سیاسی شہادتیں اقتدار کے لیے نہیں ہوتیں


ذوالفقار علی بھٹو 1958ء میں خوبرو تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان کی حیثیت سے پاکستان کی سیا ست میں طلوع ہوئے اور آخری سیڑھی پر پہنچ کر 4 اپریل 1979ء کو غروب ہو گئے۔ انہوں نے زندہ حیثیت سے 21 برس سیاست کی مگر مرنے کے بعد بھی 42 برس سے پاکستانی سیاست میں موجود ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو، سکندر مرزا اور ایوب خان کی انگلی پکڑ کر سیاست میں آئے۔ وہ ایوب خان کے بہت چہیتے وزیر بھی تھے اور ان کی ایوب خان کے لیے پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ہی ایوب خان کو فیلڈ مارشل کہلوانے کی تجویز دی تھی۔

اگر یہ درست بھی ہے تو پھر بھی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ انہوں نے پاکستانی سیاست کو جو فلاسفی دی اب سب پاکستانی سیاست دان اسی پروڈکٹ کو مختلف ناموں سے بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی کا زمانہ تھا جب اردگرد کمیونزم کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ عین اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بے آواز گلی کوچوں میں پھر کر لوگوں کو بتایا کہ اس زمانے میں کوئی شے عوام سے طاقتور نہیں ہے۔ انہوں نے گونگے لوگوں کو زبان دی تاکہ وہ طاقتور حکمران اقلیت کو کمزور کر سکیں اور غریب اکثریت طاقتور ہو جائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا یہاں جمہوریت کو متعارف کروانا ہی شاید اس ملک میں کمیونزم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا کیونکہ اکثریتی لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کمیونزم کی بجائے جمہوریت کی آواز پر لبیک کہا جو کہ دنیا والوں کے لیے بھی زیادہ قابل قبول تھا۔ بھٹو فلاسفی میں عوام کو جو چیز دینے کا کہا گیا تھا وہ عام لوگوں کی اقتدار میں شمولیت تھی جس کو مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے آئین اور پارلیمانی نظام دیا۔

اب اگر دیکھا جائے کہ بھٹو ڈاکٹرائن کس حد تک پاکستانی عوام کو ڈلیور ہو چکی ہے تو پتا چلتا ہے کہ مختلف صوبوں میں اس کی صورتحال مختلف ہے۔ پنجاب میں کچھ خاص باتیں فطری طور پر موجود ہیں جن میں عوام کا تعلیم یافتہ ہونا اور جدید ترقی کو زیادہ قبول کرنا شامل ہے جس کے باعث یہاں کے لوگوں میں فیوڈل ازم اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف قدرتی ردعمل موجود تھا۔ یہ بات بھانپتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا پہلا عوامی جلسہ اسی لیے لاہور میں ہی کیا۔

یہاں کے لوگوں نے ان کی آواز کو بہتر طور پر سمجھا۔ اب یہ عالم ہے کہ پنجاب میں موجود ہر سیاسی جماعت میں جاگیردار اور فیوڈل کم رہ گئے ہیں۔ باقی تمام کے تمام ایسے چہرے ہیں جو گزشتہ دہائیوں میں سٹوڈنٹس پولیٹکس یا گلی محلوں کی سیاست کے بعد سامنے آئے اور جن کی پہچان جاگیردارانہ نظام کے حوالے سے نہیں کی جا سکتی۔ کراچی حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں بھی تعلیم یافتہ اور جدید ترقی کو ماننے والوں کی جماعتیں ڈیرے ڈال چکی ہیں۔

کوئٹہ اور پشاور میں بھی تعلیم اور ترقی کے قریب ہونے کے باعث کچھ نہ کچھ عوامی شعور موجود ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ کے زیادہ تر باقی علاقوں میں وہی چہرے اور وہی خاندان اب تک سیاہ و سفید کے مالک ہیں جو ہمیشہ سے اپنے عوام کا نام ایکسپلائٹ کر کے وفاق سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور اپنی رعایا کو بھتے کی خیرات بھی نہیں دیتے۔ جاگیرداری نظام میں لوگوں اور جانوروں کو ایک ہی طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے جس میں عام لوگوں کو تعلیم اور جدید ترقی سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ سوچنے اور بولنے کی صلاحیت سے عاری رہیں۔

جاگیرداری نظام ملک کے ڈکٹیٹروں اور غیرملکی دشمنوں کو بہت راس آتا ہے کیونکہ وہ چند وڈیروں، سرداروں اور ملکوں کے ذریعے کروڑوں لوگوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اسی لیے وہاں کے وڈیروں، سرداروں، ملکوں اور قبائلی عمائدین نے اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور عام لوگوں تک جمہوریت کے فلسفے کو پہنچنے نہ دیا گیا۔ 73 برس گزرنے کے بعد اگر پاکستان کے سیاسی نقشے کو دیکھیں تو یہ بات اب تک چلی آ رہی ہے۔

اب پیپلزپارٹی کے اندرونی حالات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کا ہی نام آتا ہے جن کے بارے میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ وہ اختلاف رائے بالکل پسند نہیں کرتے اور اختلاف کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے پوری قوت کا استعمال بھی کرتے تھے۔ وہ طاقتور شخصیت اور پیپلز پارٹی کے بانی فرد ہونے کی وجہ سے آخر تک پارٹی کی چیئرمین شپ پر برقرار رہے لیکن ان کے جانے کے بعد بھی پیپلز پارٹی میں اختلاف رائے کو قبول نہ کرنا اور پارٹی چیئرمین کے عہدے پر بھٹو خاندان کے نام کی تختی آویزاں رکھنے کی روایت اب تک موجود ہے۔

پیپلزپارٹی نے عوام کو جمہوریت ڈلیور کرنے کا اعلان کیا تھا جو پنجاب اور ملک کے چند دیگر بڑے شہروں میں خودبخود تعلیم اور ترقی کو قبول کرنے کی وجہ سے تو سچ ہے مگر دیگر علاقوں میں ایسا نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بھٹو فیکٹر کمیونزم کو روکنے کے لیے لایا گیا تھا یا غریب اکثریت کو طاقتور بنانا مقصود تھا، یہ بات حقیقت ہے کہ جمہوریت ڈلیور کرنے کے نعرے کے عوض بھٹو خاندان نے اس ملک پر سول حکمرانوں میں سے سب سے زیادہ حکمرانی کی اور اب اسی خاندان کی نئی نسل کو بھی کارکن کی بجائے حکمران بننے کی تربیت دے دی گئی ہے۔

بلاشبہ طاقت کے کھیل کے دوران اس خاندان کی جانیں بھی گئیں لیکن جب سے تاریخ لکھی جا رہی ہے یہ بات واضح ہے کہ اقتدار کی پگڈنڈیوں میں جگہ جگہ تلواریں، بندوقیں اور پھانسی گھاٹ آتے ہیں۔ اگر کسی نے ان راستوں پر چلنا ہے تو خونی نیتوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں ہر پارٹی کے بے شمار چھوٹے بڑے سیاسی کارکنوں سمیت وزیراعظم لیاقت علی خان اور صدر جنرل ضیاء الحق بھی سیاسی قتل کی بھینٹ چڑھے۔ کچھ لوگوں کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی ظالم ہاتھوں کا شکار ہوئیں جبکہ امریکہ کے کینیڈی اور بھارت کے گاندھی خاندانوں میں بھی جابجا سیاسی قتل موجود ہیں۔ امریکہ میں سیاہ فاموں کی آواز بلند کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ کی آواز کو بھی بارود میں دفن کر دیا گیا۔

لہٰذا پوری دنیا میں سیاسی شہادتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں سیاسی شہادتوں کو پارٹی بچانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ شخصیات کی بجائے سیاسی شہادتوں کی فلاسفی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں سالہا سال سے سیاسی شہادتوں کو کندھوں پر اٹھاکر پارٹی بچانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے شہرشہر پھرا جاتا ہے۔ کیا اب اس چال بازی کو مسترد نہیں کر دینا چاہیے کیونکہ سیاسی شہادتیں پارٹی بنانے کے لیے ہوتی ہیں، اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments