارکھی ہیں۔ بیچارہ نہیں جانتا، بہت سے سرداوے بھی خالی رہ جاتے ہیں۔ دلی خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ میں اکبر ثانی اور مرزا فخرو کی قبروں کے درمیان ایک خالی سرداوہ (قبر کے لئے رکھی ہوئی جگہ) ہے۔ یہ جگہ دلی کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر نے اپنے لئے رکھی تھی مگر اسے دلی کی خاک میں سونا نصیب نہ ہوا۔ اب کالم لکھنا تو درکنار ہم اخبار پڑھنا تک بھول گئے۔

دوست احباب اور جاننے والوں کی طرف سے کالم نہ شائع ہونے پر اتنی کرید ہوئی کہ یہ اس بیماری میں بھی اچھا لگا۔ رزق کے بعد بندہ پوری عمر شناخت کے پیچھے بتا دیتا ہے۔ میرے شہر گوجرانوالہ میں امراض قلب کا ایک ہسپتال ہے۔ یہ شیخ محمد نسیم فیملی کی طرف سے گوجرانوالہ کے شہریوں کو ایک تحفہ ہے۔ شیخ محمد نسیم جیسے دیانتدار، دھن کے پکے اور رفاہی جذبہ رکھنے والے کسی بھی معاشرے کے لئے اللہ کا انعام ہیں۔ پھر ایسے لوگ بھلا ہوتے بھی کتنے ہیں؟

گھر گھر جمن چڑیاں تے گھر گھر جمن کاں

ورلے گھراں وچ جمدے ہنس جنہاں دا ناں

ایسے رفاہی ادارے بنانا مشکل نہیں۔ لیکن انہیں حسن تدبیر سے چلانا بہت مشکل ہے۔ اس ہسپتال میں ایک کمرہ مل گیا۔ اب میں تھا اور میرا بیٹا بیرسٹر وقاص فاروق۔ سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟ یہ صرف وہی جانتا ہے۔ دن ہو یا رات، مجھے اسے دوسری بار بلانا نہیں پڑا۔ بیوی بچوں، بہنوں، رشتہ داروں سے بہت محبت اورتوجہ ملی۔ کرونا۔ درد دل وحشی بھی۔ 102 تک مسلسل گھٹتا بڑھتا بخار۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں۔ آگے میری کہانی شعیب بن عزیز کی زبانی۔

سلگتے ماتھے پہ خنکی کسی کے ہاتھوں کی

دیار مرگ سے لوٹا ہوں زندگی کے لئے

ہفتوں میرے دونوں ہاتھوں پر برنولے لگے رہے۔ کپڑے بدلنے میں ان برنولوں سے بڑی الجھن اور تکلیف ہوتی رہتی۔ لو! بھولی بسری شاعری یاد آ گئی:

کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے

بڑی مشکل سے دیوانے ترے دفنائے جاتے ہیں

ان برنولوں کے راستے میرے معالج رات دن اللہ جانے میرے پنڈے میں کیا بھجواتے رہے۔ اس طرح دل میں خوف خدا ضرور بڑھ گیا۔ یہ کرونا کا خوف تھا یا خوف خدا؟ سچی بات ہے کہ ان دونوں میں فرق ممکن نہیں۔ کرونا مجھے الگ سے ضرور بتاتا رہا۔

سنو! سنو! میں فطرت کا پیغام لایا ہوں۔ تم سب ایک ہو۔ ایک مٹی سے ہو۔ ایک ہی مٹی میں جانے والے ہو۔ اک دوسرے کی زندگی کا خیال رکھو گے تبھی خود بھی زندہ رہ سکو گے۔ تم سب کی زندگی ایک کچے دھاگے سے بندھی ہے۔ ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا۔ میں نے کہا۔ تم کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ نبی، ولی، رشی یہی بتاتے بیت گئے۔ بولا! اللہ روز ازل سب کچھ پیدا کر چکا، نور بھی اور سچائی بھی۔ اب کوئی نئی نویکلی بات کہاں سے لاؤں؟ حضور ﷺ سے ایک بدو نے سوال کیا۔

یارسول اللہ ﷺ، چند لفظوں میں اسلام کے بارے بتایئے کہ بھول نہ پاؤں اور یاد رکھ سکوں۔ فرمایا:اول پاکیزگی۔ دوم ؛بے وسائل لوگوں کو اپنے وسائل میں حصہ دار سمجھنا۔ یہاں لفظ ”حصہ دار“ قابل غور ہے۔ سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ پوچھ رہے تھے۔ اب طہارت ممکن نہیں۔ کپڑے ناپاک رہتے ہیں۔ جسم ساتھ چھوڑ گیا۔ اب نمازپڑھوں تو کیسے پڑھوں؟ انہیں عمر کے 93 ویں برس یہ مشکل درپیش تھی۔ لیکن لاکھوں، اربوں کھربوں نوری سالوں کے فاصلوں پرپھیلی اس کائنات میں آپ زندگی اللہ کے سہارے کے بغیر کیسے بسر کر سکتے ہیں؟

گوجر خاں کے عارف نے یہ گتھی خوب سلجھائی ہے۔ کہا۔ مچھلی کے پیٹ میں غلاظتوں کے انبار میں پاکیزگی کہاں؟ لیکن ایک جلیل القدر نبی نے یہیں سے اپنے اللہ کو پکارا تھا۔ بندہ مشکل میں اپنے آپ کو مچھلی کے پیٹ میں سمجھے۔ سو آپ جب چاہیں بغیر وضو دعائے قنوت (حضرت یونسؑ کی دعا) کا ورد کر سکتے ہیں۔ میں بھی اپنی مشکل میں اسی طرح اپنے رب کو پکارتا رہا۔ اس نے سن لی اور مجھے پھر زندگی کی راہ پر ڈال دیا۔ امریکی صدر جمی کارٹر سے پوچھا گیا ”اپنی تمام تر طاقت اور حکمت عملی کے باوجود امریکہ ایران کو سرنگوں کیوں نہ کر سکا“ ؟ عیسائی جمی کارٹر جھٹ بولا۔ ”لگتا ہے اس کو شش میں اللہ ہمارے ساتھ نہیں تھا“۔ سو خالق کائنات تخلیق کائنات کے بعد اپنی کائنات سے کچھ اتنا لاتعلق بھی نہیں۔ وہ نہیں بھی سنتا۔ وہ سن بھی لیتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ گوجرانوالہ کے مرحوم وکیل خواجہ جاوید احمد یہ شعر خوب مزے لے کر پڑھا کرتے تھے۔

تو میرے اعمال کا پابند نکلا حشر میں

اے خدا میرے خدا تجھ کو خدا سمجھا تھا میں

شاید وہ صرف طعنوں سے اپنی بخشش کا سامان کرناچاہتے تھے۔ ہاں! یہ بھی سن لو، جسے اپنی بخشش کی فکر ہے اس کی مولا بھی ضرور فکر کرے گا۔ کھڑی شریف کے درویش کا کہنا ہے : ”مالک دا کم پھل پھل لاؤنالاوے یا نہ لاوے“ ۔ القصہ! وحی، دانش اورسائنسی ترقی کے باوجود انسان ابھی تک ”معلوم“ کے اسی مقام پر حیران کھڑا ہے جواڑھائی ہزار برس پہلے ”مکالمات افلاطون“ میں لکھا گیا۔ اس میں افلاطون نے اپنے علم کی وسعت یوں بیان کی تھی : ’‘ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments