ایک درویش صفت عورت کی کہانی  (مکمل کالم)


میری کیوری وہ خاتون تھی جس نے نوبل انعام کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو الگ الگ شعبوں، کیمیا اور طبیعات، میں انعامات حاصل کیے۔ میری کیوری کے نام سے میں بچپن میں واقف ہوا تھا، شاید کوئی مضمون نظر سے گذرا تھا جس میں لکھا تھا کہ انہوں نے ’اتفاقاً‘ ریڈیم دریافت کیا تھا۔ اُن کا یہ تعارف ذہن سے چپک کر رہ گیااور میں یہ سمجھتا رہا کہ اِس عورت کا ’تکا‘ لگ گیا جس کی وجہ سے مفت میں نوبل انعام مل گیا۔ مجھے اِس بات کا بالکل علم نہیں تھا کہ میری کیوری ایک غیر معمولی صلاحیتو ں کی حامل عورت تھی جو نہ صرف جینئس تھی بلکہ ایک بے حد درد مند دل بھی رکھتی تھی۔ وہ تو بھلا ہوا ایک آدمی کا جس کی ٹویٹ نظر سے گزری جس میں اُس نے کچھ کتابیں پڑھنے کے لیے تجویز کیں۔ میں نے کتابوں کے نام سے اندازہ لگایاکہ موضوعات میری دلچسپی کے ہیں سو میں نے وہ کتابوں بذریعہ انٹر نیٹ منگوا لیں۔ اُن میں سے ایک کتاب قیمت غالباً بارہ یا تیرہ سو روپے تھی مگر جب میں نے یہ کتاب کھول کر دیکھی تو خاصا مایوس ہوا، کُل ایک سو پندرہ صفحات کی چوکور ڈیزائن میں شائع شدہ یہ کتاب بچوں کے لیے تھی جس میں میری کیوری کے حالات زندگی لکھے تھے۔ مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے کسی کام کی بھی نہیں سو میں نے بغیر پڑھے اسے مسترد شدہ کتابو ں کے ڈھیر میں رکھ دیا۔

کچھ روز بعد مجھے خیال آیا کہ میں اُس کتاب پر پیسے تو خرچ کر ہی چکا ہوں تو کیوں نہ سو صفحے پڑھ ہی ڈالوں۔ ذہن میں وہ لطیفہ بھی تھا جس میں ایک شخص صابن بیچنے کا کام شروع کرتا ہے اور جب کام نہیں چلتا تو صابن کھانا شروع کر دیتا ہے کہ اب پھینکنے سے تو رہا۔ یہی سوچ کر میں نے کتاب اٹھائی اور بے دلی سے پڑھنی شروع کی، جوں جوں میں کتاب پڑھتا گیا توں توں میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیااور میں نے ایک ہی نشست میں وہ کتاب پڑھ ڈالی۔ پیسے پورے ہو گئے۔ آج اگر میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرست بنائوں تو یہ کتاب لازماً اُس میں شامل ہوگی۔ کتاب کا نام ہے  Something out of Nothing۔ یہ کتاب ویسے تو میری کیوری کی زندگی کے متعلق ہے مگر اصل میں یہ درویشی کی ایک داستان ہے جو ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہیے جسے سائنس اور تصوف دونوں سے شغف ہے اور یہ اُن لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے جو نامساعد حالات کو اپنی ناکامی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ اُس عورت کی کہانی ہے جو بد ترین حالات میں پلی بڑھی مگر پھر بھی دو نوبل انعام جیت گئی۔

میری کیوری پولینڈ میں اُس زمانے میں پیدا ہوئی جب پولینڈ یورپی ممالک کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا، نقشے پر اُس کا وجود مٹ چکا تھا اور پولش اسکولوں میں زبردستی روسی زبان اور تاریخ پڑھائی جاتی تھی۔ ایسے ہی ایک اسکول میں جہاں میری پڑھتی تھی روسی انسپکٹر تعلیم دورے پر آیا، دس سالہ میری اُس وقت بھی اپنی جماعت کی سب سے ذہین طالبہ تھی، انسپکٹر نے اُس سے کچھ سوال پوچھے جن کا اُس نے ٹھیک ٹھیک جواب دیا، پھر انسپکٹر نے آخری سوال کیا:”بتائو ہم پر کون حکومت کرتا ہے؟“بدقت تمام میری کے منہ سے نکلا:”زار روس، عزت مآب الیگزنڈر دوئم!“ انسپکٹر مطمئن ہو کر واپس چلا گیا۔ دورے کے بعد میری کے پولش استاد نے اسے بلایا، ’یہاں آئو میری بچی‘ اور پیار سے اُس کا ماتھا چوما تو میری کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا۔ یہ میری کی طلاطم خیز زندگی کی شروعات تھی۔

میری کی ماں کو ٹی بی تھی، وہ اپنے بچوں کو پیار نہیں کر سکتی تھی کہ کہیں انہیں بیماری نہ لگ جائے۔ باپ اسکول میں استاد تھا جہاں اُس کی روسی افسر سے نہیں نبھتی تھی، اِس کشمکش میں میری کے باپ کا نقصان ہوا، اُس کی تنخواہ کم کر دی گئی اور گھر واپس لے لیا گیا۔ ناچار انہیں ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا اور آمدن بڑھانے کے لیے اِس اپارٹمنٹ میں کچھ لڑکوں کو کرائے پر رہنے کے لیے جگہ بھی دینی پڑی۔ ایسے ہی ایک کرائے دار کو کوئی بیماری تھی جو میری کی دو بہنوں کو بھی لگ گئی، ایک بہن جانبر نہ ہو سکی اور چودہ سال کی عمر میں مر گئی۔ کچھ عرصے بعد ٹی بی سے ماں بھی مر گئی۔ میری اس کے بعد ہر وقت کتابوں میں گم رہنے لگی، اسے کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا کہ اُس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔

چودہ سال کی عمر میں اُس کا اسکول بدل گیا، نئے اسکول میں تمام استاد روسی تھے جو پولش بچوں کو دشمن سمجھتے تھے۔ ایک مسئلہ میری کی بارہ سالہ بہن برونیا کا تھا جو پیرس جا کر ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر پیسے کم پڑتے تھے۔ میری نے اسے کہا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق پڑھائی کرے، اِس دوران میری ملازمت کرکے اسے پیسے بھیجتی رہے گی، پھر جب برونیا ڈاکٹر بن جائے گی تو وہ اُس وقت میری کی مدد کر دے گی۔ میری کی عمر اُس وقت اٹھارہ برس تھی جب اُس نے اپنے شہر سے دور ایک گورننس کی نوکری تلاش کی اور کام میں لگ گئی۔ وہ نہ صرف نوکری کرتی بلکہ ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی کرتی، اُس وقت تک ریاضی اور طبیعات میں اُس کا رجحان واضح ہو چکا تھا۔ ایک دن میری کو پتا چلا کہ اُس چھوٹے سے شہر میں بہت سے ایسے بچے ہیں جو اسکول نہیں جا پاتے، میری نے انہیں پڑھانے کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیااور انہیں پولش زبان میں تعلیم دینے لگی۔ درویشی کی کوئی عمر تھوڑی ہوتی ہے !

پھر وہ وقت بھی آیاجب میری اپنی تعلیم کے لیے پیرس روانہ ہوئی۔ ضرورت کی تمام چیزیں اُس نے گھر سے باندھ کر پیرس بھجوا دیں تاکہ وہاں مہنگے داموں نہ خریدنی پڑیں، سب سے سستا درجہ چہارم کا ٹکٹ لیا جس میں بیٹھنے کے لیے اپنی کرسی ساتھ لانی پڑتی تھی اور کھانے پینے کے لیے سامان گھر سے ہی لے لیا کہ یہ تین دن کا سفر تھا اور راستے میں خرید کر کھانا اُس کی استطاعت سے باہر تھا۔ پیرس آ کر اسے پہلی مرتبہ آزادی کا احساس ہوا، یہاں وہ بلا کسی خوف کے پولش زبان میں بات کر سکتی تھی، یہاں کسی روسی انسپکٹر کا ڈر نہیں تھا۔

پیرس میں میری کی ملاقات ایک سائنس دان ’پیآ کیوری‘(Pierre Curie) سے ہوئی جس نے میری کو شادی کی پیشکش کی۔ یہ فیصلہ میر ی کے لیے بہت مشکل تھا، ایک طرف وہ پیرس میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کی خواہش مند تھی تو دوسری طرف وہ مقبوضہ پولینڈ واپس جا کر اپنے ہم وطنوں کو تعلیم دینا چاہتی تھی۔ میر ی نے شادی کی پیشکش ٹھکرا دی اور وارسا واپس آ گئی۔ پیآ کیوری نے ہمت نہیں ہاری اور میری کو خطوط لکھ کر اِس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ اکیلی پولینڈ میں کوئی تبدیلی نہیں لا پائے گی، ایک خط میں اُس نے لکھا کہ ’ہم دونوں مل کر سائنس کے ذریعے اِس دنیا کو بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ ‘ستمبر 1894میں میری پیرس آ گئی تاکہ اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکے اور پھر بالاخر  1895 میں میری نے پیآ کیوری سے شادی کر لی، پیآ کیوری کی ڈاکٹریٹ مکمل ہوئے اُس وقت چار ماہ ہوئے تھے۔ نیا شادی شدہ جوڑا اپنے سادہ سے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا جس کی کُل آرایش ایک پلنگ، ایک میز، دو کرسیوں اور ایک لیمپ پر مشتمل تھی۔ اپنی شادی پر انہیں جو سلامی ملی تھی اُس سے انہوں نے دو سائیکلیں خریدیں اور فرانس کی سیر پر نکل کھڑے ہوئے، یہ اُن کا مختصر سا ہنی مون تھا۔

شادی کے بعد پیآ اور میری کیوری کی زندگی میں گویا انقلاب آ گیا، دونوں سر تا پا سائنس کے عشق میں ڈوبے ہوئے تھے، سائنس کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ پیآکیوری کے باس نے میری کو اجازت دے دی کہ وہ بھی کیمیا اور طبیعات کے اسکول میں تحقیقی کام کر سکتی ہے، میری کو اور کیا چاہیے تھا، وہ میری روزانہ اپنے شوہر کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر لیبارٹری میں جاتی اور اسی کے ساتھ واپس آتی۔ 1897میں میری کی تین سال کی تحقیق ختم ہوئی جو اُس نے فولاد کی مقناطیسی خصوصیات پر کی تھی، تحقیق کے معاوضے کے طورپر جو رقم ملی اُس سے اِس فرشتہ سیرت خاتون نے اپنے وظیفے کے پیسے واپس کر دیے حالانکہ وہ وظیفہ اسے تحفتاً ملا تھا اور وہ اِس ادائیگی کی قطعاً پابند نہیں تھی۔ اگر یہ وظیفہ اسے نہ ملتا تو وہ کبھی ریاضی میں ماسٹرز نہ کرپاتی، یہی سوچ کر اُس نے پیسے واپس کیے کہ اب یہ وظیفہ کسی ضرورت مند ہم وطن کے کام آ جائے گا۔ حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ کپڑوں کا کوئی برینڈ لانچ کرتی اور باقی عمر عیش کرتی!

مادام کیوری کو دو نوبل انعام کیسے ملے، اِس درویش صفت عورت کی کردار کشی کیسے کی گئی، اِس خاتون نے جنگ کے دوران اپنے ملک کے لیے کیا ناقابل یقین خدمت انجام دیں اور دنیا نے ریڈیم کی دریافت پر کیسا رد عمل دیا۔ ۔ ۔ یہ سب باتیں پھر کبھی …. نہیں…. بلکہ اگلے کالم میں۔ (جاری ہے)۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments