مجھے مارو میں دو ٹکے کا وارڈن ہوں


صبح جب آپ کے اور میرے بچے ابھی سو رہے ہوتے ہیں، شہر کے امراء اور روساء ابھی گرم بستر کی سلوٹوں میں گم نرم و گداز زندگی کے پہلو میں دراز ہوتے ہیں۔ میں منہ اندھیرے گھر سے نکلتا ہوں۔ میرے بچے میری بیوی سے پوچھتے ہیں۔

ماما۔ بابا نہیں آئے۔

اور وہ نیم مردہ، تخت رات اجڑے سہاگ والی بیوہ کی طرح اداس آنکھوں، مرجھائے چہرے، الجھے بالوں اور دور اندھے کنویں سے جیسے صدائے یوسف کی مانند۔ نحیف و نزار آواز کے ساتھ کہتی ہے۔

بٹیا آئے تھے۔ مگر جلدی چلے گئے۔ صبح ڈیوٹی پر جانا تھا۔
بیٹی پوچھتی ہے۔
ماما وہ رات کو بھی لیٹ آتے ہیں صبح بھی جلدی چلے جاتے ہیں۔ ابو کا دل نہیں کرتا ہمیں ملنے کو۔
میری بیوی تھوڑا سا۔ مزید پریشان ہو جاتی ہے۔
کہتی ہے بٹیا ڈیوٹی ہے ناں۔ آپ کے بابا۔ سرکاری ملازم ہیں ناں۔
بیٹا کہتا ہے۔ امی یہ سرکاری ملازم کیا ہوتا ہے۔
اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کہتی ہے۔
بیٹا جو سرکار سے تنخواہ لیتا ہے۔ اور لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ اور اس کی معاشرے میں بڑی عزت ہوتی ہے۔
بیٹی پوچھتی ہے۔

ماما۔ کیا تنخواہ اور عزت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہفتہ ہفتہ ہمارا منہ نہ دیکھیں۔ کیا تنخواہ اولاد اور فیملی سے زیادہ بڑی چیز ہوتی ہے۔

اور میری بیوی آنکھوں میں نمی لے کر ان کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔
بٹیا ایسی بات نہیں ملک کی خدمت کرنے والے کو بڑا رتبہ ملتا ہے۔
اور ہر روز اسی بحث کے ساتھ وہ بچوں کو سکول چھوڑ کر آتی ہے۔

میں گھر سے باہر آتا ہوں۔ راستے میں موٹر سائیکل پنکچر ہو جائے۔ یا لفٹ نہ ملے۔ شدید بارش ہو جائے یا ہڑتال ہو جائے۔ سردی گرمی، جھاڑا، بخار، بیماری، کیمرے میں وقت پر نہ پہنچیں اور بائیومیٹرک پر انگوٹھا نہ رکھیں تو غیر حاضری اور پھر سزا۔ سزا سے زیادہ سزا کے دن کا خوف سانس قبض کیے رکھتا ہے۔ گالی گلوچ، دیر سے آنے کے طعنے۔ دماغ میں سرخ طوفان کے ساتھ۔ میں سفید دستانے، سفید انکلیٹ اور سفید سیٹی کی ڈوری زیب تن کیے چوک میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔

صبح کے وقت میں سیٹی بجاتا ہوں۔ ہاتھ سے روکتا ہوں۔ پیچھے بھاگتا ہوں مگر کوئی اشارے پہ نہیں رکتا۔ سبز بتی پر سرخ اشارے کی طرف سے زوں کر کے موٹرسائیکل والا گزرتا ہے۔ زیبرا کراسنگ سٹاپ لائن سے بھی چند گز آگے۔ ریس پر پاؤں اور ہاتھ۔ جیسے آگ بجھانے کے لیے جانا ہو اور لوگ بھاگم بھاگ یہ جا وہ جا۔ کوئی سینئر آ گیا۔ اس نے بے عزتی شروع کر دینی ہے کہ لوگ سگنل کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور تم کھڑے ہو۔ کوئی نہیں پوچھے گا کہ خلاف ورزی کرنے والا اندھا ہے۔ اس کو نظر نہیں آتا۔

جوں جوں سورج دیوتا سر کی طرف عروج حاصل کرتا جائے گا۔ دھوئیں میں اضافہ۔ منہ اور ناک میں سیاہی کے بادل زیادہ جمع ہونا شروع ہو جائیں گے۔ لوگوں کا پارہ چڑھتا جائے گا۔ جس کو روکو وہ بولے گا۔ ”توں مینوں جاندا نہیں۔“

جھٹ سے فون نکالے گا۔ ساتھ ہی دس لوگ کھڑے ہو کر تماشا دیکھنا شروع کر دیں گے۔ کوئی موبائل سے ”سیلفی“ لینے کی کوشش کرے گا اور کوئی وڈیو بنانے کی۔ جیسے میں انسانوں کی دنیا میں Alien (خلائی مخلوق) ہوں۔ کھسر پھسر شروع ہو جائے گی۔ دور سے ایک ادھ گالی میرے کانوں تک پہنچے گی۔ کوئی کہے گا یہ ہیں ہی ”حرام خور“ ۔ کہیں سے آواز آئے گی۔ ”سو روپیہ اس کے منہ پر مارو“ اس کی اوقات ہی یہی ہے۔ کوئی ماں کے نام سے کچھ کہے گا۔ کچھ بہن کے نام سے۔ میں اپنی بے بسی کے ساتھ۔ قانون کا نام روشن کرنے کے لیے سب سنوں گا۔ کیونکہ میرے جذبات نہیں، احساسات نہیں۔ میں مٹی کا نہیں پتھر کا انسان ہوں جذبات سے عاری ہوں، ایک مشین کمپیوٹر، بے حس یا شاید بے غیرت مگر میرے سینئر اس کو سیچویشن ہنڈلنگ کہتے ہیں۔

بغیر ہیلمٹ، بغیر کاغذ، بغیر لائسنس، بغیر نمبر پلیٹ، بغیر بریک اور ہیڈ لائٹ موٹر سائیکل کو روکیں تو بھی کافر ہیں۔ ایک چند سطروں کی درخواست اور میری انکوائری شروع۔ میں درخواست کے ساتھ ہی گنہگار تصور کر لیا جاتا ہوں۔ اسی لئے انکوائری افسر مجھے بے گناہ جانتے ہوئے بھی کہتا ہے۔ ”معافی مانگ لو، صلح کر لو“ کیونکہ میں سرکاری ملازم ہوں۔ پھر درخواست دھندہ کرسی پر اور میں افسر مجاز کے رو برو کھڑا ہوتا ہوں۔ ڈیوٹی کے بعد گھنٹوں انتظار کرتا ہوں۔ اور پھر ”ترلے منتوں“ پر آ جاتا ہوں۔

وکیل صاحب ہوں تو وہ لائسنس مانگنے پر بار کا کارڈ دیتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ نہیں، اوور سپیڈ ہیں۔ اشارہ توڑا ہے۔ بندہ نیچے دے دیا ہے۔ کالے شیشے ہیں۔ سب کا ایک تریاق بار کا کارڈ۔

جہاں مرضی اور جب مرضی جو مرضی میرے منہ پر تھپڑ مار دیتا ہے اور وردی پھار دیتے ہیں۔ میں تھانے جاتا ہوں۔ کہتے ہیں ”وکیل کے خلاف درخواست ہے“ ۔ میرے منہ کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں۔ جیسے میں پاگل ہوں۔ پھر کہتے ہیں ”بھائی وکیل کے خلاف پرچہ نہیں ہو سکتا۔ اپنے افسران بالا کے پاس جاتا ہوں۔ وہ دیکھتے ہی ڈانٹتے ہیں۔“ تم جہاں جاؤ مسئلہ کھڑا کر لیتے ہو۔ Tactfully ہینڈل کرنا تھا۔ ہمیشہ ہمارے لئے درد سر بناتے ہو۔ کئی بار کہا ہے۔ وکلاء اور میڈیا کو طریقے سے ہینڈل کر لیا کرو۔ تم لوگوں کا دماغ خراب ہے سمجھتے نہیں۔

”میں پھٹی وردی، چہرے کی خراشیں، سر کے زخم، ورق ورق چالان بک دکھاتا ہوں۔ مگر۔ نالۂ بے اثر، اسی دوران چند وکیل میرے خلاف بدتمیزی کی درخواست لے کر سیاہ کوٹ کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کرانے پہنچ جاتے ہیں۔ مقدمہ درج ہو جاتا ہے یا معطل کر دیا جاتا ہوں۔“ پھر ترلے، منتیں ”معافیاں۔ فرائض کی ادائیگی جرم بن جاتی ہے اور ساری ایمانداری وکیل صاحب کے قدموں میں ہوا بن کر ناک کے راستے نکل جاتی ہے۔ اگر میں یہاں بھی اپنے قدموں پر قائم رہوں تو یا عدالت بلا کر عدالت کے اندر میری وردی پھاڑتے ہیں اور قانون اندھا ہوتا ہے اس لئے اس کو نظر نہیں آتا۔ میں پھٹی وردی، بجھے ہوئے چہرے اور سر سے بہتے ہوئے خون کے ساتھ جب گھر جاتا ہوں تو میری بیوی مجھے دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔ بیٹی پوچھتی ہے۔

ماما۔ آپ تو کہتی تھیں سرکاری ملازم کی بڑی عزت ہوتی ہے۔
بیٹا پوچھتا ہے۔
ملک کی خدمت کرنے والے کو بڑا رتبہ ملتا ہے۔ یہی روز کہتی ہیں ناں آپ؟

میری بیوی کی آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ میں بے بس ہو جاتا ہوں۔ اتنا ظاہری چوٹوں سے نہیں مرتا جتنا یہ معصوم لفظ مجھے مارتے ہیں۔

اور وہ خود ہی معصومیت سے جواب دیتے ہیں۔

بابا کیا وطن کی خدمت کرنے والے۔ عوام کی خدمت کرنے والوں کو اسی طرح مار کھانی پڑتی ہے۔ کیا ان کے سر پھاڑے جاتے ہیں۔ ان کی وردی پر ایسے ہی ہاتھ ڈالے جاتے ہیں۔

بابا کیا آپ بارڈر پر انڈیا سے جنگ لڑنے گئے تھے۔
یا سڑکوں پر عوام کی زندگی بچانے کے لئے!

اور میں۔ بے بس لا جواب اپنے زخموں کے میڈل اور بیچارگی کے آنسو لئے۔ ریت کی بوری کی طرح چار پائی پر ڈھیر ہو جاتا ہوں مگر کیا کروں۔

رکشہ والا، چنگ چی والا، ویگن والا، مزدا والا، ٹرک والا اور بس والا سب کی ایک ایک انجمن اور اس کے بے شمار رشتہ دار اور عہدے دار اشارہ توڑیں، غلط جگہ پارکنگ کریں، جہاں مرضی اڈہ بنا لیں۔ لائسنس ہے یا نہیں لیکن میں ان کو نہیں پوچھ سکتا۔ کیونکہ ہڑتال کر دیں گے۔ چوک بلاک کردیں گے۔ بجلی کے کھمبے پہ چڑھ جائیں گے اور پھر جو میری شامت آئے گی۔ ایک اور انکوائری، TV پر ایک ٹکر چلے گا۔ میں معطل۔ ”پھر ترلے، منتیں“ ۔ صلح کا بیان۔ اور پھر میں بے ایمان!

ٹریفک میری وجہ سے خراب ہے کیونکہ اس سب کا گنہگار صرف میں ہی ہوں کیونکہ مار کھا کر بھی خاموش رہنا میری مجبوری ہے۔ کیونکہ میں سرکار کا آدمی ہوں۔ انکوائری صرف میری ہی ہو سکتی ہے۔ میرے خلاف جھوٹی درخواست دینے والے کی نہیں۔

جو مرضی مجھ پر، جب مرضی الزام لگائے۔ میں گنہگار ہوں اور رہوں گا کیونکہ میں نے ایم اے پاس کر کے۔ معاشرے کو سدھارنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ میں بھی گینگ کا حصہ بن جاتا رشوت لیتا، غلط کام دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا تو میں اچھا آدمی ہوتا۔ مگر کیا کروں میرے خون میں مسئلہ ہے۔ میں غلط کر نہیں سکتا۔ اس لیے میں گنہگار ہوں۔ کیونکہ میں اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہا ہوں۔

میں سوچتا ہوں یہ سب کس لئے۔ اگر کسی کو ہیلمٹ پہننے کا کہہ رہا ہوں تو میں کس کی زندگی بچا رہا ہوں؟
اگر سیٹ بیلٹ پہننے کا کہہ رہا ہوں توں کس کی زندگی بچا رہا ہوں؟
اگر لائسنس بنوانے کا کہہ رہا ہوں تو کس کی زندگی بچا رہا ہوں۔ ؟
اگر سڑک پر ناجائز پارکنگ نہیں ہونے دے رہا تو کس لئے؟
اگر اشارہ نہیں توڑنے دے رہا تو کس کے لئے؟
اگر ون ویلنگ نہیں کرنے دے رہا تو کس کے لئے؟
شاید سب کچھ اپنی ذات کے لیے۔
میں نے ایم اے پاس کیا تھا اور عزت کی نوکری کی تھی اس لیے مجھے مارو
میں نے خدمت کے لئے نوکری کی تھی اس لیے مجھے مارو
میں نے آپ کو ہیلمٹ پہننے کا کہا اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے سیٹ بیلٹ باندھنے کا کہا اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے آپ کو حادثے سے بچایا اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے آپ کو اشارہ توڑنے سے بچایا اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے آپ کے بچے کو ون ویلنگ کرنے سے روکا اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے آپ کی سڑک سے ناجائز پارکنگ ختم کی اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے تھڑے اور قبضے سڑک سے ختم کیے اس لیے ۔ مجھے مارو
میں نے آپ کے لئے اپنے بچوں کو چھوڑا اس لیے ۔ مجھے مارو
میری بیوی کے بالوں میں چاندی اتر آئی میرے انتظار میں اس لیے ۔ مجھے مارو
میرا کینسر زدہ باپ بستر مرگ پر پڑا ہے اور میں ڈیوٹی پر ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
میری ماں آخری سانس لے رہی ہے اور میں ڈیوٹی پر ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
میرے گھر میں جنازہ پڑا ہے اور میں ڈیوٹی پر ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
میرا جوان بچہ ہسپتال میں ہے اور میں ڈیوٹی پر ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
میں گرد و غبار اور دھویں سے دمے کا مریض بن گیا ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
مسلسل کھڑے رہ رہ کر میری کمر میں درد ہے اس لیے ۔ مجھے مارو
کھانا وقت پر نہ کھانے سے شوگر ہو گئی ہے اس لیے ۔ مجھے مارو
آپ کی زندگی بچانے کے لئے آپ سے گالیاں کھاتا ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
سینئر افسران اور عوام سے تذلیل کراتا ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو
میرے بچے وقت نہ دینے پر مجھ سے نفرت کرتے ہیں اس لیے ۔ مجھے مارو
کیونکہ آپ وکیل ہیں اس لیے ۔ مجھے مارو
کیونکہ آپ کا تعلق میڈیا سے ہے اس لیے ۔ مجھے مارو
کیونکہ آپ انجمن تاجران کے صدر ہیں اس لیے ۔ مجھے مارو
کیونکہ آپ سیاسی جماعت کے لاڈلے ہیں اس لیے ۔ مجھے مارو
میں پاگل، آپ کو اور آپ کے بچوں کو مرنے سے بچاتا ہوں اس لیے ۔ مجھے مارو

مجھے جان سے مارو۔ کیونکہ میں آپ کی جان بچانے کے لئے دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں۔ خود کش حملے میں مرتا ہوں۔ اپنے بچے خود یتیم کرتا ہوں۔ اپنی بیوی کو بیوہ کرتا ہوں۔ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بے اسرا کرتا ہوں اس لئے میری وردی نہ پھاڑو۔ مجھے تھپڑ نہ مارو۔ مجھے ڈنڈے سوٹے نہ مارو۔ بلکہ مجھے جان سے مار دو۔

میرے ٹکڑے ٹکڑے کرو پھر ان کو اکٹھا کرنا، پرزہ پرزہ جمع کرنا، تابوت میں ڈالنا، سبز پرچم میں لپیٹنا، ساری دنیا اور میری ساری نوکری میں مجھے مارنے والو میری عزت نہ کرنے والو، مجھے گالیاں سر عام گاڑیوں سے منہ نکال کر دینے والو میرے جنازے پر آنا۔

پھر بیان دینا۔ ہم شہید کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ میرے بچوں کے ساتھ تصویریں بھی بنانا اور پھر ان کو فیس بک پر لگانا، میڈیا پر لگانا، میرے مرنے کے بعد ہر سال پروگرام کرنا، مجھے خراج تحسین پیش کرنا، مگر میری زندگی میں میری قدر نہ کرنا۔

کیونکہ میری اوقات کیا ہے۔ صرف ایک چودہ گریڈ کا دو ٹکے کا وارڈن۔ جو آپ کو اور آپ کے بچوں کو سڑک پر مرنے سے بچانے کے لئے آپ کی گالیاں کھاتا ہے۔ مار کھاتا ہے۔ جوتے کھاتا ہے۔ ٹھڈے کھاتا ہے۔ ماں بہن کی گالیاں سنتا ہے۔ کس کے لئے؟ آپ کے لیے جس کی آپ کو ضرورت نہیں۔

اس لئے مجھے مارو نہیں، بلکہ جان سے مارو۔

(کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک) پی ایس پی، پی پی ایم
چیف ٹریفک افسر، لاہور۔

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments